ماحولیاتی تبدیلی اور اس کے اثرات عصرِ حاضر میں انسانیت کے لیے سب سے کڑے امتحان بن چکے ہیں۔ یہ مہیب تغیرات نہ صرف عالمی موسمیاتی نظام میں انقلابی تبدیلیاں لا رہے ہیں بلکہ درجہ حرارت میں مسلسل اضافہ اور قدرتی وسائل کی بے دریغ بربادی بھی ان کے بھیانک اثرات میں شامل ہے۔ ان کے تباہ کن نتائج، کرۂ ارض کے ماحولیاتی نظام، معیشتوں اور معاشرتوں پر منڈلا رہے ہیں، جو فوری اور مدبرانہ اقدام کے متقاضی ہیں۔
جنوری 2025 عالمی تاریخ کا گرم ترین مہینہ ثابت ہوا، جہاں کرہ? ارض کی اوسط سطحی فضائی حرارت 13.23ڈگری سینٹی گریڈ تک جا پہنچی، جو 1991 سے 2020 کے عام اوسط سے 0.79 ڈگری زیادہ تھی۔ سب سے زیادہ تشویش ناک امر یہ ہے کہ یہ درجہ حرارت صنعتی انقلاب سے قبل کی حد سے 1.75ڈگری تجاوز کر چکا ہے، اور گزشتہ انیس مہینوں میں سے اٹھارہ مہینے ایسے رہے جن میں عالمی اوسط درجہ حرارت 1.5ڈگری کی خطرناک حد پار کر چکا ہے۔
ماحولیاتی تبدیلی کی بنیادی وجہ فضا میں گرین ہائوس گیسوں کی بڑھتی ہوئی مقدار ہے، جن میں کاربن ڈائی آکسائیڈ، میتھین، اور نائٹرس آکسائیڈ شامل ہیں۔ یہ گیسیں سورج کی حرارت کو زمین پر روک کر ماحولیاتی درجہ حرارت میں شدت پیدا کرتی ہیں۔ مزید برآں، جنگلات کی بے دریغ کٹائی، جو کاربن کے قدرتی ذخائر سمجھے جاتے ہیں، اس مسئلے کو دوگنا کر دیتی ہے، کیونکہ درختوں کے کٹنے سے جمع شدہ کاربن فضا میں شامل ہو جاتا ہے۔ صنعتی سرگرمیاں، بشمول فیکٹریوں، کان کنی، اور زراعت سے پیدا ہونے والی آلودگی اور گرین ہائوس گیسوں کے اخراج، قدرتی ماحول کے نازک توازن کو بری طرح متاثر کر رہے ہیں۔
سال 2025 میں پاکستان ماحولیاتی تبدیلی کے شدید نتائج کا سامنا کر رہا ہے، جس کے اثرات معیشت، بنیادی ڈھانچے اور عوام کی صحت پر گہرے نقوش چھوڑ رہے ہیں۔ سال 2024 کے دوران ملک کو 28 شدید موسمی آفات کا سامنا کرنا پڑا، جن میں سے ہر ایک نے کم از کم ایک ارب ڈالر کا نقصان پہنچایا۔ مجموعی طور پر، ان قدرتی آفات کی قیمت 92.90 ارب ڈالر تک جا پہنچی۔ یہ تباہ کاریاں نہ صرف مالی نقصان کا باعث بنیں، بلکہ انسانی جانوں پر بھی بھاری پڑیں۔ 2010 سے 2019 کے درمیان تقریباً 185,000 افراد ماحولیاتی تبدیلیوں کے نتیجے میں اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے، جو فطرت کے بپھرے ہوئے انتقام کی ایک سنگین یاد دہانی ہے۔
پاکستان میںماحولیاتی تبدیلی کے نتیجے میں صحت کے شعبے کو شدید خطرات لاحق ہیں۔ 2015 میں کراچی میں شدید گرمی کی لہر نے 65,000 سے زائد افراد کو متاثر کیا اور 2000سے زیادہ جانیں لے لیں۔ 2022 میں آنے والے تباہ کن سیلاب نے ملک کے ایک تہائی حصے کو زیرِ آب کر دیا، جس سے 33 ملین افراد متاثر ہوئے، جن میں نصف تعداد معصوم بچوں کی تھی۔ یہ سیلاب نہ صرف بنیادی ڈھانچے کے لیے تباہ کن ثابت ہوا بلکہ صاف پانی کی فراہمی کو بھی برباد کر گیا، جس کے نتیجے میں 5.4 ملین افراد آلودہ پانی پینے پر مجبور ہو گئے۔ اس ماحولیاتی تباہی نے نہ صرف ہزاروں جانیں نگل لیں بلکہ بیماریوں، غذائی قلت اور بے گھری کے ایک نہ ختم ہونے والے بحران کو بھی جنم دیا۔ آج بھی، سندھ میں 89,000 اور بلوچستان میں116،000 افراد بے سروسامانی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ پاکستان نے 1992 سے 2021 تک ماحولیاتی بحران کے سبب 29.3 ارب ڈالر کا خسارہ اٹھایا، جو 2020 میں ملک کی مجموعی قومی پیداوار (GDP) کے 11.1 فیصد کے برابر تھا۔ ملک میں ہونے والے قحط (1998-2002، 2014-2015) اور سیلاب (2010) جیسے المناک واقعات اس حقیقت کو واضح کرتے ہیں کہ قدرتی آفات نے ملک کی ترقی پر کتنی تباہ کن ضرب لگائی ہے۔ زراعت، جو پاکستان کی معیشت کا سنگِ بنیاد ہے، موسمیاتی تبدیلی کے خطرات میں بری طرح گھری ہوئی ہے۔ تخمینے کے مطابق، 2050 تک گندم کی سالانہ پیداوار میں کم از کم 1 فیصد کمی واقع ہو سکتی ہے، جبکہ فضائی اور آبی آلودگی کی شدت اس بحران کو مزید بڑھا دے گی۔
پاکستان ماحولیاتی کارکردگی کے عالمی اشاریے (Climate Change Performance Index) میں 31ویں نمبر پر ہے۔ اگرچہ ملک گرین ہائوس گیسوں کے اخراج اور توانائی کے استعمال میں نمایاں ہے، لیکن ماحولیاتی پالیسیوں میں کمزور اور قابلِ تجدید توانائی کے فروغ میں ناکام نظر آتا ہے۔ پاکستان نے 2030 تک اپنی توانائی کا 60 فیصد حصہ قابلِ تجدید ذرائع سے حاصل کرنے کا ہدف مقرر کیا ہے، جس کے لیے تقریباً 100 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری درکار ہوگی۔ تاہم، اس وقت ملک کی صرف 7 فیصد توانائی قابلِ تجدید ذرائع سے حاصل کی جا رہی ہے، جبکہ فوسل فیول پر انحصار برقرار ہے۔
ماحولیاتی تغیر انسانی تہذیب کے لیے ایک پیچیدہ مسئلہ ہے، جو فطری توازن، معاشرتی بقاء اور اقتصادی استحکام پر گہرے اثرات مرتب کر رہا ہے۔، جس کے مہلک اثرات روز بروز شدت اختیار کر رہے ہیں۔ عالمی درجہ حرارت 1850 کے بعد سے ہر دہائی میں 0.6ڈگری سینٹی گریڈ بڑھ رہا ہے، جبکہ 1982 سے یہ رفتار بڑھ کر0.20ڈگری سینٹی گریڈ فی دہائی ہو گئی ہے۔ 2023 تاریخ کا گرم ترین سال ثابت ہوا، جس میں عالمی د درجہ حرارت 1.18ڈگری سینٹی گریڈ کے اضافے کے ساتھ ریکارڈ پر آیا۔ قطبی برفانی تودے تیزی سے پگھل رہے ہیں، گرین لینڈ سالانہ 279 ارب ٹن اور انٹارکٹیکا 148 ارب ٹن برف کھو رہا ہے، جس کے نتیجے میں سمندری سطح میں اضافہ ہو رہا ہے اور ساحلی بستیاں خطرے میں ہیں۔ اگر فوری اور موثر اقدامات نہ کیے گئے تو 2050 تک ماحولیاتی بحران عالمی معیشت کو 38 کھرب ڈالر سالانہ کے خسارے تک لے جا سکتا ہے، جبکہ اسکے نتیجے میں لاکھوں افراد بھوک، بیماری اور قدرتی آفات کا شکار ہو سکتے ہیں۔پاکستان کے لیے اس بحران سے نمٹنا ناگزیر ہو چکا ہے۔ گرین ہائوس گیسوں کے اخراج میں کمی، قابلِ تجدید توانائی میں سرمایہ کاری، اور ماحولیاتی تحفظ کی پالیسیوں پر سختی سے عملدرآمدد وقت کی اشد ضرورت ہے۔ اگر پاکستان اور دنیا فوری اقدامات نہ اٹھائے تو یہ بحران انسانی تہذیب کے لیے ناقابلِ تلافی نقصان کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتا ہے۔ صرف اجتماعی عزم اور دانشمندانہ حکمتِ عملی کے ذریعے ہی ہم مستقبل کو محفوظ بنا سکتے ہیں۔
ماحولیاتی بحران
Feb 14, 2025