پاکستان 46واں کرپٹ ترین ملک بن گیا ’’ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل رپورٹ‘‘ ۔ سچ ہے تو تلخ مگر سچ ہے کہ تمام سرکاری ادارے بالخصوص لازمی سروسز کے محکمہ جات کرپشن کے گڑھ بنے ہوئے ہیں۔ یہ آج کا قصہ نہیں ۔ برس ہا برس سے رشوت خوری پوشیدہ ناسور سے کُھلے عام مرض کی صورت اختیار کر چکی ہے پہلے اداروں کے نچلے درجہ کے اہلکار ملوث ہوتے تھے اُن کے ذریعہ حصہ بقدر جتہ کی قباحتیں تھیں ۔ اب ہر ادارے میں ٹاؤٹ ہیں جو سٹرک سے دفاتر تک مُک مکا کا فریضہ انجام دیتے ہیں ۔ رشوت کا سائز سائل کی حیثیت اور مجبوری کو سامنے رکھ کر طے کیا جاتا ہے۔ یہی ’’ٹاؤٹ‘‘ وصولی ۔ منتقلی کا کام کر تے ہیں۔ وفاق سے لیکر صوبوں کی حدود تک کرپشن زدہ ماحول اور فضا طاری ہے۔ ’’انسدادِ کرپشن‘‘ کے درجن ہا اداروں کے باوجود حکومت ابھی تک ’’کرپشن‘‘ پر معمولی سا قابوپانے میں بھی کامیاب نہیں ہوسکی کیونکہ ’’مافیا‘‘ کی طاقت اور رسائی کی جڑیں بہت مضبوط اور گہری ہیں ۔
پاکستان میں قانون سازی اور قانون کا نفاذ ہر دو کا اختیار ’’اشرافیہ‘‘ کے ہاتھوں میں ہے تو قارئین سوچئیے اِن حالات میں مڈل کلاس اور عام آدمی کیسے بچ سکتا ہے ؟؟ کیسے معاشرہ میں جینے کی آسانیاں ڈھونڈ سکتا ہے ؟؟ ہمارا پورا معاشرہ قانون شکن عناصر کے ہاتھوں یرغمال بنا ہوا ہے ۔ پوری قوم بصورت ’‘طمع مافیا‘‘ ایک دوسرے کو لُوٹ رہی ہے سبھی ذِمہ دار ہیں موجودہ صورت حال کے۔ ایک شخص جونہی اپنے روزگار ۔ نوکری ۔ علاج یا کسی ضرورت کے تحت گھر سے نکلتا ہے وہ واپس گھر لوٹنے تک سینکڑوں مقامات پر رشوت ۔ مٹھائی دے چکا ہوتا ہے۔ حتیٰ کہ معمولی کام بھی بغیر پیسوں کے ناممکن ہے۔ایک مسلمان ملک میں اس طرح کا کام کسی بھی طور پسندیدہ فیل نہیں قرار دے سکتے ۔ رشوت کے خاتمہ میں عوام کو بھی اپنا کردار صحیح طور سے نبھانا پڑے گا ۔مزید براں نیت تمام کاموں کی کلیدی جڑ ہے ۔ پاکستانی قوم کو بالثمول عوام بالخصوص حکمران اپنی نیت میں کھوٹ ختم کرنا چاہیے ۔ تبھی ہم آگے بڑھ سکتے ہیں ۔ کیونکہ نبی پاک ﷺ کا فرمان مبارک ہے ’’کہ رشوت دینے والا اور رشوت لینے والا دونوں جہنمی ہیں‘’۔ تو فیصلہ کیجئے اتنے واضح فرمان کے بعد کہ ہم’’ دین اسلام‘‘ کے منانے والے ہیں ۔ ہمارے ملک کا شمار کرپشن میں اتنے درجے کیوں بڑھ گیا؟؟
’’مہنگائی‘‘
مہنگائی تب تک کنٹرول میں نہیں آسکتی جب تک عوام بھی اپنا کردار ایمانداری سے نہیں نبھاتے ۔ بے روز گاری دوسرا بڑا سنگین ایشو ہے اِس پر بھی جنگی بنیادوں پر ٹھوس کوششوں کی ضرورت ہے اِس شکل میں کہ پہلے ہی ’’140ٹیکسٹائل ملز‘‘ بند ہیں۔ جب بھی کسی فورم پر یا ذاتی ملاقات میں کسی ’’صنعت کار‘‘ سے بات چیت کا موقع ملتا ہے تو اکثریتی اشخاص سے سُن کر ترقی کرتے پاکستان کے حروف دُکھ میں ڈوب گئے کہ اتنے مہینوں سے ’’ہماری فیکٹری ‘‘ بند ہے۔سینکڑوں مرتبہ بذریعہ کالم تجویز دی چکی ہوں کہ معیشت کو بحال کرنا ہے تو پٹرول ۔ بجلی اور گیس کی قیمتوں میں نمایا ں کمی کرنا پڑے گی۔ اس تجویز پر جس دن بھی حکومت نے عمل کر لیا یقین مانئے ہماری معاشی ترقی کو واقعی پوری دنیا سراہاے گی۔
