عام طور پر کہا جاتا ہے کہ حکومت کے پاس ٹیم اچھی نہیں جس کی وجہ سے مرکز اور صوبوں میںگورننس کے مسائل پر قابو نہیں پانے میں وزیر اعظم عمران خان کو خاصی مشکل ہو رہی ہے مگر جب ہم کئی وزیروں کا پروفائل دیکھتے ہیں تو حیرانی ہوتی ہے کہ کرنل ہاشم ڈوگر، راجہ ہمایوں سرفراز، مراد راس اور فیاض چوہان جیسے تعلیم یافتہ اور تجربہ کاروں کی موجودگی میں یہ ایسا تاثر قائم کرنا عجیب ہے۔ گزشتہ دنوں چئیرمین بیت المال اعظم ملک کی رہائش گاہ پر قلم دوست کے سربراہ ایثار رانا کی قیادت میں کالم نگاروں نے فیاض الحسن چوہان سے ملاقات کی جس میں انہوں نے اپنا تعلیمی ، سیاسی اور خاندانی تعارف کرایا انہوں نے اپنی وزارت کے حوالے سے اپنا لائحہ عمل بیان کیا ان کی گفتگو سے ان کے تعلیمی اور سیاسی قد کا اندازہ ہوتا ہے۔ وزیر تعلیم کو ڈاکٹر محبوب حسین کی کتاب کی رونمائی پر سنا ان کے والد کی سیاسی زندگی کا پتا چلا اور ان کی تعلیم اور تجربہ سے روشناس ہوئے۔ کرنل سردار ہاشم ڈوگر سے گزشتہ دنوں کنگن پور میں بائو عاشق کے گھر ملاقات ہوئی ان کاظرف، اپنی وزارت کے حوالے سے سنجیدگی اور علم کا جان کر خوشی ہوئی۔ بلاشبہ وہ انتہائی ملنسار، زیرک اور تجربہ کار انسان ہیں۔ سردار عثمان بزدار اور عمران خان کی بھرپور جدوجہد کا نتیجہ لوگوں کی آسانیوں اور خوش حالی کی صورت میں سامنے آنا چاہیے مگر حالات دن بدن سخت ہوتے جا رہے ہیں۔ کبھی میڈیا پریہ تاثر آتا ہے کہ بیوروکریسی ساتھ نہیں دے رہی کبھی مافیا کے مضبوط پنجوں کا ذکر کیا جاتا ہے مگر یہ حقیقت ہے کہ ہر بحران سے نپٹنا حکومت ہی نے ہے سو حکومتی ٹیم میں قابل وزیر موجود ہیں اور اپنی مرضی کے افسران بھی سو ضرورت ایکشن لینے ہے سیاسی بصیرت موجود ہے مگر اس کے ساتھ ساتھ سیاسی قوت اور فیصلہ کی ہمت درکار ہے۔کسی بھی ملک کو فلاحی ریاست کہوانے کا اس وقت حق ہوتا ہے جب حکومت اپنے شہریوں کے بنیادی حقوق کو عملاپورا کررہی ہو شہریوں کی تین حثیتیں ہوتی ہیںجن میں دولتمند طبقہ ،مڈل کلاس اور عام شہری شامل ہیں۔ مہنگائی کی انتہائی تشویشناک صورت میں بھی پہلی دو کیٹیگری کے لوگ اپنے معمولات زندگی کو کسی نہ کسی طرح چلا نے کی پوزیشن میںر ہتے ہیں جبکہ تیسرا طبقہ مہنگائی یاکسی آفت کا مقابلہ کرنے کی سکت نہیں رکھتا۔ غربت وافلاس سے تنگ لوگ بالاآخر جرم کی دنیا میں نکل جاتے ہیں اور معاشرہ کے امن وسکون کو تباہ وبرباد کردیتے ہیں اخلاقی ومذہبی وجوہات سے زیادہ پوری دنیا نے انسانوں کے بنیادی حقوق کے تحفظ کے لئے اقوام متحدہ کے چارٹر ،جمہوریت ،کیمونزم ،سول سوسائٹی کی تنظیموں کا قیام ، ان تمام کوششوں کا مرکزی نکتہ یہی ہے کہ عوام کو بنیادی سہولتیں بہم پہنچائی جائیںتاکہ نہ صرف محروم طبقہ کو بہتر زندگی گزارنے کے مواقع فراہم کیے جاسکیںبلکہ جرائم کی شرح میں کمی کی جاسکے ۔پاکستان کی حکومتیں ماضی میں انگریز کی پالیسی پر عمل پیرا رہیں اور پاکستانی عوام کو سہوالتیں یابنیادی حقوق رفتہ رفتہ دینے کی پالیسی اپنائی کسی حکومت نے بھی بنیادی حقوق کو مذہبی ،اخلاقی اور اقوام متحدہ کی ضرورت کے لئے ترجیحی نہ دی بلکہ اس کی وجہ معاشی اورسیاسی حیثیت کا کمزور ہونا تھا جبکہ کرپشن اور بری گورننس نے بھی پاکستان اور سماج کو بہت نقصان پہنچایا۔ تحریک انصاف کی بیس سالہ جدوجہد نے ملک کے طول و عرض میں سابقہ حکومتوں کی مالی وسیاسی کرپشن کو ہر سطح پر ایکسپوز کردیااور وعدہ کیا کہ وہ حکومت میں آکران برائیوں سے نبردآزما ہوں گے ۔پاکستانی عوام نے عمران خان کے نعروں اور وعدوں کو سچااور کھرا مانتے ہوئے انہیں ایوان اقتدار میں پہنچاکر نئی تاریخ رقم کردی کیونکہ بظاہریہی لگ رہا تھاکہ سیاسی امور پر پی پی پی اور مسلم لیگ (ن) کی گرفت اتنی مضبوط ہے کہ کوئی تیسری سیاسی جماعت ان کو شکست نہیں دے سکتی ۔