پی ایس ایلVI،شائقین کرکٹ کیلئے خوشخبری، اسٹیڈیمز کی رونقیں بحال

غلام مصطفے عزیز
دنیائے کرکٹ کی مقبول ترین لیگ پی ایس ایل کے چھٹے ایڈیشن کا انعقاد ہفتہ 20 فروری سے کراچی میں ہونے جارہا ہے جبکہ تین پلے آف میچز اور فائنل سمیت دیگر لیگ میچز لاہور میں ہو نگے ، پی ایس ایل کے پہلے اور تیسرے ایڈیشن میں ا سلام آباد یونائیٹڈ جبکہ دوسرے ایڈیشن میں پشاور زلمی، چوتھے ایڈیشن میں کوئٹہ گلیڈی ایٹرز اور پانچویں ایڈیشن میں کراچی کنگز نے اس لیگ کو اپنے نام کیا تھا۔ شائقین کرکٹ کو انتظار رہتا ہے۔ کورونا وائرس کی وجہ سے منسوخ شدہ لیگ Vکے پلے اف میچز اور فائنل کا انعقاد بند اسٹیڈیم میںنومبر 2020 میں کیا گیا تھا۔پاکستان کرکٹ بورڈ نے نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر سے اجازت کے بعد اسٹیڈیم میں 20 فیصد تماشائیوں کو داخلے کی اجازت دی ہے۔ نیشنل اسٹیڈیم کراچی میں کل 7500 جبکہ قذافی اسٹیڈیم لاہور میں کل 5500 تماشائی ٹکٹیں حاصل کر سکیں گے اور اسٹٹیڈیم میں بیٹھ کر لائیو ایکشن سے محظوظ ہوسکیں گے۔اس دوران دونوں ادارے این سی او سی اور پاکستان کرکٹ بورڈ مشترکہ طور پرصورتحال کا مسلسل جائزہ لیتے رہیں گے جس کے بعد غور کیا جائے گا کہ آیا تین پلے آف میچز اور فائنل کے لئے تماشائیوں کی تعداد میں اضافہ کرنا ہے یا نہیں۔پاکستان کرکٹ بورڈ کے اعلیٰ عہدیداران سمیت نامور کرکٹرز بھی بیشتر مواقعوں پر یہ بات کہہ چکے ہیں کہ کسی بھی فارمیٹ کی کرکٹ میں تماشائیوں کے بغیر میچ کھیلنے کا لطف نہیں آتا، خاص طور پر ٹی ٹوئنٹی ایسا فارمیٹ ہے جس میں کھلاڑی کی جانب سے اچھا کھیل پیش کرنے پر شائقین کرکٹ نہ صرف محظوظ ہوتے ہیں بلکہ دل کھول کر داد بھی دیتے ہیں۔یہاں یہ بات بھی ضروری ہے کہ کسی بھی ٹیم کی اچھی کارکردگی کے پیچھے ٹیم کے کپتان کا اہم کردار ہوتاہے۔مائیکل ڈونلڈ ہیس مین آسٹریلوی نژاد انٹرنیشنل کرکٹ کمنٹیٹر ہیںاور وہ اپنے کیریئر میںجنوبی افریقہ کی کرکٹ ٹیم کے میچز میں کمنٹری کرتے رہتے ہیں ، پاکستان کے دورے پر آئی ہوئی جنوبی افریقہ کی ٹیم کے لئے اس وقت وہ کمنٹری کے فرائض انجام دے رہے ہیں، انہوں نے گذشتہ دنوں سوشل میڈیا میں لکھا کہ بین الاقوامی ٹیموں کے کپتان لیڈر ہونے چاہئیںاور ان میں خود کے کردار کی طاقت کی صلاحیت اور کھلاڑیوں کو حوصلہ دینے کی ہمت ہونی چاہئیے۔ پاکستان سپر لیگ کے کپتانوں کی صلاحیتوں کی بات کی جائے تو ان کا احاطہ کرنا مشکل ہے اور بہترین کپتان کی حیثیت سے بھی کسی کو سامنے نہیں لایا جاسکتا تاہم کپتان کی صلاحیت اور اس کی جانب سے کئے جانے والے فیصلوں پر ضرور بات ہوسکتی ہے ۔ کوئٹہ گلیڈی ایٹرز سے وابستہ معروف و مایہ نازسرفراز احمد کو پی ایس ایل کا بہترین کپتان کہا جاسکتا ہے، وہ اپنی ٹیم کی جانب سے مسلسل چھٹے ایڈیشن میں کپتانی کریں گے، انہیں ڈومیسٹک کرکٹ کا بھی وسیع تجربہ ہے، انہیں دنیا کے تقریباً تمام ہی کرکٹرز کے بارے میں معلومات ہوتی ہیں کہ کس ٹیم میں کونسا پلیئر کس پوزیشن پر کھیلتا ہے، اس کی کیا اسٹرینتھ ہے اور کیا کمزوریاں ہیں، سرفراز گلیڈی ایٹرزکے لئے ایک مرتبہ پی ایس ایل کا ٹائیٹل بھی چیت چکے ہیں جبکہ ان کی ٹیم کوئٹہ گلیڈی ایٹرز دو مرتبہ پی ایس ایل کا فائنل بھی کھیل چکی ہے،سرفراز کا پاکستان کی پیچز پر کھیلنے کا بھی بہت وسیع تجربہ ہے جبکہ پی ایس ایل میچز کراچی اور لاہور میں ہی کھیلے جائیں گے جس کاا نہیں بہت فائدہ پہنچے گا، اگر کراچی کے پہلے میچ سے کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کو سپورٹ مل جائے تو ان کی ٹیم لیگ کے دیگر میچوں پر اثراندازہوسکتی ہے ، سرفراز کی کپتانی میں کوئٹہ گلیڈی ایٹر نے 52 میچز کھیلے ہیں جن میں سے انہوں نے 30 میچوں میں کامیابی حاصل کی ہے، بین الاقوامی سطح پراگر دیکھا جائے تو 1992 میں پاکستان کی ٹیم ورلڈ کپ جیتی، 2009 میں یونس خان کی قیادت میں آئی سی سی ٹوئنٹی ٹوئنٹی جیتی اور پھر سرفراز احمدکی قیادت میںچیمپیئنز ٹرافی جیتی جبکہ انہوں نے کرکٹ کے گھر لاڑڈز میں ایک نوجوان ٹیم کے ساتھ انگلینڈ کو چاروں شانے چیت بھی کیا، اگر پلڑے میں رکھنے کی بات کی جائے تو پی ایس ایل کی تمام ٹیموں کے کپتانوں بشمول وہاب ریاض، شاداب خان، عماد وسیم، سہیل اختر اور شان مسعود کے مقابلے میں سرفراز احمد اپنے تجربہ اور صلاحیتوں کی وجہ سے ٹاپ آف ددی لسٹ نظر آئیں گے تاہم صلاحیتوں کی وجہ سے دیگر ٹیموں کے کپتانوں کو بھی کم نہیں کہا جاسکتا۔ سرفراز احمد کا ایک پلس پوائنٹ یہ بھی ہے کہ ڈے ون سے ان کے ساتھ معین خان کوچ کی حیثیت سے موجود ہیں اور ٹیم میں کوچ کا بھی اہم کردار ہوتا ہے۔ سرفراز احمد کرکٹ کے تینوں فارمیٹ کھیلتے رہے ہیں لیکن ان کو سب سے زیادہ ٹی ٹوئنٹی فارمیٹ سوٹ کرتا ہے، انہوں نے پاکستان کو چیمپینز ٹرافی جیتوائی اور انہوں نے کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کو ڈیلیور کرکے بھی دیکھایا۔ جس طرح وہ مستقل طور پر ٹیسٹ ٹیم اور ٹی ٹوئنٹی کرکٹ سے باہر بیٹھے ہوئے ہیں اس سے ایسا لگتا ہے کہ وہ پی ایس ایل میں منفرد حیثیت سے سامنے آئیں گے۔ انہیں اگر مستقبل میں پاکستان کی ٹی ٹوئنٹی ٹیم میں رہنا ہے تو انہیں ٹاپ آرڈر میں بیٹنگ کرنی ہوگی اور اپنے انداز اور کھیل سے سلیکٹرز کو متاثر کرنا ہوگا۔ پی ایس ایل سیزن چھ سرفراز احمد کی سمت کا تعین کرے گا۔ کوئٹہ گلیڈی ایٹرز پر گذشتہ سیزن کی کارکردگی کی وجہ سے پریشر ہوگا اور سرفراز احمد کو اس پریشر سے ٹیم کو نکالنا ہوگا جبکہ پریشر میں کھیلنے کی صلاحیت سرفراز احمد میں ہے۔ لاہور قلندرز نے سہیل اختر کو کپتان بنایا اور گذشتہ پی ایس ایل میں انہوں نے اپنی ٹیم کو فائنل میں بھی پہنچایا، ان پر تنقید بھی بہت زیادہ ہوئی۔ سہیل کی کپتانی میں عاقب جاوید کے فیصلوں کا بہت بڑا رول نظر آتا ہے جبکہ سہیل کی کارکردگی ایسی نہیں کہ وہ گیارہ کھلاڑیوں میں اپنی جگہ بناسکیں لیکن لاہورقلندرز کی انتظامیہ کو کریڈٹ دینا ہوگا کہ انہوں اس سال بھی سہیل اختر کو کپتان برقرار رکھنے کا فیصلہ کیاہے ۔قلندرز کی انتظامیہ نے سہیل اختر کو کپتانی اچانک نہں دی اس سے پہلے اے بی ڈیویلیئرز نے کپتانی کی جبکہ ویسٹ انیڈیز کے آلرائونڈر سمیت محمد حفیظ نے بھی قلندرز کی کپتانی کی، کئی تجربات کے بعد قلندرز نے کپتانی کے لئے سہیل اختر کا انتخاب کیا۔سہیل اختر کے فیصلوں میں عاقب جاوید کے فیصلے بھی نظر آتے ہیں جس کی وجہ سے گذشتہ پی ایس ایل میں قلندرز کی ٹیم فائنل میں پہنچی۔کراچی کنگز کے عماد وسیم ایک پروسس سے گذر کرکپتان بنے ہیں، وہ 2007 میں انگلینڈ میں پاکستان انڈر 19 کی کپتانی بھی کرچکے ہیں۔ پاکستان کرکٹ ٹیم کے تینوں فارمیٹ کے کپتان بابراعظم بھی عماد وسیم کی کپتانی میں کھیل چکے ہیں، جب بابراعظم کو کپتانی نہیں دی گئی،بہت زیادہ اس پر تنقید ہوئی لیکن عماد وسیم نے اس چیز کوثابت کیا اور اپنی ٹیم کو ٹائیٹل بھی جیتوایا، ان میں لیڈرشپ کوالٹی ہے،حالانکہ بعض دفعہ ایسا لگتا ہے کہ وہ فرنٹ سے لیڈ نہیں کرپاتے، ان کی اپنی پرفارمنس ایسی نہیں ہے جو ایک کپتان کی مثالی پرفارمنس ہونی چاہئیے لیکن گرائونڈ میں ان کا کافی کنٹرول ہے، یہ تیسرا سیزن ہے کہ وہ کراچی کنگز کے لئے کمانڈنگ پوزیشن میں کپتانی کررہے ہیںاور جس طرح کی کراچی کنگز کی ٹیم بنائی گئی ہے، ہوسکتا ہے کہ اس سال بھی عماد وسیم کی قیادت میں ٹاپ فور میں آسکتی ہے۔ عماد وسیم ایک پائے کے آلرائونڈر ہیں لیکن انہیں بلے بازی کا موقع بہت کم ملا ہے ان کی بالنگ سے زیادہ استفادہ کیا گیا ہے لیکن اب عماد وسیم کی کپتانی کے حوالے سے سوالات جنم لے رہے ہیں اور کہا جارہا ہے کہ بابراعظم کو کپتان ہونا چاہئیے۔ عماد کی سب سے اچھی بات اس کا مثبت رویہ ہے اور ان کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ تمام ذمہ داریاں اپنے کندھوں پر لے لیں۔ عماد بہت اچھے کپتان ہیںاور یہ گراس روٹ لیول سے اوپر آئے ہیں۔ پشاور زلمی کے وہاب ریاض گذشتہ برس پی ایس ایل فائیو میں کپتان کی حیثیت سے سامنے آئے جبکہ اس سے پہلے وہ فاسٹ بالر کی حیثیت سے ہی پہچانے جاتے تھے تاہم پشاور زلمی کے کوچ کی حیثیت سے ڈرین سیمی تاحال نظر نہیں آرہے کیونکہ پشاور زلمی کی کپتانی ہو یا وہ بینچ پر بیٹھے ہوں ڈرین سیمی ان کے طرف سے بنیادی اور اہم کردار ادا کرتے تھے اور اس حوالے سے پی ایس ایل کے چھٹے ایڈیشن میں وہاب ریاض کو کچھ مشکل ضرور پیش آسکتی ہے جبکہ کامران اکمل کی موجودہ پرفارمنس میں بھی کمی ہے اوروہ پشاور زلمی کے بہترین پرفارمر رہے ہیں۔ وہاب ریاض کی اپنی کارکردگی بھی اتنی اچھی نہیں ہے اور وہ پاکستان ٹیم سے بھی باہر ہوگئے ہیں جبکہ بالنگ میں بھی وہ جدوجہد میں مصروف ہیں ۔ پچھلے سال پی ایس ایل میں وہاف ریاض کو ایک اچھے کپتان کے طور پر دیکھا گیا تھا لیکن اس مرتبہ حالات اور صورتحال وہاب ریاض کے لئے کافی مشکل ہوگی جبکہ دوسری جانب یہ بھی ہے کہ ایک فاسٹ بالر جب کسی ٹیم کا کپتان ہوتا ہے تو جارحیت دیکھنے کو ملتی ہے۔ ان کا ایک مخصوص اسٹائل ہے جب وہ آئوٹ کرتے ہیں تو گھٹنوں کے بل بیٹھتے ہیں اور موچوں کو تائو دیتے ہیں جو کیمرے کے لئے تو اچھا فریم ہوتا ہے لیکن اگر وہ اپنی بالنگ سے بیٹسمینوں کو گھٹنے کے بل بیٹھائیں تو اچھی بات ہے۔ پی ایس ایل کے تمام پانچوں ایڈیشن میں وہاب ریاض بالر کی حیثیت سے سب سے زیادہ وکٹیں حاص کرنے میں ٹاپ آف دی لسٹ نظر آتے ہیں، کپتان کی حیثیت سے آخری چار میچوں میں ان کی ٹیم جگہ بنانے میں ضرور کامیاب رہی لیکن اس میں گلیڈی ایٹرز کی اچھی پرفارمنس نہ ہونے کی وجہ سے ایسا ہوا کیونکہ رن اوسط کی بنیاد پرایک پوائنٹ کی وجہ سے آخری چار ٹیموں میں پشاورزلمی جگہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئی تھی، ایک سیزن میں(باقی صفحہ5پر)
وہاب نے کپتانی کرلی ہے لیکن دوسرے سیزن میں ان کی صلاحیتوں کا امتحان ہوگا اور یہ تمام چیزیں زلمی کے لئے بھی بہت اہمیت کی حامل ہوں گی لیکن پشاور زلمی ایک ایسی ٹیم ہے جس کو پی ایس ایل میں شائقین کرکٹ کی سپورٹ حاصل رہی ہے بہرحال ایسا محسوس نہیں ہوتا کہ وہ پی ایس ایل کے چھٹے ایڈیشن میں اپنی ٹیم آگے لے جاسکیں گے۔ وہاب کا پی ایس ایل میں کپتانی کا ریکارڈ متاثرکن نہیں ہے، چھ میں صرف دو میچز وہ جیت پائے ہیں جبکہ چار میں انہیں ناکامی ہوئی ہے۔