(وقت نیوز رپورٹ) شیخ الاسلام علامہ طاہرالقادری کے 14 جنوری کو اسلام آباد ملین مارچ کے موقع پر وقت نیوز کی اینکر پرسن فریحہ ادریس نے خصوصی رپورٹ پیش کی جس میں ان کی زندگی کے کئی پہلووں پر روشنی پڑتی ہے۔ یہ رپورٹ مظفر وارثی کی یادداشتوں پر مشتمل تھی۔ مظفر وارثی پاکستان کے معروف نعت گو شاعر گزرے ہیں ”کوئی تو ہے جو نظامِ ہستی چلا رہا ہے‘ میرا پیمبر عظیم تر ہے“ جیسے لازوال حمدیہ اور نعتیہ کلام کے خالق مظفر وارثی ایک زمانے میں شیخ الاسلام طاہرالقادری کی عوامی تحریک میں شامل رہے ہیں۔ انہوں نے اپنی سوانح حیات ”گئے دنوں کا سراغ لے کر“ میں شیخ الاسلام کی شخصیت کے بارے کئی واقعات تحریر کئے ہیں۔ ایک جگہ لکھتے ہیں: ”لاہور میں روز کسی نہ کسی علاقے میں عوامی تحریک کا جلسہ ہونے لگا، ہر روز شام ڈھلے ہمیں گاڑی لینے آ جاتی طاہرالقادری کے گھر سے پیجیرو میں ہم ان کے ساتھ جاتے قائدِ انقلاب کی تقریر سے پہلے ہماری نظم ہوتی ہم آگ لگاتے وہ پٹرول چھڑک دیتے۔ جلسے سے واپسی پر حضرت طاہر القادری گاڑی کے حاضرین سے خصوصی داد وصول کیا کرتے، غلطی سے کوئی ہماری تعریف بھی کر دیتا تو بات کا رخ بدل دیتے، وہ دراصل تعریف میں شرک کے قائل نہ تھے۔ لاہور سے باہر بھی جلسے ترتیب دیے جانے لگے۔ حضرت جہاں جاتے گرمیوں میں ٹھنڈے اور سردیوں میں گرم کمرے میں قیام فرماتے اور ہم جو مشاعروں میں بڑے بڑوں سے نخرے اُٹھواتے تھے حضرت کے پہرے داروں کے ساتھ سوتے۔تحریک کے لئے ہم سے ایک نغمہ لکھنے کو کہا گیا ہم نے ایک مارچنگ سانگ لکھا۔ ”قدم سے ملا کر چلے قدم حق کی راہوں پر ہم“ یہ نغمہ فلمی گلوکاروں کی آواز میں ریکارڈ کروایا گیا، ہم نے اُڑتی اُڑتی خبر سنی کہ حضرت کو یہ نغمہ پسند نہیں آیا، دوسرے شہروں میں جلسوں کے لئے جب گاڑیوں کا قافلہ جایا کرتا تو راستے میں مختلف ترانے بجائے جاتے، جیسے بھی شہر میں داخل ہونے لگتے طاہر القادری کی خفیہ ہدڈایت کے مطابق ایک ترانہ بجایا جاتا، ”ظلمتِ آفتاب میں چمکے کا طاہر القادری“ اب ہم سمجھے کہ ہمارا ترانہ کیوں پسند نہیں آیا تھا کیونکہ ہم نے ترانے میں طاہرالقادری کا نام استعمال نہیں کیا تھا۔ آہستہ آہستہ ہمارے ذہن کے پردوں پران کا باطن فاش ہو رہا تھا۔شدید گرمی میں تپتی ہوئی سڑکوں پر لوگ گھنٹوں اپنے قائد کا انتظار کرتے اس طرح کے انتظامات پیشگی کر دیئے جاتے۔ سیدھے سادھے عوام مصطفوی انقلاب کے نعرے لگاتے نہیں تھکتے تھے۔ قافلہ گزرتا تو قائد انقلاب پیجیرو کی چھت کے سوراخ سے دیدار کراتے، معلوم نہیں بےنظیر بھٹو نے ان سے یہ ادا سیکھی یا انہوں نے بے نظیر سے، علامہ کی انگلیوں پر تسبیح لپٹی ہوتی۔ اس کے علاوہ ہم نے تسبیح ان کے ہاتھ میں کبھی نہیں دیکھی۔