کہتے ہیں سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا۔ بالفرض یہ درست ہے تو پھر اس کی زبان میں شیرینی بھی نہیںہوتی۔ طنز و تشنیع ‘ نوک جھونک‘ چشمک اور کسی حد تک ہرزہ سرائی اور برہنہ گفتاری اس کے جزو لاینفک نہیں۔ غالب نے کہا تھا؎
ہرچند ہو مشاہدہ حق کی گفتگو
بنتی نہیں ہے بادہ و ساغر کہے بغیر
کوئی بھی سیاسی جلسہ ہو‘ لیڈر کو عوامی خطاب کرنا ہو تو موزوں اور برجستہ اشعار کے علاوہ ہلکی پھلکی ’’موسیقی‘‘ بھی ضروری ہوتی ہے۔ وگرنہ مجمع مضطرب اور بور ہو جاتا ہے۔ لیڈر کو اگر گندے انڈے اور ٹماٹر نہ بھی پڑیں تو سامعین کی آنکھیں ضرور شعلہ بار ہوجاتی ہیں۔
اس لمبی چوڑی تمہید کی وجہ وزیراعظم عمران خان کی وہ تقریر ہے جس میں انہوں نے مخالفین کے خوب لتے لئے۔ ان پر لفظی گولہ باری کی اور بقول سودا …؎
ناوک نے تیرے صید نہ چھوڑا زمانے میں
تڑپے ہے مرغ قبلہ نما آشیانے میں
میاں نوازشریف کی ’’مفروضہ بیماری‘‘ کا ذکر کرتے ہوئے باقاعدہ ان کی MRI کر ڈالی۔ پہلے تو ڈیزل مولانا فضل الرحمن کی گاڑی میں ڈالتے اب کے عملاً ان کو پلا بھی دیا۔ عزیزی بلاول کی رومن اردو کو رنگوں کے حصار میں لے آئے۔ آٹا ہے۔ جاٹا ہے۔ وغیرہ وغیرہ۔ خان صاحب کو شاید معلوم نہیں کہ وطن عزیز میں اس قسم کی گورا شاہی اردو بولنے والے کو نہایت پڑھا لکھا شخص سمجھا جاتا ہے۔ یہ ملک تو آزاد ہو گیاہے مگر فکر و نظر آزاد نہیں ہو سکی۔ اب تک ہمارا بادہ نیم رس ہے۔ ذہن نارسا ہے اور سر پر کشت کلیسا ہے۔ اگر کوئی شخص انگریزی کا ایک لفظ بھی غلط بول جائے یا تلفظ میں غلطی کرے تو وہ قابل گردن زدنی ٹھہرتا ہے۔ لوگوں کو وہ لطیفہ آج بھی یاد ہے جب چودھری محمد حسین میئر لاہور نے شالیمار باغ میں اپنی تقریر کے دوران پرنس فلپس کوفل لپس کہہ دیا تھا۔ ایک عرصہ ہوا وہ اللہ کو پیارے ہو گئے ہیں مگر ان کے شبد ہنوز ان کی قبر کا طواف کرتے نظر آتے ہیں۔
خان صاحب ایک طویل عرصہ تک برطانیہ میں رہے ہیں۔ یہ دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیں کبھی کسی انگریز نے انہیں خان کہا ہے۔ ہمیشہ کھان کی گردان ہوتی ہے۔ حاکموں کی ہمیشہ یہ خوبی رہی ہے کہ انہوں نے غلام قوموں پر اپنا کلچر‘ زبان اور سوچ بھی مسلط کر رکھی تھی۔ اچھے خاصے دریائے سندھ کو انڈس بنا دیا۔ دریائے دجلہ اور فرات کے کان مروڑ کر انہیں Tigris (ٹگرس) اور ’’یوفریٹر‘‘ کا لبادہ اوڑھا دیا۔ وغیرہ۔ خان صاحب شاید یقین نہ کریں۔ بلاول نے اپنی اردو کو خاصا درست کر لیا ہے۔ چند سال کی مہلت دیں‘ فر فر بولنے لگے گا۔
