ہم نے کئی لوگوں کو یہ کہتے سنا کہ ایم کیو ایم والے جاتے ہیں تو چلے جائیں کوئی فرق نہیں پڑتا یہ ہمیشہ ہی ایسے کرتے ہیں ہر حکومت کے ساتھ اتحاد کرتے ہیں اور پھر آتے جاتے رہتے ہیں۔ اب بھی چلے گئے ہیں تو واپس آ جائیں گے نہیں بھی آئیں گے تو حکومت چلتی رہے گی۔ یہ وہی نادان دوست ہیں جو پارلیمانی نظام کے تقاضوں، جمہوری و سیاسی روایات سے عاری ہیں۔ رات کو سوتے ہیں جو خواب دیکھتے ہیں وہی بولنا شروع کر دیتے ہیں۔ چائے پیتے پیتے جو ذہن میں آتا ہے وہ ٹویٹ کر دیتے ہیں۔ نہ سیاسی و جمہوری روایات سے واقف ہیں نہ حکومتی لب ولہجہ رکھتے ہیں نہ دور کی نظر ہے نہ تعلق رکھنا جانتے ہیں نبھانا تو دور کی بات ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سیاسی ضروریات اور سیاسی اتحادوں کو بھی اپنے خیالات کی طرح ہی سمجھتے ہیں جو پل بھر میں بدلتے ہیں یہی رویہ حکومت کے لیے نقصان کا باعث بن رہا ہے۔
متحدہ قومی موومنٹ کی حکومت سے علیحدگی کے بعد اب گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس نے بھی تحفظات کا اظہار کر دیا ہے۔ آئندہ چند روز میں بلوچستان سے اختر مینگل کی طرف سے بھی انتہائی سخت موقف سامنے آ سکتا ہے۔ پنجاب میں پاکستان تحریک انصاف اور مسلم لیگ ق کے مابین بھی سب اچھا نہیں ہے۔ دونوں کے مابین اختلافات سب سے زیادہ خراب ہیں۔ شاید اتنے کشیدہ تعلقات کسی دوسری اتحادی جماعت کے ساتھ نہیں ہوں گے جتنے کشیدہ مسلم لیگ ق کے ساتھ ہیں۔ فرق صرف یہ ہے ق لیگ والے اپنے تحفظات یا اختلافات کا ذکر میڈیا میں نہیں کرتے اپنے پتے بہت احتیاط کے ساتھ کھیلتے ہیں اور سیاسی میدان میں تجربے کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہیں۔ آج ہم پنجاب کی سیاست اور یہاں کی سب سے بڑی اتحادی جماعت مسلم لیگ کے ساتھ اختلافات کی وجوہات سے ہی آغاز کرتے ہیں۔ چودھری پرویز الہی کا بنیادی مطالبہ یہی ہے کہ جن اضلاع میں ان کا کنٹرول ہے وہاں فنڈز ان کے ذریعے اور مشاورت سے خرچ ہونگے۔ انتظامیہ میں تبدیلیاں کرتے وقت ناصرف اعتماد میں لیا جائے بلکہ مشاورتی عمل کے بغیر کسی تبدیلی کی ضرورت نہیں ہے۔ اس کے علاوہ مونس الٰہی کو اب تک وفاقی کابینہ میں شامل نہ کرنا بھی اختلافات کی بڑی وجہ ہے۔ اتحاد کے وقت یہ طے پایا تھا کہ مونس الٰہی کو وفاقی کابینہ میں شامل کیا جائے گا لیکن خاصا وقت گذرنے کے باوجود ابھی تک پاکستان تحریک انصاف نے اپنا وعدہ پورا نہیں کیا۔ جہاں تک تعلق پاکستان مسلم لیگ ق کے اپنے اضلاع میں انتظامیہ میں اکھاڑ پچھاڑ یا تبدیلیوں کا ہے اس حوالے وزیراعظم عمران خان کا موقف بہت سخت ہے وہ اس معاملے میں ق لیگ کی کوئی بات سننے کو تیار نہیں ہیں۔ یوں مونس الٰہی کو وزارت نہ دینے کے بعد چودھری پرویز الٰہی کے مطابق ق لیگ کے اکثریتی علاقوں میں اہم انتظامی فیصلوں میں ان کے مطالبے کو نظر انداز کرنا اتحاد کی روح اور معاہدے کی خلاف ورزی ہے۔ حکومت سب کچھ جانتے ہوئے بھی اس اہم اتحادی جماعت کے مطالبات کو نظر انداز کر رہی ہے۔