عمران خان نے حکومت میں آتے ہی اچھی گورننس کے قیام کے لیے تگ ودو شروع کردی اور یہ کوشش ابھی تک جاری وساری ہے ۔ عمران خان کی حکومت نے کئی وزارتوں کے تحت کئی اداروں کو مدغم کرکے،اضافی گاڑیوں کو فروخت کرکے یہ تاثر دیا کہ وہ عشرت کے بجائے سادگی کو ترجیح دینا چاہتے ہیں ۔تعلیمی میدان میں پنجاب حکومت نے کمیونٹی کالبحز اور بی ایس کالجز کی پالیسی کو اپنا یا بینظیر انکم سپورٹ پروگرام میںان فسروں کے خلا ف کاروائی کی جو اپنی بیویوں اور رشتہ داروں کے نام پر بیوائو ں کا حق کھارہے تھے یہ گھٹیاپن کی انتہا ہے جس کو پی ٹی آئی حکومت منظر عام پرلے کرآئی ۔اس سے یہ پتہ چلتاہے کہ ملک اورعوام کی تقدیر بدلنے کے لیے حکومت کو کس طرح کے افسران ملے ہیں۔ حکومت سے گزارش ہے کہ اس طرح کے تمام کم ظرف افسران کا ڈیٹا کسی یونیورسٹی کو دے تاکہ وہ ان پر تحیقیق کر کے کتاب شائع کرے اس کا وش سے شرمندہ کرنے کی تاریخ کاآغاز ہوگا اور عمرانیات میں ایک نئے مضمون کا اضافہ ہوگا جو آنے والے دور کو خبر دار کرے گا کہ ان کا نام بھی تعلیمی نصاب میں تضحیک کے ساتھ شامل ہوسکتا ہے ۔پی ٹی آئی حکومت نے جو قابل تحسین کا م کیا ہے وہ صحت کا رڈ پالیسی ہے ۔تعلیم اور صحت وہ بنیادی شعبہ جات ہیں جو سٹیٹ کی ذمہ داری ہوتی ہے۔صحت منداور با صلاحیت معاشرہ کی بنیاد انہی شبہ جات پر منحصر ہے۔صحت اور تعلیم کے شعبوں میں بہترین پالیسی اپنا کر ہی حکومت سماج میں امن اور خوشحالی لاسکتی ہے ۔ پنجاب میںصحت کارڈ پالیسی پر بھرپور عمل جاری ہے اور حکومت نے چار کروڑ عوام کو صحت کارڈ جاری کرنے کا وعدہ کیا ہے اس کارڈ کے ذریعے غریب مریض علاج کی بہترین سہولت حاصل کرسکیں گے لاکھوںروپوںکی ادویات مفت حاصل کرسکیں گے اور مہنگائی اس دور میں اس سہولت سے فائدہ اٹھاکر صحت مند زندگی گزارنے کے قا بل ہو سکیں گے ۔وزیراعظم عمران خان کی ہدایت پر پنجاب کے بتیس اضلاع میں چھیا سٹھ لاکھ خاندانوں کو صحت کارڈ کی سہولت دی گئی ہے صحت انصاف کارڈ کی سہولت نے خط غریت سے نیچے زندگی گزارنے والے عوام نے سکھ کا سانس لیا ہے حکومت کا وعدہ ہے کہ وہ ملک کے بہتر لاکھ خاندانوں کے چار کروڑ افراد کو اس صحت کارڈ کی سہولت فراہم کریں گے ۔ اس کارڈ کے کشمکش کے دور میں انصاف صحت کارڈکی سہولت یقینا عوام کے لیے خوشخبر ی ہے مگر حکومت کو چاہیے کہ وہ متعلقہ ہسپتالوں اور متعلقہ دفاتر کو ہدایات جاری کریں کہ وہ مریضوں کو لمبی لمبی قطاروں اور' ـــ' اگلے ہفتہ آنا'' '' یاکل آنا '' کے روایتی جملوں اور ہتھکنڈوں سے بچانے کے لیے مانیٹر نگ ٹیم ضرور تشکیل دے بہتر ہوگا کہ اس شکایت کی تصدیق اوپن کردی جائے کہ ہسپتال میں کوئی بھی صحافی اور سرکاری ملازم تحریری طور پر کسی بھی مریض کی شکایت کو وزیر صحت تک پہنچاسکتا ہے ان شکایات کو جبکہ صحت کی ویب سائٹس یا فیس بک پراوپن گفتگو کے لئے اعلان کیا جائے چونکہ فیس بک عام لوگ بھی استعمال کرتے ہیں اس لیے شکایات کے لیے وزارت صحت کی فیس بک ہونا ضروری ہے جس پر ہرکوئی اپنی رائے یاکسی دوسرے کی شکایت بیان کرسکے۔چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ نے حکومت کی توجہ سفیدپوش طبقہ کی طرف دلاتے ہوئے کہا کہ مڈل کلاس طبقہ تو کسی کو اپنی اصلی حالت بھی نہیں بتا سکتا اس لیئے اس طبقہ کا خیال رکھنا بہت ضروری ہے۔ اصلی بات تو یہ ہے کہ حکومت تمام طبقوں کی ہوتی ہے اور اس کا فرض ہے کہ وہ معاشرہ کے ہر طبقہ کے مسائل حل کرے۔
میرے ذہن میں سمائے خوف کو تسلّی بخش جواب کی ضرورت
Apr 17, 2024