جمعۃ المبارک ‘ 19 ؍جمادی الثانی 1441ھ ‘ 14 ؍ فروری 2020 ء
طالبان رہنما احسان اللہ احسان کے فرار کا معمہ
اول تو ہماری قوم اتنی کند ذہن ہے کہ عام معمہ حل نہیں کر سکتی۔ یہ تو بڑا تحقیقاتی معمہ ہے اس کو بھلا وہ کیسے حل کر پائے گی۔ ’’یہ تو ایک معمہ ہے سمجھنے کا نہ سمجھانے کا‘‘ اتنے اہم طالبان رہنما کا ہمارے نہایت حساس اداروں کی قید سے پھُر سے اڑ جانا ایک افسانہ لگتا ہے۔ اس کے بارے میں کچھ لکھنا
افسانہ لکھ رہا ہوں دل بے قرار کا
احسان اللہ احسان کے دلچسپ فرار کا
والی بات ہے۔ احسان اللہ احسان کوئی ملکہ نور جہان کے ہاتھ میں پکڑا ہوا کبوتر تو تھا نہیں کہ اڑ گیا اور جہانگیر کے پوچھنے پر اس نے دوسرا کبوتر اڑا کر اس کا عملی نمونہ بھی پیش کر دیا۔ اس کی حقیقت جلد سامنے لانا ہو گی ورنہ موصوف خود جاتے جاتے کہہ گئے ہیں کہ میں نے کچھ مطالبات کے تحت گرفتاری دی تھی جو منظور نہیں ہوئے اس لئے میں ’’جا رہا ہوں شب غم گزار کے‘‘ اور چپکے سے چلے گئے۔ کیا ان کے زنداں کی دیواریں نقش برآب تھیں یا ہوائی قلعہ کہ خودبخود ہٹ گئیں۔ اب غفلت کے ذمہ دار نجانے کیا کیا افسانے تراشیں گے اور فرار ہونے والا کیاکیا قصے نمک مرچ لگا کر سنائے گا ۔ رہی بات لکھاریوں کی تو وہ من گھڑت کہانیوں کے ویسے ہی شوقین ہوتے ہیں وہ خوب بارہ مصالحے لگا کر ایسی رنگ آمیزی کریں گے کہ احسان اللہ کے حامی اسے سپرمین قرار دیں گے۔ رہے اس کے ذمہ دار تو وہ طرح طرح کی تاویلیں پیش کرتے نظر آئیں گے۔ ان سے کون پوچھے کہ ’’کہاں گیا احسان۔
٭٭٭٭
ن لیگ کے دور میں 101 فیصد اضافی نوٹ چھاپے گئے۔ عمر ایو ب
یہ تو بڑی اہم بات ہے۔ کاغذی نوٹ پھیلا کر جب ملک میں افراط زر پیدا کیا جا رہا تھا۔ ملک معیشت کا جھٹکا ہو رہا تھا۔ اس وقت عمر ایوب صاحب کیوں نہ بولے ۔ یہ انکشاف انہوں نے اس وقت کیوں نہیں کیا۔ شاید اس لئے کہ اس وقت خان صاحب ن لیگ کی کابینہ کے وزیر تھے۔ اب اچانک ان کو پرانی باتیں یاد آ رہی ہیں۔ موجودہ حکومت کو بھی محتاط رہنے کی ضرورت ہے کیونکہ ایسے چشم دید گواہ کہیں بھی بازی پلٹ سکتے ہیں۔ کیا معلوم جناب کل یہی بات موجودہ حکومت کے بارے میں بھی کہہ کر اپنے ضمیر کا بوجھ ہلکا کرتے نظر آئیں۔ انسان کو باضمیر ہونا چاہئے اچھے برے کی پہچان ہونی چاہئے۔ اپنی غلطیوں پر نادم ہونا چاہئے مگر ہمارے ہاں افسوس کہ
انساں ہیں مگر بیچ کی منزل میں کھڑے ہیں
حیوان سے پیچھے ہیں جمادات سے آگے
والی حالت چار سو نظر آتی ہے۔ نجانے کیوں ہم وقت پر سچ نہیں بول پاتے جب ضرورت ہوتی ہے۔ شاید ہم سچ سے خوفزدہ رہتے ہیں۔ اس لیے اب بے وقت کی راگنی چھیڑنے کا کیا فائدہ ۔ نہ پہلے کچھ کسی کے اختیار میں تھا نہ اب ہے۔ تو پھر ایسے لوگوں سے کیا گلہ کرنا۔
٭٭٭٭
تنقید ہو تو حکومت ذاتیات پر اتر آتی ہے: بلاول