ڈرائیور کو حکم دے رکھا تھا کہ ان کے گھر سے نکلنے سے آدھ گھنٹہ پہلے گاڑی کا اے سی چلا دیا کرے، گاڑی یخ ہو جاتی تو قائد محترم برآمد ہوتے۔ مصطفوی انقلاب کے داعی کے کھانے پینے کی اشیا تک ملازم اٹھا کر چلتے پیجیرو کا پچھلے حصے میں کھانا، جوس، یخنی، چائے غرض ہر طرح کی خوراک موجود ہوتی۔21 اپریل 1999ءمیں علامہ طاہرالقادری کے گھر پر فائرنگ ہوئی۔ علامہ نے اپنے اوپر ہونے والے اس قاتلانہ حملے کا ذمہ داری آئی جے آئی اور پنجاب حکومت کو قرار دیا تھا جس کے بعد حکومت پنجاب نے اس معاملے کی تفتیش کے لئے لاہور ہائیکورٹ کا ایک کمشن تشکیل دیا تھا۔ اس واقعہ کے بارے میں مظفروارثی نے اپنی کتاب میں تحریم کیا ہے کہ طاہر القادری کو امام خمینی بننے کا شوق تھا لیکن انداز سارے رضا شاہ پہلوی والے تھے۔ ان کی ہوس شہرت کے ہم عینی گواہ ہیں۔ ایک رات علامہ طاہر القادری کے گھر پر فائرنگ ہوئی، ہم صبح صبح دوڑے گئے، پولیس افسران اور شہباز صاحب نے جائے واردات کا معائنہ کیا، دراصل اس سارے واقعہ کا مرکزی کردار طاہرالقادری کا اپنا سالا قدرت اللہ تھا جس نے گھر کے برآمدے میں کھڑے ہو کر خوب گولیاں چلایں تھیں۔ باتھ روم کی چھت پر جو خون تھا وہ تحقیق کرنے پر کسی جانور کا نکلا، عدالت نے دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کر دیا۔ عدالت نے اپنے فیصلے میں طاہرالقادری کے تمام اوصاف گنوا دئیے محسن کش‘ جھوٹا‘ شہرت کا بھوکا‘ دولت کا پجاری اور نہ جانے کیا کیا کچھ۔ میاں شریف صاحب کو اپنا باپ کہنے والا اب انہیں فرعون کہتا۔ ارشاد ہوتا اگر میں نے میاں صاحب سے فائدے اٹھائے ہیں تو کون سی قیامت آگئی۔ حضرت موسی بھی تو فرعون کی گود میں پلے تھے۔ شاید حضرت طاہرالقادری کو علم نہیں کہ فرعون کے گھر میں بھی حضرت موسی نے اپنی ماں کا ہی دودھ پیا تھا۔ ایک بار کسی وکیل نے طاہرالقادری صاحب سے اعتراض کیا کہ آپ آٹھ دس گن مین ساتھ لے کر کیوں چلتے ہیں؟ تو ارشاد فرمایا کہ پیغمبر اسلام محمد مصطفی کی حفاظت بھی ان کے سرفروش اسی طرح کیا کرتے تھے۔ کہاں عشاق کہاں تنخواہ دار گن مین۔ ایک اور جگہ طاہرالقادری کے بارے میں مظفر وارثی لکھتے ہیں کہ ذوالفقار علی بھٹو کو کوثر نیازی چاہیے تھے۔ بھٹو کی بیٹی کو طاہرالقادری مل گئے لیکن قادری صاحب کوثر نیازی سے زیادہ ذہین نکلے وہ بھٹو پر قناعت کرگئے تھے حضرت ظاہرالقادری بے نظیر کو راستہ بنا کر خود سیاست کی شملہ پہاڑی پر چڑھ گئے۔ وزارت عظمیٰ سے کم کوئی عہدہ ان کے شایان شان نہیں یہ وہی صاحب ہیں جو دولت اور اقتدار کو ٹھوکر مارا کرتے تھے۔ ہم بہت پہلے تاڑ چکے تھے کہ طاہرالقادری دیکھتے کسی اور طرف ہیں اور قلم کسی اور طرف رکھتے ہیں۔
"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
Mar 27, 2024