جعلی ادویات کا دھندہ
ضیاء الحق سرحدی پشاور
ziaulhaqsarhadi@gmail.com
جعلی ادویات کا کاروبار ملک میں تیزی سے بڑھتا جا رہا ہے جس کی وجہ سے لوگوں میں ایڈز، کینسر، ہیپاٹائٹس اور ٹی بی جیسے مہلک امراض بھی بڑھ رہے ہیں۔ فارمیسی میں جو کام ایک فارمسٹ کے کرنے کا ہوتا ہے وہی کام ایک ایسا آدمی کررہا ہوتا ہے جو فارمیسی کی ابجد سے بھی نابلد ہوتا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق ملک میں ادویات کی بڑی مقدار جعلی ہے اور بغیر نسخوں کے بنائی جا رہی ہے، معصوم اور غریب عوام اپنی حلال آمدن سے جعلی ادویات کی مد میں اپنے لئے موت کا سودا کررہے ہوتے ہیں۔ڈرگ رجسٹریشن اتھارٹی کی نااہلی کے سبب ایسی کئی دوائیاں رجسٹر ہو رہی ہیں جو سراسر انسانی صحت کیلئے مضر ہیں۔ ایک اور رپورٹ کے مطابق پچھلے کچھ سالوںمیں جتنی دوائیاں رجسٹرہوئی ہیں پچھلی کئی دہائیوں میں نہیںہوئیں اور اس کاروبار میں جعل ساز کمپنیاں مال بنا رہی ہیں۔ مارکیٹ میں بڑی اور قابل بھروسہ سمجھی جانے والی دوائوں کے نام پر جعلی ادویات کی فروخت بڑے پیمانے پر کی جا رہی ہے اور ستم ظریفی یہ ہے کہ میڈیکل سے تعلق رکھنے والے افراد بھی اصل اور نقل میں پہچان کرنے سے قاصر ہیں۔
پاکستان میں جہاں ہر شعبے میںبددیانتی ہو رہی ہے عالمی ادارہ صحت کا کہنا ہے کہ صحت کی کم سہولتوں کے حوالے سے پاکستان سب سے پسماندہ ملک ہے جہاں ادویات اور غذاکی قلت کے باعث روزانہ1184بچے وفات پا جاتے ہیں۔45فیصد بچوں کی اسی وجہ سے ذہنی اور جسمانی گروتھ مکمل نہیں ہو پاتی اور وہ وقت سے پہلے ہی موت کی نیند سو جاتے ہیں۔ماہرین کے مطابق پاکستان میں بھی دنیا کے دوسرے ممالک کی طرح جعلی ادویات سے ہر سال اربوں روپے کمائے جاتے ہیں لیکن ساتھ ہی یہ جرم ہر سال ہزار ہا انسانوں کو وقت سے پہلے قبروں میں اتار رہا ہے۔عالمی ادارہ صحت کے مطابق دنیا بھر میں جعلی وغیر معیاری ادویات کے کاروبار کا سالانہ حجم دوسو ارب ڈالر کے قریب ہے۔
پاکستان میں جعلی ادویات کا کاروبار بہت پھیلا ہوا ہے، شہروں میں جعلی ادویات بنانے کی فیکٹریاں قائم ہیں۔ایسے اہلکاروں کے ان دعووں کی تردید کے لیے محض چند بڑے حقائق کی طرف اشارہ کرناہی کافی ہوگا۔2012میں پاکستان کے دو شہروں میں کھانسی کا شربت پینے کے نتیجے میں سینکڑوں افراد ہلاک ہو گئے ۔وجہ یہ تھی کہ شربت تو کھانسی کے علاج کے لیے تھا مگر پینے والے اسے نشے کے لیے بہت زیادہ مقدار میں پیتے رہے۔ کھانسی کے اس شربت میں ایک ایسا زہریلا مادہ بھی تھا،جو نہیں ہونا چاہیے تھا اور جو مارفین سے بھی پانچ گنا زیادہ خطرناک تھا اسی طرح درجنوں کئی جعلی ادویات بھی مارکیٹ میں موجود ہیں جو مریضوں کی بیماری میں طوالت حتیٰ کہ ان کی موت تک کی وجہ بن جاتی ہیں۔
صحت کے حوالے سے اور علاج معالجے کیلئے پاکستان کا ہر شہری اپنے آمدن کا اوسطاً 37فیصد ادویات کی خرید اری اور ڈاکٹرز کی فیسوں کی مد میں ادا کر دیتا ہے۔ اس پر ظلم کی انتہاء یہ ہے کہ پاکستان کے اندر فروخت کی جانیوالی ادویات ناصرف انتہائی مہنگی ہیں بلکہ خوفناک حقیقت یہ ہے کہ فروخت ہونیوالی ان ادویات میں سے ستر فیصد دوائیں جعلی اور جان لیوا ہوتی ہیں۔پاکستان میں دواسازی کی صنعت کے غیر جانبدار ماہرین کا کہنا ہے کہ عالمی ادارہ صحت کے رکن ممالک کی تعداد 191ہے۔ان میں سے صرف 20فیصد ریاستوں کے پاس فارما انڈسٹری سے متعلق کوالٹی کنٹرول کا نظام موجود ہے۔ جنوبی ایشیائی ملک میں کچھ’’ رجسٹرڈ دوا ساز ادارے‘‘ایسے بھی ہیں،جو فارماسیوٹیکل فیکٹریوں کے طور پر گھروں کے دو دو کمروں میں کام کر رہے ہیں۔ایسی ادویات بنانے والے کئی افراد ڈاکٹروں کے ساتھ مل کر کروڑوں کا منافع کما رہے ہیں۔جو نقلی دوا بیس روپے کی لاگت سے بنتی ہے،وہ ڈھائی تین سو روپے میں بیچی جاتی ہے ۔ڈاکٹر مریض کو جودوائی تجویز کرتا ہے،کبھی کبھی کیمسٹ کوئی دوسری دوائی بیچنے کے لیے مجوزہ دوائی اپنی مرضی سے تبدیل بھی کر دیتا ہے۔اس وقت ملک میں 37ہزار ادویات رجسٹرڈ ہیں، جعلی ادویات سے ہر سال ہزاروںافراد موت کی نیند سلادیتے ہیں یا پھر انہیں ہمیشہ کے لیے لا علاج مریض بنا دیا جاتا ہے۔ ڈرگ رجسٹریشن اتھارٹی کو اس غیر قانونی دھندے کے سد باب کیلئے اپنا فرض ادا کرنا ہو گا تاکہ لوگوں کی قیمتی جانیں ضائع نہ ہوں۔