بالاآخر طویل مشاورت ۔ جائزوں کے بعد اداروں کی رائٹ سائزنگ کے عمل پر پیش رفت کا آغاز ہو گیا۔ ایک ہی مقصد کے تحت قائم اداروں کو باہم مدغم کرنے کا فیصلہ درست ہے پر کوشش کی جائے کہ ہر ’’وزارت‘‘ سے منسلک ذیلی ونگز ۔ اتھارٹیز کو مکمل طور پر ختم کر دیا جائے علاوہ ازیں صوبائی وزارتوں کے مقابل وفاقی وزارتوں ۔ محکموں کو حکومت بند کر دے ۔ فالتو۔ اضافی آسامیاں ختم کر دی جائیں اِس سمت میں بھی حکومتی کاوشیں قابل تحسین ہیں۔ اصل میں سرکاری اداروں کا سائز زیادہ اور بھاری ہونے کی وجہ سے مسائل کی سنگینی بڑھ گئی اب توقع کی جاسکتی ہے کہ ضرور پاکستان اپنے لایخل مسائل کو حل کرنے کی طرف بڑھ سکتا ہے۔
’’تعلیمی فیسوں میں اضافہ‘‘
تمام’’ تعلیمی بورڈز‘‘نے ’’اسناد اور مختلف مدات‘‘ میں فیسوں میں اضافہ کر دیا۔ ایک طرف نوجوان ملک کا اثاثہ ۔ تمام فریقین نوجوانوں کا دل جیتنے کے جتن میں سرگرداں دوسری طرف ارضی حالات ۔ ملازمتوں کی تعداد بڑھانے پر کِسی کی توجہ نہیں ۔ ملازمتوں کے مواقع پہلے سے محدود ۔ مزید براں معاشی تصویر دھندلی۔ صفائی اور مانیٹرنگ کے افعال اتنے کار آمد ۔ سود مند ہیں کہ اگر عوام کو دونوں فرائض ایمانداری سے مکمل اختیار کے ساتھ سونپ دئیے جائیں تو’’ 4,3‘‘الیکشن کے بعد ہمیں مرکزی ۔ صوبائی سطحوں پر ویسی ’’قیادت‘‘ نظر آئے گی جو ہر پاکستانی کے دل کی خواہش اور آواز ہے یعنی بے داغ ۔ ایماندار ’’نمائیندگان‘‘ ۔ قانون کا احترام سبھی کو کرنا چاہیے ۔ دولتمند اور طاقتور لوگوں کی قانون شکنی کو روکنا حکومت کا کام ہے۔ ’’موٹر وے‘‘ ہو یا کسی محلہ کی کچی سڑک ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی چاہے کوئی’’ عام آدمی ‘‘کرے یا ’’وزیر ‘‘ چالان ہونا چاہیے۔ اس معاملہ میں کوئی بھی تفریق نہ کی جائے ۔انصاف کی بلاتفریق فراہمی اس وقت بہت سنگین مسئلہ ہے ۔عوام بہت دشواری محسوص کرتے ہیں اس ضمن میں۔گھر سے کجیری اور عدالت تک عام آدمی کو بھی اُتنا ہی احترام اور ترجیح دینی چاہیے جتنی کسی بااثر شخص کو دی جاتی ہے۔حکومت کو چاہے کہ وہ تمام شعبوں خصوصی طور پر عوام سے متعلقہ محکوں میں میرٹ پر کام کو ممکن بنانے کے لئے سنجیدگی دکھائے۔ صرف حکومت کے پاس ہی قوت نافذہ ہے۔ وہ اسی کے بل پر تمام ایسے نتائج حاصل کر سکتی ہے جو عوام کی تکالیف کو دور کرنے کی حکومتی خواہش سنائی دیتی ہے۔ اِسی لیے عام آدمی بھی قانون کا احترام کرنا چھوڑ چکا ہے ۔ بے شمار مثالیں بجلی بلز سے ٹریفک قوانین کی پابندی ۔ فلاحی سکیموں کے حوالہ سے اہم نکتہ ۔ تمام بحث کا حاصل نکتہ یہی کہ عوام اب خوشدلی سے تمام خصوصی خدمات وصول کر رہے ہیں مگر قبولیت کے معاملہ میں وہ جامد ہیں ۔
٭…٭…٭
رائٹ سائزنگ اور قانون کی پابندی
Feb 14, 2025