پیر‘ 7؍ جمادی الاوّل 1440 ھ ‘ 14 ؍ جنوری 2019ء
نشئی سرکاری ملازمین کو نوکری سے برطرف کرنے کا منصوبہ
بے شک کرسی کانشہ ہی اپنی جگہ نہایت مہلک ہوتا ہے۔ اب اس کے ساتھ ساتھ سرکاری ملازمین دوسرے نشے بھی کرنے لگیں تو وہ اور زیادہ خطرناک ثابت ہو سکتے ہیں۔ کیونکہ یہ دو آتشہ کرنیوالی بات ہے۔ اب خبر یہ ہے کہ پنجاب حکومت کو وفاقی حکومت نے کہا ہے کہ وہ پنجاب میں تمام سرکاری ملازمین کے میڈیکل ٹیسٹ کا بندوبست کرے تاکہ معلوم ہو کہ کتنے ملازمین کرسی کے علاوہ دوسرے نشوں میں بھی مبتلا ہیں۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ جن کا مکمل نشئی ہونا ثابت ہو گا انہیں بنا کسی مراعات کے فارغ کردیا جائیگا۔ یوں وہ صرف کرسی کے عہدے کے نشہ سے محروم ہوں گے۔ اب دوسرے نشوں کا علاج کون کریگا۔ یہ تو اور زیادہ خطرے کی بات ہے کیونکہ غصہ میں طیش میں نشئی نجانے کیا کیا کر بیٹھیں کہیں اس طرح معاشرے میں مزید انارکی پیدا ہو گی۔ یہ نشئی روزگار کمانے کیلئے نت نئے طریقے نہ استعمال کرنے لگ پڑیں اور ہر چوک پر ایک مسلح نشئی روزگار حاصل کرتا نظر آنے لگے۔ بہتر ہے کہ ان نشے کے عادی ملازمین کا علاج کیا جائے اور آئندہ کسی سرکاری نوکری کیلئے میڈیکل ٹیسٹ میں نشہ نہ کرنے کی تسلی کی جائے۔ اس وقت پنجاب کیا ملک بھر میں ہزاروں سرکاری ملازمین ’’آئو خیر فلک سیر‘‘ یعنی چرس اور بنت انگور یعنی شراب کے علاوہ جہاز بن کراڑان بھرنے والی ہیروئن کے عادی ہیں فرق یہ ہے کہ شراب اونچے درجے کے چرس متوسط طبقے کے اور ہیروئن بدحال طبقے کے زیر استعمال ہوتی ہے۔ مگر اب تو اعلیٰ سرکاری ملازمین بھی آئس اور چرس کو بطور تفریح چیک کرتے نظر آتے ہیں۔
٭٭٭٭
صدر ٹرمپ کا جغرافیہ بھی کمزور نکلا پاکستان کومشرق وسطیٰ میں شامل کر لیا
اول اس بات پر سب کواتفاق ہو گا کہ امریکہ اسوقت دنیا کی واحد سپرپاور ہے۔ اب لاکھ کوئی اس کی اینٹ سے اینٹ بجانے کی دھمکی دے کر یا اسکے اسلحہ میں کیڑے پڑنے کی دعائیں کر کے مطمئن ہوتا ہے تو ہوتا رہے۔ کسی نے اس سے کیا لینا دینا۔ کہتے ہیں ’’شیر جنگل کا بادشاہ ہے اسکی مرضی انڈے دے یا بچے‘‘ سو قدر دانوں مہربانوں۔ صدر ٹرمپ کا بھی یہی حال ہے۔ ویسے بھی وہ دماغی طور پر ذرا یا بہت زیادہ کھسکے ہوئے ہیں۔ عالم غیظ و غضب میں یا پھر تقریر کرتے ہوئے تو پتہ ہی نہیں چلتا کہ وہ کہہ رہے ہیں یا بونگیاں مار رہے ہیں۔ انکی اناپ شناپ باتوں کا کوئی اثر نہیں لیتا۔ کیا اپنے کیا پرائے سب ان سے پریشان رہتے ہیں۔ اسی لئے انکے اپنے وزرا مستعفی ہونے میں دیر نہیںلگاتے۔ اب اگر وہ پاکستان کو مشرق وسطیٰ تو کیا اپنا حصہ یا غیر اعلانیہ ریاست بھی قرار دیدیں تو فرق پڑتا ہے۔ سوائے اسکے کہ چین والوں کو پریشانی ہو گی جواس وقت پاکستان پر مہربان ہیں۔ امریکہ کی یہ مہربانیاں تو 70 برسوں سے جاری تھیں۔ امپیریل ازم کے مخالف اشتراکی اور آزاد خیال لبرل دانشور اور لوگ تو اسلام آباد کو امریکی اڈہ کہتے ہوئے ذرا بھر نہیں شرماتے تھے۔ آج بھی اکثریت کا یہی خیال ہے۔ حالانکہ اب اڈہ اسلام آباد سے گوادر منتقل ہو چکا ہے۔ چین کی وجہ سے۔ مشرق وسطیٰ میں احساس کیا ہے سوائے تیل، چپقلش اور باہمی خانہ جنگی کے۔ اس لئے امریکی صدر کا یہ اشارہ کہیں ہمیں اس کی آئندہ پالیسیوں کی دھمکی تو نہیں کہ ہمیں بھی ویسی ہی صورتحال کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
٭٭٭٭
عمران خان اوراروند کجریوال سے متاثر ہوں: شاہ فیصل
