اتوار‘ یکم رجب المرجب 1442ھ‘ 14؍ فروری 2021ء

کراچی سے فیصل آباد جاتی ٹرین سے سٹیٹ بنک کا ایک کروڑ روپے سے بھرا بیگ چوری
لگتا ہے، یہ چور بڑی مہارت رکھتے ہیں ، سونگھنے کی حس اور صلاحیت بھی ان میں کمال درجے کی ہے جبھی تو انہوں نے نوٹوں سے بھری بوگی کے تالے توڑے، جبکہ ساتھ والی بوگی بالکل مقفّل اور محفوظ رہی کیونکہ اس میں پرائز بانڈز تھے۔ اس لئے ’’سیانے‘‘ چوروں نے کرنسی والی بوگی کا ہی صفایا کیا اور ایک کروڑ روپے لے کر چلتے بنے جبکہ اس دوران 9 پولیس اہلکار بھی نوٹوں کی حفاظت کیلئے تعینات تھے۔ اب اگر کوئی پولیس اہلکاروں کی نیت پر شک کرے یا کروڑ روپے چوری کی واردات میں ان کی ملی بھگت سمجھے تو یہ محض الزام تراشی ہی ہوسکتی ہے کیونکہ پولیس اہلکار تو مسلح ہوکر ڈیوٹی پر موجود تھے۔
چور آئے اور گھر میں جو کچھ تھا لے گئے
کر ہی کیا سکتا تھا ، بندہ کھانس لینے کے سوا
تاہم سٹیٹ بنک کو ریلوے پولیس کا شکر گزار ہونا چاہئے کہ پرائزبانڈز سے بھری بوگی تو بچ گئی اب پتہ نہیں نوٹوں والی بوگی کا چوروں کو کس نے بتایا۔ اس حوالے سے تفتیش تو شاید ریلوے کی کھٹارہ بوگیوں کے ساتھ تاریخ کا حصہ بن جائے البتہ دو،چار ریلوے ملازمین یا پولیس اہلکاروں کو قربانی کا بکرا ضرور بنا دیا جائے گا کیونکہ
؎ یوں ہی ازل سے میرے یار ہوتی چلی آئی ہے
٭٭٭٭٭
سینٹ الیکشن سے متعلق نیب کا خصوصی سیل قائم
ملکی ادارے اگر ’’نیب‘‘ کی طرح متحرک رہیں تو یقیناً صورتحال کافی حد تک بہتر ہوسکتی ہے کیونکہ ہمارے بعض متعلقہ اداروں کے آنکھیں بند رکھنے یا چپ سادھے بیٹھ رہنے سے اکثر اوقات سزا یافتہ اور نااہل افراد بڑے عہدوں پر جا پہنچتے ہیں پھر ان کو عہدوں اور مناصب سے اتارنے کیلئے جتنے بھی جتن کئے جائیں بے سود رہتے ہیں۔ اگر کسی ادارے کے دروازے پر بھی دستک دی جائے تو ’’دروازہ کھلتے کھلتے ‘‘پانچ سال لگ جاتے ہیں یوں ایسے لوگ مراعات سمیٹ کر چلے جاتے ہیں۔
اس لئے سینٹ الیکشن کے حوالے سے ’’نیب‘‘ کے خصوصی سیل کا قیام نہ صرف خوش آئند ہے بلکہ ملک و قوم کیلئے امید افزاء بھی ہے تاہم دوسری طرف تو یہ اقدام سانپ بن کر ان کی چھاتی پر لوٹ رہا ہوگا اور ایسے لوگ جو پہلے ہی ’’نیب‘‘ دشمنی میں ادھار کھائے بیٹھے ہیں سینٹ الیکشن کے حوالے سے نیب کے خصوصی سیل کے قیام پر کہہ رہے ہوں گے کہ…؎
ہوتی ہے تیرے نام سے وحشت کبھی کبھی
برہم ہوئی ہے یوں بھی طبیعت کبھی کبھی
البتہ ’’نیب‘‘ کا یہ خصوصی سیل بھی ناصر کاظمی کی ہی زبان میں کہہ رہا ہے کہ…؎
اے دوست ہم نے ترک محبت کے باوجود
