سرمایہ کاری کیلئے حالات سازگار‘ دفاعی بلاک حالات کا تقاضا ہے
سعودی عرب کا پاکستان میں تاریخی سرمایہ کاری کرنیکا اعلان‘ پاک چین بلاک کا حصہ بننے کا عندیہ
سعودی عرب کی جانب سے پاکستان میں اربوں روپے کی سرمایہ کاری کے حوالے سے ایک اہم اور اعلیٰ سطحی اجلاس منعقد ہوا۔ اجلاس میں سعودی عرب کے شہزادے و وزیر پٹرولیم خالد بن عبدالعزیز سمیت 9رکنی وفدنے شرکت کی جبکہ پاکستان کے طرف سے وفاقی وزیر پٹرولیم غلام سرور وفاقی وزیر میرین ٹائم افیئرز سید علی حیدر زیدی صوبائی وزرا ظہور احمد بلیدی،سلیم کھوسہ مبین خلجی صوبائی سیکرٹری انرجی پسندخان بلیدی سمیت دیگر اعلیٰ حکام نے شرکت کی۔ اجلاس میں سعودی عرب حکومت کی جانب سے پاکستان میں مختلف شعبوں میں اربوں روپے کی سرمایہ کاری پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ اجلاس میں کہا گیا گوادر میں سعودی عرب نے اربوں روپے کی سرمایہ کاری سمیت یہاں پر ایک بہت بڑی آئل ریفائنری کے قیام میں بھی دلچسپی ظاہر کی ہے۔ پاکستان میں سعودی عرب تاریخ کی سب سے بڑی سرمایہ کاری کریگا۔ اجلاس کوبتایا پاکستان، چین اور سعودی عرب کی دوستی اور باہمی معاشی اشتراک دنیا بھر میں مثال ہوگااورسعودی عرب کی شمولیت سے سی پیک منصوبے کی اہمیت مزید بڑھ جائے گی۔ اجلاس میں بتایا گیا پاکستان میں ایگریکلچر کے شعبے میں سرمایہ کاری کرنے کے وسیع مواقع موجود ہیں۔ سعودی عرب کو پاکستان میں ایگریکلچر میں سرمایہ کاری کرنے کی دعوت دی گئی۔ پاکستان اور سعودیہ گوادر میں آئل سٹی کے قیام کیلئے آئندہ ہونیوالے اجلاس میں معاہدے پر بھی دستخط کرینگے۔غلام سرور خان نے کہا اگلے ماہ سعودی شہزادے کی آمد پر آئل ریفائنری لگانے کیلئے مفاہمت پر دستخط ہونگے۔انہوںنے کہایہ منصوبہ سعودی عرب کی پاکستان میں اب تک کی سب سے بڑی سرمایہ کاری ہو گی۔ سعودی وزیر پٹرولیم و انرجی خالد بن عبدالعزیز نے پاک چین بلاک کا حصہ بننے کا اشارہ دیتے ہوئے کہا ہے گوادر پورٹ خطے کی اہم بندرگاہ ہے۔پاکستان ،چین اور سعودی عرب کی دوستی اور اشتراک عالمی مثال ہوگا۔ گوادر میں مجوزہ آئل ریفائنری دس ارب ڈالر کی لاگت سے تعمیر کی جائیگی۔ اس آئل ریفائنری کی تیل ریفائن کرنے کی صلاحیت یومیہ دو لاکھ پچاس ہزار بیرل ہو گی۔
گوادر پاکستان کے انتہائی جنوب مغرب میں اور دنیا کے سب سے بڑے بحری تجارتی راستے پر واقع صوبہ بلوچستان کا شہر جو اپنے شاندار محل وقوع اور زیر تعمیر جدید ترین بندرگاہ کے باعث عالمی سطح پر معروف ہے۔(نام گوادر اصل بلوچی زبان کے دو الفاظ سے بنا ہے گوات یعنی ''کھلی ہوا '' اور در کا مطلب''دروازہ'' ہے۔ یعنی (ہوا کا دروازہ) گواتدر سے رفتہ رفتہ گوادر بن گیا ہے) 60 کلو میٹر طویل ساحلی پٹی والے شہر گوادر میں اکیسویں صدی کی ضرورتوں سے آراستہ جدید بندرگاہ کی تکمیل کا وقت جوں جوں قریب آ رہا ہے اسکی اہمیت روز بروز بڑھتی جا رہی ہے۔ آنیوالے وقت میں نہ صرف پاکستان بلکہ چین، افغانستان اور وسط ایشیاء کے ممالک کی بحری تجارت کا زیادہ تر دارومدار اسی بندر گاہ پر ہوگا۔