شریف برادران کے خلاف بھی اب لکیر پیٹنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ خود کردہ را علاجے نیست۔ گھبراہٹ میں جسے اب یہ رحم کہتے ہیں۔ انہوں نے انہیں لندن روانہ کر دیا۔ اب پچھتا رہے ہیں۔ شیخ رشید نے جو مشورہ دیا ہے اس پر کان دھریں۔ وہ جتنا عرصہ پاکستان میں رہے ان کے حواس پر سوار رہے۔ ان کی سوچ کو مفلوج کئے رکھا۔ ایک ایسا کانٹا جو خان صاحب کے حلق میں پھنس گیا تھا۔ ان کے پاس اتنا وقت نہیںتھا کہ غربت‘ بیروزگاری اور مہنگائی کو کم کرنے کا اپائے کرتے۔
جنرل پرویز مشرف کم عقل نہیں تھا کہ سزا کے باوصف اس نے انہیں ملک سے باہر جانے دیا۔ ممتاز دولتانہ اور نواب مظفر علی قزلباش نے بھٹو پارٹی کے خلاف الیکشن لڑا۔ اس دوران وہ تنقید کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے تھے۔ گالم گلوچ بھی ہوئے۔ جب دونوں الیکشن ہار گئے تو بھٹو نے کوئی انتقامی کارروائی نہ کی۔ دولتانہ کو برطانیہ کا ہائی کمشنر بنا دیا۔ قزلباش کو فرانسیسی سفیر بنا کر بھیج دیا۔ جنرل گل حسن اور ایئر مارشل رحیم سے زبردستی استعفیٰ لیا۔ لیکن انہیں بھی غالباً اٹلی اور سوئٹزرلینڈ بھیج دیا۔ ایک شاطر سیاستدان ہونے کے ناطے اسے علم تھاکہ جتنا عرصہ یہ ملک میں رہیںگے‘ کوئی نہ کوئی تخریب کاری کرتے رہیں گے۔ آنکھ اوجھل پہاڑ اوجھل کامحاورہ ویسے تو نہیں وضع کیا گیا۔ شیخ رشید کا مشورہ مانتے ہوئے لگے ہاتھوں زرداری کو بھی چلتا کریں اور پانچ سال تک آرام سے حکومت کریں۔ ایک کروڑ نوکریاں‘ پچاس لاکھ گھر‘ ان پر یوٹرن نہیں لیا جا سکتا۔ انہیں ایک نہ ایک دن تو عوام کے پاس جانا ہی ہے باز پرسی کی ساعت بد سے بچیں۔
مولانا صاحب کے ساتھ اگر CEASE FIRE نہیں ہو سکتی تو کم از کم DECREASE FIRE ضرور ہونی چاہئے۔ کبھی بھی مذہبی شخصیتوں کو کمزور نہ سمجھیں۔ بھٹو مرحوم کی مثال آپ کے سامنے ہے۔ نظام مصطفیٰ کی تحریک چلا کر مولویوں نے ان کی واضح جیت کو ہار میں بدل دیا۔ خان صاحب سے اتفاق نہیں کیا جا سکتا کہ خدانخواستہ مولانا کوئی بکائو مال نہیں۔ بالفرض ایسا ہے تو پھر انہیں رام کرنے میں کیا امر مانع ہے؟
ایک بیدار مغز حکمران کو آنے والے حالات کا ادراک ہوتا ہے۔ HE TAKES TIME BY THE FOR LOCK انکی اہمیت جسے کسی حد تک NUISANCE VALUE بھی کہا جا سکتا ہے‘ کو بھانپتے ہوئے پہلے دن سے ہی ماہیت قلب کا اہتمام کرنا چاہئے تھا۔ سیاست میں کوئی مستقل دوست یا دشمن نہیںہوتے۔ اگر شیخ رشید اور چودھری صاحبان کو گلے لگایا جا سکتا ہے تو مولانا سے ہاتھ ملانے میں قطعاً کوئی ہرج نہیں۔
جیسا کہ پہلے کہا جا چکا ہے‘ عمران خان کی تقریر پر تنقید کا کوئی جواز نہیں ہے۔ ان کے خلاف جو زبان استعمال ہوتی رہی ہے جس بھونڈے انداز میں ان کی کردار کشی کی گئی ہے‘ اس کو بھی مدنظر رکھنا چاہئے۔ ’’جگتیں‘‘ کوئی نئی بات نہیں ہے۔