محسوس کی ہے تیری ضرورت کبھی کبھی
بجلی کی قیمت میں مسلسل تیسرے روز اضافہ
جھٹکا دینا یا جھٹکا لگانا کسی بے حس چیز، شخص یا ضمیر کو جھنجھوڑنے کا آخری حربہ ہوتا ہے۔ اب بجلی مہنگی کرنے کے حوالے سے مسلسل تین روز سے جھٹکے لگائے جارہے ہیں لیکن قوم بے چاری اس قدر بے حس ہوچکی ہے کہ ایسے جھٹکے اس کو کانٹے کی چبھن کی طرح بھی محسوس نہیں ہوتے۔
اب حکومتی درخواست پر ’’نیپرا‘‘ نے بجلی 1.95 روپے یونٹ بجلی مہنگی کرنے کی منظوری دے دی ہے جس سے صارفین پر 200 ارب روپے کا اضافی بوجھ پڑے گا۔ بجلی مہنگی کرنے کے حوالے سے یقیناً حکومت کے پاس جواز ہوگا۔
وزیروں، مشیروں سمیت دیگر تمام متعلقین اس حوالے سے دلائل بھی رکھتے ہوں گے اور بجلی مہنگی کرنے کا ’’کریڈٹ‘‘ سابقہ حکومتو ں کو دے رہے ہوں گے تاہم عوام کسی صورت بھی موجودہ حکومت کے’’ فلسفہ مہنگائی ‘‘ کو ماننے کو تیار نہیں کیونکہ بجلی و پٹرولیم مصنوعات ہی نہیں ضروریات زندگی کی تمام اشیاء جس رفتار اور تسلسل کے ساتھ مہنگی ہورہی ہیں اس پریہی کہا جاسکتا ہے
؎ اپنوں نے وہ رنج دیئے ہیں، بیگانے یاد آتے ہیں
دیکھ کے اس بستی کی حالت، ویرانے یاد آتے ہیں
آنکھیں پرنم ہوجاتی ہیں، غربت کے صحرائوں میں
جب اس رم جھم کی وادی کے افسانے یاد آتے ہیں
جن کے کارن آج ہمارے حال پہ دنیا ہنستی ہے
کتنے ظالم چہرے جانے پہچانے یاد آتے ہیں
٭٭٭٭٭
اے ٹی ایم کی بیلنس انکوائری سروس کے استعمال پر چارجز کی ہدایت نہیں کی: سٹیٹ بنک
ماضی قریب کی پنجاب حکومت جب تجاوزات کیخلاف آپریشن کرتی تھی تو تجاوزات کنندگان حکم امتناعی (سٹے آرڈر) لے کر آجاتے تھے جس پر تجاوزات کیخلاف آپریشن کی نگرانی پر تعینات انتظامیہ کے افسر و اہلکار کہتے کہ:
’’سٹے آرڈر‘‘ بلڈوزر یا کرین کو دکھائو۔ ‘‘
یہی بات یہاں صادق آتی ہے کہ اب ’’اے ٹی ایم‘‘ کو کون سمجھائے کہ ’’جناب ایم ٹی ایم صاحبہ سٹیٹ بنک نے بیلنس انکوائری کے سروس چارجز کی ہدایت نہیں کی آپ کیوں وصول کررہی ہیں‘‘ذمہ داریوں، فرائض سے صرف نظر کرنے اور حقائق سے آنکھیں بند رکھنے کا یہی آسان طریقہ ہے جو ہمارے محکموں اور اداروں نے اپنا رکھا ہے ۔
اب یہ کمرشل بنکوں کی بھی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ سٹیٹ بنک کی بات پر کان دھریں اپنے اپنے بنکوں کی ’’اے ٹی ایمز‘‘ کو سمجھا دیں کہ سٹیٹ بنک کی نصیحت پر عمل کریں اور بے جا سروس چارجز کی وصولی چھوڑ دیں کیونکہ
دھن دولت آنی جانی ہے، یہ دنیا رام کہانی ہے
یہ عالم عالم فانی ہے، باقی ہے ذات خدا بابا
٭٭٭٭٭