جولائی 2018ء میں انتخابات کے بعد پی ٹی آئی حکومت میں آئی تو معاشی صورتحال تشویشناک تھی۔ وزیراعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ انہیں ملک کی معاشی بدحالی کا اندازہ تو تھا مگر اس قدر بھیانک صورتحال ہوگی‘ جو حکومت میں آنے پر واضح ہوئی‘ اس کا گمان بھی نہیں تھا۔ 30 ہزار ارب روپے کے قریب قرض تھا اسکی قسط کی ادائیگی تو درکنار‘ اس پر واجب الادا سود کی ادائیگی کا بھی قومی خزانہ متحمل نہیں تھا۔ آئی ایم ایف کی کڑی شرائط اس سے رجوع کی راہ میں بڑی رکاوٹ تھی۔ پاکستان کے روایتی دوست ایسے مواقع پر سامنے آتے رہے ہیں مگر سردست وہ بھی نئی حکومت پر اعتماد کرتے نظر نہ آئے۔
وزیراعظم عمران خان نے سب سے پہلے سعودی عرب جانے کا فیصلہ کیا مگر سعودی عرب کی طرف سے مالی معاونت کا کوئی عندیہ نہ مل سکا۔ ان مایوس کن حالات میں آئی ایم ایف کے دروازے پر دستک دینے کے سوا کوئی چارہ کار نہیں تھا۔ اسی دوران سعودی عرب میں سرمایہ کاری کانفرنس ہونا تھی‘ امریکہ فرانس جرمنی اور دیگر کئی ممالک نے ترکی میں سعودیہ نژاد صحافی جمال خشوگی کے قتل کے باعث سرمایہ کاری کانفرنس میں شرکت سے انکار کر دیا۔ یہ سعودی عرب کیلئے تشویش کا باعث تھا۔ حالات سعودیہ کی عالمی تنہائی کا رخ اختیار کئے نظر آئے تھے‘ اس موقع پر پاکستان نے کسی بھی مصلحت اور عالمی دبائو کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے سعودی عرب میں سرمایہ کاری کانفرنس میں شرکت کی۔ پاکستان کا ان نازک حالات میں سعودی عرب کے شانہ بشانہ کھڑے ہونا گرم جوشی پر مبنی پاک سعودیہ تعلقات کیلئے ٹرننگ پوائنٹ ثابت ہوا۔ وزیراعظم عمران خان کے اس سعودی عرب کے دوسرے دورے کے دوران پاکستان پر نوازشات کی برسات نظر آئی۔ مجموعی طور پر 12‘ ارب روپے کا پیکیج تھا جس میں چھ ارب ڈالر کیش امداد شامل تھی۔ اس سے پاکستان فوری طور پر وہ ادائیگیاں کرنے کے قابل ہوگیا جو دیوالیہ پن سے بچنے کیلئے ناگزیر تھیں۔ سعودی عرب کے تعاون سے آئی سی یو میں پڑی معیشت سانس لینے لگی۔ بعدازاں عمران خان چین کے دورے پر گئے تو وہاں سے بھی بڑی امداد کا عندیہ ملا‘ گو اس امداد کی مالیت نہیں بتائی گئی تاہم چینی حکام نے یہ ضرور کہا کہ چین کی امداد سعودی عرب سے کم نہیں۔ اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ چین کی معاونت چھ ارب ڈالر سے زائد ہوگی۔
یمن وار میں سابق وزیراعظم نوازشریف نے سعودی فرمانروا کو فون کرکے پاک فوج بھجوانے کی پیشکش کی تھی‘ اس دور کی اپوزیشن نے اسکی مخالفت کرتے ہوئے معاملہ پارلیمنٹ میں لے جانے پر زور دیا تو پارلیمنٹ نے متفقہ قرارداد کے ذریعے فوج بھجوانے سے معذرت کرلی۔ اس سے کچھ ہی عرصہ قبل سعودی عرب نے پاکستان کو ڈیڑھ ارب ڈالر گفٹ کئے تھے۔ فوج بھیجنے سے معذرت پر پاک سعودی تعلقات میں سردمہری آگئی۔ سعودی عرب کے ساتھ قربت رکھنے والے ممالک کا رویہ بھی پاکستان کے حوالے سے سردمہری کے ساتھ تلخ اور ترش ہوگیا۔ امارات کے ایک وزیر نے تو پاکستان کو سبق سکھانے کی بھی بات کی۔ خشوگی کے قتل کے بعد جس طرح پاکستان نے سعودی عرب کو عالمی تنہائی کا شکار ہونے سے بچایا اس سے سرد مہری قصہ پارینہ اور ماضی کا حصہ بن کر معدوم ہوگئی۔ عرب لیگ کے 21 میں سے قابل ذکر اور معاشی لحاظ سے مضبوط ممالک بھی پاکستان کی طرف سے التفات سے دیکھ رہے ہیں۔ متحدہ عرب امارات کی طرف سے بڑا پیکیج بھی پاک سعودی تعلقات میں گرم جوشی کے باعث ہی ہے۔
پاکستان کی معیشت اب دوست ممالک کے تعاون سے بحران سے نکل کر مضبوط بنیادوں پر استوار ہوتی نظر آرہی ہے۔ پاکستان پر قرضوں کا بوجھ معیشت کی کمر توڑے دے رہا ہے۔ پرانا اور نیا قرض خواہ وہ کتنا ہی آسان اقساط پر واجب الادا کیوں نہ ہو‘ آخر چکانا ہی ہے۔ امداد اور قرض سے معیشت مضبوط اور ملک ترقی و خوشحالی کی راہ پر گامزن نہیں ہو سکتا۔ معیشت کو مضبوط بنانے کیلئے ایکسپورٹ اور سرمایہ کاری پر فوکس کرنا ہوگا۔ موجودہ حکمران ایلیٹ پر کرپشن کے الزامات نہیں ہیں‘ کرپشن کے خاتمے اور کڑے احتساب کے وعدے خود حکومتی زعماء یاد کراتے رہتے ہیں۔ بیرون ممالک بھی وزیراعظم عمران خان اور انکی ٹیم کی ساکھ پر عمومی اعتبار کیا جاتا ہے۔ سرمایہ کاری کیلئے پاکستان میں کسی بھی دور کے مقابلے میں بہتر مواقع ہیں۔ بجلی کا بحران ختم ہورہا ہے۔ دس سال قبل کی طرح دہشت گردی کے بھیانک واقعات نہیں ہورہے۔ چین کی سی پیک کے حوالے سے پاکستان میں بہت بڑی سرمایہ کاری ہورہی ہے۔ سعودی عرب آئل ریفائنری کے ساتھ زراعت میں سرمایہ کاری میں دلچسپی کا اظہار کرچکا ہے۔ گوادر پورٹ کو بھارت نے ناکام بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی‘ وہ ایران کی چاہ بہار پورٹ کی تعمیر میں حصہ دار بن کر گوادر پورٹ کیخلاف مذموم مقاصد رکھتا ہے۔ ایران نے بہرحال گوادر کو چاہ بہار کی سسٹرپورٹ قرار دیا ہے۔ گوادر پورٹ کے اپریشنل ہونے سے کچھ خلیجی ممالک کو بھی تشویش تھی‘ اب سعودی عرب کی گوادر میں بڑی سرمایہ کاری سے خلیجی ممالک سعودی عرب کی سوچ کے ساتھ ہیں۔
سعودی عرب نے پاکستان کی دعوت پر سی پیک کا حصہ بننے پر آمادگی ظاہر کی۔ چین نے اسے خوش آمدید کہا۔ سعودی وزیر پٹرولیم نے پاک چین بلاک کا حصہ بننے کا عندیہ دیا ہے۔ ایسا بلاک تشکیل پاتا ہے تو اسکی بنیادی وجہ امریکہ کا پاکستان چین اور سعودی عرب کیلئے معاندانہ رویہ ہی ہوگا۔ ایسے بلاک کی تشکیل کی صورت میں صرف تین ممالک ہی اس کا حصہ نہیں ہونگے۔ امریکہ کی پالیسیوں سے نالاں دیگر کئی بااثر ممالک بھی بلاک میں شامل ہو سکتے ہیں ۔ ان میں ایران اور ترکی کی شمولیت کا بھی قوی امکان ہے۔ او آئی سی اور عرب لیگ کے سعودی عرب کے زیراثر ممالک مجوزہ بلاک کا حصہ بن سکتے ہیں۔ روس اور کئی وسط ایشیائی ریاستیں بھی امریکہ کے توسیع پسندانہ اور جارحانہ عزائم سے ناخوش ہیں۔ اگر یہ دفاعی بلاک تشکیل پا جاتا ہے تو یقیناً خطہ کے امن و استحکام کیلئے خوش آئند ہوگا۔