بھٹو مرحوم ایئر مارشل اصغر خان کو آلو خان کہتا تھا۔ خان قیوم کو ڈبل بیرل خان کے لقب سے نوازا جاتا تھا۔ ایک مرتبہ سید احمد سعید کرمانی نے ان کے خلاف بیان دیا۔ اخبار نویسوں نے جواب لینا چاہا تو بھٹو بولے۔ WHO IS SHE? مولانا نورانی‘ مفتی‘ ولی خان کے متعلق تانیث کا لفظ استعمال کیا۔ یہ لوگ بھی بھلا کہاں بخشنے والے تھے۔ ان کے ’’پانچوں عیب شرعی‘‘ گنوا ڈالے ان کے FACIAL CONTOURS کونیرو سے ملا ڈالا۔ تکبیر کے صلاح الدین نے تو باقاعدہ ایک مضمون لکھا قائداعظم مہاتما گاندھی کو آڑے ہاتھوں لیتے تھے۔ برطانیہ میں بھی اس قسم کے چٹکلے ہوتے رہتے ہیں۔ وزیراعظم چرچل کے مخالفین میں ممبر پارلیمنٹ لیڈی ایشٹن انہیں برا بھلا کہنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیتی۔ ایک مرتبہ پارلیمنٹ میں تقریر کرتے ہوئے پھٹ پڑیں۔ بولیں‘ چرچل تم اس قدر برے آدمی ہو کہ اگر میں تمہاری بیوی ہوتی تو تمہاری کافی کے کپ میں زہر ملا دیتی‘‘۔ میں جانتے ہوئے بھی فوراً پی جاتا چرچل نے ترت جواب دیا۔ محفل کشت زعفران بن گئی۔
سمجھ میں نہیں آتا کہ سیاسی ضابطہ اخلاق سے ناقدین کی کیا مراد ہے؟ کیا عمران خان یہ کہے۔ حضرت میاں محمد نواز شریف صاحب بہت کرپٹ انسان ہیں۔ محترم شہباز شریف مدظلہ، شوباز ہیں جو بہروپیوں کی طرح ہر روز نیا سوانگ رچاتے ہیں۔ قبلہ سائیں آصف علی زرداری صاحب ٹین پرسنٹ نہیں بلکہ سینٹ پرسنٹ ہیں۔ شمس العلماء محترم المقام مولانا فضل الرحمن ’’ڈیزل کے پرمٹ پر بک جاتے ہیں یا اپوزیشن یہ کہے کہ فخر پاکستان‘ کرکٹ کے سابق کپتان جناب عمران خان صاحب نہایت نااہل ‘ ناسمجھ اور کینہ پرور شخص ہیں… سیاست میں ایسا نہیں ہوتا۔ اسی لئے کہتے ہیں کہ جو شخص اپنا شجرہ نسب جاننا چاہے وہ کوچہ سیاست میں داخل ہو جائے۔ مخالفین خود اس کا شجرہ کھنگال کر رکھ دیں گے۔
آخری بات!۔ کرپشن کے خلاف جہاد ایک نیک عمل ہے۔ اس کو کسی نہ کسی رنگ میں جاری رہنا چاہئے۔ یہ ایک ایسی آکاس بیل ہے جو ہرے بھرے درخت کو بھی جب اپنے زرد شکنجے میں جکڑ لیتی ہے تو وہ ٹنڈمنڈ ہو جاتا ہے۔ لیکن میگا کرپشن عام آدمی کا مسئلہ نہیں ہے۔ غریب کے نزدیک کرپٹ وہ پولیس کنسٹیبل ہے جو اسے چند گالیاں دیکر اور ایک تھپڑ رسید کر کے اس کی ریڑھی سے ناشپاتی یا امرود مفت اٹھا لیتا ہے۔ وہ پٹواری ہے جو بات کرنے کے بھی پیسے مانگتا ہے۔ وہ مدرس ہے جو سکول کے بعد اس کے بیٹے سے گھر کے کام کاج کرواتا ہے۔ جن لوگوں نے برس ہا برس میگا کرپشن کی ہے انہوں نے اس طویل عرصے میں اس کو محفوظ رکھنے کا بھی بندوبست کر رکھا ہے۔ ہر جرم ثابت کرنے کے لئے موثر شہادت درکار ہوتی ہے۔ جو اکثر دستیاب نہیں ہوتی۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38