ملتان سلطانز کے شان مسعود اس لحاظ سے تھوڑے بدقسمت ہیں کہ وہ ہمیشہ تنقید کی زد میں رہتے ہیں، کوئی انہیں سفارشی کہتاہے اور کوئی کہتاہے کہ یہ پرچی کے ذریعے آئے ہیں لیکن جس فارمیٹ میں وہ کھیلتے ہیں وہاں پرفارم کرتے ہیں، نیوزی لینڈ سے واپس آنے کے بعد انہوں نے پاکستان کپ میں بیک ٹو بیک سنچریاں بنائی ہیں، اسی طرح ٹی ٹوئنٹی میں پی ایس ایل کے پانچویں سیزن میں ملتان سلطانز کے لئے انہوں نے بیٹنگ میں زبردست پرفارمنس دی اور اپنی ٹیم کو تقریباً فائنل میں پہنچاتے پہنچاتے رہ گئے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ لیڈرشپ کوالٹی ان میں ہے، کپتانی کی صلاحیت ان میں ہے اور وہ کرکٹ کو سمجھتے ہیں اور اوپنر کی حیثیت سے ٹی ٹوئنٹی فارمیٹ میں اپنے آپ کو منوالیا ہے۔ ایک کپتان اور کھلاڑی کی حیثیت سے یہ شان مسعود کے لئے بہت اہمیت والا ٹورنامنٹ ہوگا کیونکہ انہیں اپنے آپ کو ثابت کرنا پڑے گا تاکہ وہ ٹیسٹ کرکٹ میں واپس آسکیں۔ شان مسعود کرکٹ کو بہت زیادہ سمجھنے والے کپتان ہیں لیکن ٹی ٹوئنٹی میں اسمارٹ کپتان کی ضرورت ہوتی ہے جو وقت پرفوراً اور صحیح فیصلے لے سکیں۔ملتان سلطانز کی ٹیم نے شان مسعود کی قیادت میں 11 میں سے 6 جیتے اور 3 ہارے ہیں جس کی اوسط 65 فیصد بنتی ہے۔ اسلام آباد یونائیٹڈ کے شاداب خان نے جس طرح پی ایس ایل کے پچھلے سیزن میں کپتانی کے فرائض انجام دئیے وہ قابل تحسین تھے کیونکہ انہوں نے اسلام آباد یونائیٹڈ کو کئی مرتبہ اپنی نہ صرف بالنگ بلکہ اپنی بیٹنگ سے بھی میچز جیتوائے اوران کی کپتانی میں بھی یہ دیکھنے میں آیا کہ وہ بہت ہوشیاری سے فیصلے کرتے ہیں لیکن پی ایس ایل کا چھٹا ایڈیشن نزدیک ترین ہے اور شاداب خان اپنی فٹنس کی وجہ سے جدوجہد میں مصروف ہیں اور پی ایس ایل کے چھٹے ایڈیشن میں شاداب خان کو مصباح الحق کا ساتھ حاصل نہیں ہوگاجبکہ کسی بھی ٹیم کو کھیلانے میں کوچ کا کردار بہت اہم ہوتاہے لہذا اب شاداب خان کوچ مصباح الحق کے بغیر اپنی ٹیم کو لیکر آگے بڑھنا ہوگا۔ شاداب خان کی خوبی یہ بھی ہے کہ وہ گرائونڈ میں کپتان اور کھلاڑی کے حیثیت سے بہت چاک و چوبند رہتے ہیں لیکن اسلام آباد یونائیٹڈ کے پی ایس ایل فائیو کے میچوں کے نتائج حوصلہ افزا نہیں تھے جس کی وجہ سے کپتان شاداب خان کی ریٹنگ میں فرق پڑسکتا ہے،اب دیکھنا یہ ہے کہ پی ایس کے چھٹے ایڈیشن میں وہ کوچ مصباح الحق کے بغیر کس طرح کپتانی کرتے ہیں اور گرائونڈ میں کیسے فیصلے کرتے ہیں۔ ان میں یہ صلاحیت ضرور ہے کہ وہ اپنی ذمہ داری محسوس کرتے ہوئے کھیل کے دوران بیٹنگ اور بالنگ دونوں میں اپنا کردار ادا کرنے کی کوشش کرتے ہیں تاہم مجموعی طور پر ٹیم کے نتائج میں اس کا مثبت اثر نظر نہیں آرہا لیکن ذاتی طور پر ان کی کارکردگی بہتر رہی ہے۔