اب اگر کوئی کسی سے پوچھے کہ بتائو تو سہی کہاں سے آئے یہ جھمکے۔ کس نے پہنائے یہ جھمکے تو بھلا اس میں ذاتیات والی بات کہاں سے آ گئی۔ ہاں اگر کوئی تنقید کرتے ہوئے کسی کی ذات پر جملے کسے تو پھر اسے بھی تیار رہنا چاہئے، مخالف کے جوابی جملوں کے لئے۔ اس وقت جو کھیل ہمارے سیاسی میدان میں چل رہا ہے۔ اس میں حکومت اپوزیشن جماعتوں کے سربراہوں کی بے تحاشہ پھیلی جائیدادیں اور دولت کے پہاڑوں کے بارے میں سوال کر رہی ہے کہ یہ سب کہاں سے آئے کس طرح بنائے گئے۔ اس پر اپوزیشن چیں بجیں ہے۔ حالانکہ وہ بھی جواب میں ڈنکے ک چوٹ پر یہی سوال حکمران جماعت سے بھی پوچھ سکتی ہے۔ مگر افسوس ایسا نہیں کیا جا رہا اور بے مقصد جوابی گولہ باری میں وقت ضائع ہو رہا ہے۔ چند ایک کو چھوڑ کر اس وقت ہمارے تمام سیاستدانوں کے خواہ حکومت میں ہوں یا اپوزیشن میں، کانوں میں جو جھمکے پڑے ہیں ان کے بارے میں سوال کرنے کا اصل حق تو عوام کے پاس ہے۔ مگر وہ اس طرف سے غافل ہیں۔ اب اگر نیب یا عدالتیں یہ کام کر رہی ہیں تو خدا کرے کہ ان سب ’’پاکدامنوں‘‘ کی اصل حقیقت جلد عوا م کے سامنے آئے تاکہ آئندہ وہ ملک اور اپنی قسمت کی باگ ڈور اچھے ہاتھوں میں تھما سکیں۔
٭٭٭٭
سزا کے خوف سے سالانہ 35 ہزار بچے سکول چھوڑ رہے ہیں۔ شہزاد رائے
گلوکار شہزاد رائے کی بچوں میں تعلیم کی روشنی پھیلانے کے لئے کام کرنے والی این جی او زندگی واقعی بچوں کی تعلیم کے لئے کام کر رہی ہے۔ اب شہزاد رائے نے عدالت کی توجہ ایک اہم مسئلہ کی طرف مبذول کرائی ہے کہ سکولوں میں وحشیانہ سزائیں بچوں کی تعلیم کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔ سروے کے مطابق سالانہ 35 ہزار بچے مار کے ڈر سے یعنی سزا کے خوف سے سکول سے بھاگ جاتے ہیں۔ بات تو یہ سو فیصد درست ہے۔ ہمارے ہاں استاد اپنے شاگردوں کو مال مفتوح سمجھتے ہیں۔ ذرا ذرا سی بات پر سبق یاد نہ کرنے پر گھر کا کام نہ کرنے پر یا جب اور کچھ نہیں ملتا تو کلاس میں شور کرنے پر یا پھر اپنے پاس ٹیوشن نہ پڑھنے پر بچوں کی عملاً چمڑی ادھیڑنے والی روایات پر عمل کرتے ہیں۔ دنیا بھر میں بچوں خاص کر پرائمری سکول کے بچوں کے لئے نرم اور شفیق قسم کے استاد رکھے جاتے ہیں۔ ان کے پڑھانے کا انداز اتنا شگفتہ ہوتا ہے کہ بچے خود بخود پڑھنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ اس کے برعکس ہمارے ہاں ا ب پ اور ایک دونی دونی دو دونی چار یا اے بی سی پر ہی بچوں کی انگلیاں توڑی جاتی ہیں یا کمر اور بازو پر نیل ڈالے جاتے ہیں۔ ہائی سیکشن کا تو اس سے برا حال ہے۔ جہاں تک پہنچتے پہنچتے یہ 35 ہزار بچے سالانہ کے حساب سے سکول سے بھاگنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ اب اسلام آباد ہائی کورٹ نے شہزاد رائے کی درخواست پر تعلیمی اداروں میں طلباء پر تشدد پر پابندی لگا دی ہے۔ ایسی پابندی پہلے بھی حکومت لگا چکی ہے۔ خدا کرے اس پر عمل ہو، ورنہ پڑھا لکھا پاکستان صرف نعروں تک ہی محدود رہ جائے گا۔