انڈین سول سروس کے امتحان میں ٹاپ کرنیولا یہ کشمیری نوجوان سول سروس آفیسر نے کچھ دنوں قبل کشمیر میں بھارتی فوج کے ہاتھوں کشمیریوں کے قتل عام اور مظالم کیخلاف احتجاجاً استعفیٰ دیا تھا۔ انکے اس جرأت مندانہ عمل پر جہاں انسان دوست حلقوں نے انکی تعریف کی وہاں بھارتی انتہا پسندوں نے انہیں خوب جلی کٹی سنائیں۔ ایسا فیصلہ وہی کر سکتا ہے جو واقعی نڈر ہو، ورنہ سول سروس افسر بننے کی خواہش کس تعلیم یافتہ نوجوان کے دل میں نہیں ہوتی۔ مقابلے کے امتحان میں پاس ہونا ہی بڑا معرکہ تصور کیا جاتا ہے۔ پھر انٹرویو میں کامیاب ہونا جان جوکھم تصور ہوتا ہے۔ اب شاہ فیصل نے جوہیرو بننے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس کے حقیقی اسباب وہی جانتے ہوں گے۔ مگر کشمیری اس پر فخر کر رہے ہیں۔ اس طرح شاہ فیصل خود بخود کشمیریوں کا ہیرو بن رہا ہے۔ اب کشمیریوں کو کیا کہا جائے کوئی بھی جوانکے دل جیت لے وہ ہیرو بن جاتا ہے۔ کشمیریوں کی سیاسی تاریخ دیکھ لیں۔ کوئی شیرکشمیر بنا پھرتا تھا کوئی خالد ثانی۔ کوئی مجاہد کشمیر بنا پھرتا ہے کوئی قائد ثانی۔ یوں ہر جگہ ایک نئی کہانی جنم لیتی ہے۔ شاہ فیصل کہہ رہے ہیں کہ وہ معلوم کرنا چاہتے ہیں نوجوان کیا چاہتے ہیں۔ کیا کشمیر میں رہتے ہوئے آئے روز شہدا کے جنازے اٹھاتے ہوئے نوجوانوں کی کثیر تعداد دیکھ کر انہیں ابھی تک معلوم نہیں ہوا کہ نوجوان کیا چاہتے ہیں؟ الیکشن لڑنے کا عزم ظاہر کرنیوالے شاہ فیصل خود دیکھ لیں الیکشن میں کتنے فیصد ووٹ پڑتے ہیں اور کشمیر کے ہر علاقے میں شہیدوں کے جنازے میں کتنے فیصد لوگ موجود ہوتے ہیں۔ خود ہی معلوم ہو جائے گا کہ کشمیری نوجوان کیا چاہتے ہیں۔ اب اگر فیصلے میں غلطی ہو تو کشمیر کی سیاسی تاریخ میں ایک شاہ فیصل ثانی بھی جگہ پا سکے گا۔ اس سے زیادہ اور کچھ نہیں ہو گا۔ شاہ فیصل عمران خان اور اروندکجریوال سے متاثر ہیں۔ نئی پارٹی بناکر دیکھ لیں کیا معلوم وہ کشمیر کے مستقبل کا فیصلہ کشمیر اسمبلی میں بھارت سے علیحدگی کی قرارداد منظور کروا کر امر ہو جائیں ۔
٭٭٭٭٭
خیبر پی کے میں احتساب کمشن کی عدالت بھی ختم کر دی گئی
یہ ہوتی ہے گڈ گورننس ، اعلیٰ انتظامیہ کا بے داغ کردار۔ اب اگر خیبر پی کے میں کہیں سے احتساب کی آواز بلند ہوئی تو اسے بآسانی سیاسی ڈرامہ قرار دیا جا سکتا ہے۔ سب سے پہلے تو لوگوں کو چاہئے کہ وہ خیبر پی کے حکومت کو مبارکباد دے کر وہاں اب کسی کے احتساب کی ضرورت باقی نہیں رہی۔ احتساب کی سب سے زیادہ ضرورت پنجاب ، سندھ اور اس کے بعد بلوچستان کو ہے۔ خیبر پی کے میں تو سب دودھ کے دھلے ہیں۔ یہ جواسلحہ، منشیات اور سمگلنگ کا کام ہو رہا ہے یہ تو کاروبار ہے۔ رشوت کہیں نہیں سب لین دین ہے۔ ایسی صورتحال میں واقعی احتساب کمشن نے کیا خیبر پی کے میں گھاس کاٹنی ہے یا تیل بیچنا ہے۔ اس لئے پہلے …؎
وہ جو بیچتے تھے دوا ئے دل
وہ اپنی دکاں بڑھا گئے
پہلے وہاں سے احتساب کمشن کا بوریا بستر گول کیا گیا۔ اب موقع دیکھتے ہی احتساب عدالت کا بھی ۔ دیکھتے ہیں جماعت اسلامی والے جو اس تالاب کی ساری مچھلیوں اور مگر مچھوں سے واقف ہے۔ اس بارے میں کیا حکیمانہ بیان جاری کرتی ہے۔ اب یہاں کے سارے کیس جو درج تھے اینٹی کرپشن کے سپرد ہونگے جو ظاہر ہے اپنے نام کی طرح دافع کرپشن ہے۔ مگر یار لوگ اسے آنٹی کرپشن کہتے ہیں جو بہت سے لوگوں کو برملا بھی لگتا ہے کیونکہ اگر یہ محکمہ واقعی اینٹی کرپشن ہوتا تو آج ملک میں کرپشن اتنی نہ ہوتی جواس محکمہ کی مہربانی سے موجود ہے۔
٭٭٭٭