پاکستان مسلم لیگ ق کی قیادت سمجھدار ہے وہ جانتے ہیں کہ اگر پنجاب میں عثمان بزدار کی تبدیلی کے بعد نئے وزیر اعلیٰ کی بات ہوئی تو ان کی طاقت کیا ہو گی اور ان کے ووٹوں کی اہمیت کیا ہو سکتی ہے۔ اس حوالے سے ا نہیں اپنی طاقت اور ووٹوں کی اہمیت کا اندازہ ہے۔ وہ پارلیمانی سیاست کی سمجھ بوجھ اور تجربے کو بہترین انداز میں استعمال کرتے ہوئے اپنا وقت بھی گذار رہے ہیں اور وقت آنے پر وہ اپنے کارڈز ایسے انداز میں استعمال کریں گے کہ صوبے میں اقتدار کا نقشہ ہی بدل دیں گے۔ انہیں اپنی طاقت اور پاکستان تحریک انصاف کی ضرورت کا بخوبی اندازہ ہے اور وہ ان دونوں چیزوں کا استعمال بہترین سیاسی طریقے سے کر رہے ہیں۔ جب کبھی ان ہاؤس کوئی غیر معمولی حالات پیدا ہوتے ہیں تو پنجاب میں پاکستان مسلم لیگ ق حیران کن نتائج دینے کی پوزیشن میں ہو گی۔ پاکستان تحریک انصاف کے فیصلہ سازوں کو یہ بات شاید اس وقت بھی سمجھ نہیں آئے گی جب وقت ان کے ہاتھ سے نکل چکا ہوگا۔ اتحاد کو چلانے کے لیے اتحادیوں کے ساتھ کیے گئے وعدوں کو نبھانا اولین ترجیح ہونا چاہیے ملک میں جس طرح کے سیاسی حالات ہیں اور بیرونی طور پر حکومت کو جن مسائل کا سامنا ہے انہیں دیکھتے ہوئے تو اتحادیوں کو کابینہ اور اہم فیصلوں میں عزت و احترام دینا چاہیے لیکن پی ٹی آئی اس سیاسی روایت سے ناواقف ہے اور اسکا نتیجہ صرف نقصان کی صورت میں ہی سامنے آئے گا۔
گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس نے سندھ میں پاکستان پیپلز پارٹی کے خلاف الیکشن لڑا اور وہاں آصف علی زرداری کے خلاف جیتنا معمولی بات نہیں ہے سب جانتے ہیں کہ زرداری صاحب الیکشن کیسے جیتتے ہیں پی ٹی آئی کا موقف رہا ہے کہ وہ اس سیاسی مافیا کے خلاف ہے دوسری طرف اس مافیا کے سامنے کھڑے ہونے والوں اور حکومت سازی میں ساتھ دینے والوں کو دیوار سے لگا رکھا ہے۔ ارباب غلام رحیم اور ان کے ساتھیوں کے تحفظات کو دور نہ کیا گیا تو حکومت کے مسائل میں اضافہ ہو گا۔ وہ وقت، توانائیاں اور وسائل جو ملکی مسائل کو ختم کرنے اور عوام کو ریلیف دینے میں خرچ ہونے چاہییں وہ اتحاد بچانے، اتحاد قائم رکھنے پر خرچ ہوتے رہیں گے تو عوامی فلاح پر کوئی خاک توجہ دے گا۔
اتحادی جب جاتے ہیں واپس آتے ہیں تو پہلے سے زیادہ سخت اور کڑی شرائط پر آتے ہیں اور اگر وہ واپس نہیں آتے ہیں تو پھر کسی اور کو جانا پڑتا ہے۔ اتحادی بیساکھیوں پر کھڑی حکومت کو یہ سمجھنا چاہیے کہ اس ساری مشق کا اختتام ان ہاؤس تبدیلی کی صورت میں بھی ہو سکتا ہے۔ اتحادیوں کو وزیراعظم عمران خان کی نیت اور ملک کے لیے کچھ کرنے کے جذبے پر کوئی زک نہیں ہے لیکن وہ یہ بھی چاہتے ہیں کہ وزیراعظم ان کی سنیں اور آگے بڑھنے کے لیے بروقت فیصلے کریں اور جب فیصلے کر لیں تو پھر پیچھے مڑ کر نہ دیکھیں۔ اتحادیوں کو اتحادی سمجھیں ان سے ملازمین کی طرح کا برتاؤ کرنا ہزاروں لاکھوں ووٹوں کی توہین ہے۔ حقیقی جمہوری رویوں کو فروغ دیں، کچھ سنیں کچھ سنائیں فیصلوں کو نافذ کرنے کے بجائے مشاورتی عمل کو اہمیت دیں۔ اگر موجودہ صورت حال برقرار رہی تو پھر وہ سب کچھ ہو سکتا ہے جو حکمران جماعت کے خیال میں کبھی نہیں ہو سکتا۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38