تقریباً روزانہ وطن عزیز میں کسی معصوم بچے کے جنسی ھوس کا نشانہ بننے اور بہت ہی بیدردی سے اوباش قسم کے افراد کے ہاتھوں قتل ہونے کے واقعات پڑھنے اور سننے کو ملتے ہیں۔ بربریت کا شکار ہونے والے بچے اور بچیاں جن کی عمریں دس سے کم ہوتی ہیں۔ یہ اوباش عموماً محلے گاؤں اور قرابت داری میں ہوتے ہیں جن کا گھروں میں آنا چانا رہتا ہے۔ تعلیمی اداروں خاص کر دینی مدارس میں بھی اس قسم کے واقعات رونما ہو رہے ہیں ان جرائم میں بہت ہی تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ محض دو یا تین فیصد واقعات منظر عام پر آتے ہیں اور تھانے میں رپورٹ ہوتے ہیں جبکہ باقی واقعات کو دبا دیا جاتا ہے۔ والدین کو یہ باور کرایا جاتا ہے کہ تھانے عدالت جانے سے بدنامی اور مالی اخراجات کے سوا کچھ حاصل نہ ہوگا مزید متاثر ہوں گے۔ کسی حد تک یہ بات درست بھی ہے کہ ہمارے تھانے اور عدالتیں جہاں داد رسی کم اور مالی اور ذہنی پریشانیاں زیادہ حاصل ہوتی ہیں متاثر ہ خاندان تھانے اور عدالتوں میں جانے سے خوفزدہ رہتے ہیں۔ علاقوں میں کچھ نام نہاد قسم کے پنچائتی کے پیشہ ور لوگ بھی منفی سوچ ہے متاثرہ خاندان کی حوصلہ شکنی کرتے ہیں۔ ہمارا معاشرہ تیزی سے تباہی کی طرف جا رہا ہے۔ ہم روبہ زوال ہیں۔ معصوم بچوں اور بچیوں کو جس خوفناک انداز میں جنسی ھوس کا نشانہ بنا کر قتل کیا جا رہا ہے سو چ کر خوف آتا ہے۔ ہم جنگلی جانوروں، رندوں سے بھی بد تر ہو چکے ہیں چونکہ جانور بھی اپنے معصوم بچوں و جنسی ھوس کا نشانہ بنا کر اس طرح قتل نہیں کرتے۔ کسی بھی قسم کا جانور چرند و پرند ایسا نہیں کرتا، یہ کیا ہو رہا ہے؟ سب کے لئے سوچنے کا مقام ہے، لمحہ فکریہ ہے۔ اگر آپ روزانہ ، ماہانہ اور سالانہ کی بنیاد پر اعداد و شمار اکھٹے کریں تو ہزاروں کی تعداد میں سالانہ معصوم بچے اور بچیاں اس درندگی کا شکار نظر آتے ہیں۔ سزا ایک فیصد کو بھی نہیں ہوتی تو جرم میں آخر کمی کیسے آئے گی؟ مجرموں کو قرار واقعی سزائیں نہ ملنے کی وجہ سے جرائم میں تیزی سے اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ پہلی کمزوری یہ ہے کہ تھانے اور عدالتی ناکام نظام کی وجہ سے لوگ کیس ہی رجسٹر نہیں کرتے اگر رشوت و سفارش کی بنیاد پر ایف آئی آر درج کرانے میں کامیاب بھی ہو جائیں تو تھانوں میں عموماً اہلکاران رشوت لے کر کمزور کیس تیار کرتے ہیں جس کی وجہ سے عدالتوں میں ملزمان ضمانتوں پر رہا اور جلد ہی بری ہو جاتے ہیں۔ہمارے اکثریت وکلاء بھائی یہ بخوبی جاننے کے باوجود کہ ان کے مؤکل نے معصوم بچے یا بچی کی ھوس کا نشانہ بنا کر بیدردی سے قتل کیا سزا سے بچانے کے لئے جھوٹی کہانی یاد کراتے اور سزا سے بچانے کے لئے من گھڑت باتیں سکھاتے اور ترغیب دیتے ہیں الغرض نظام ہی بگڑا ہوا ہے۔ انصاف کی راہ میں رکاوٹیں ہیں اور یہ تمام رکاوٹیں ہم سب مل کر کسی نہ کسی شکل اور مرحلے میں گھڑا کرتے اور انصاف کا خون کر رہے ہیں ایسی صورت حال میں جرائم میں کمی کے بجائے اضافہ ہونا لازمی امر ہے۔ ہر جرم کی اپنی منفر د کیفیت اور اہمیت ہے مگر بچوں کو جنسی ھوس کا نشانہ بنا کر قتل کرنا بہت ہی خوفناک فعل ہے جس کی جس قدر مذمت کی جائے اور اس کے لئے جس قدر خوفناک عبرتناک سزا ہو کم ہے۔ حالیہ دنوں قومی اسمبلی نے کثرت رائے سے یہ قرارداد منظوری کہ مجرموں کو سر عام پھانسی کی سزا دی جائے۔ قومی اسمبلی کے جن ممربان نے اس قرارداد کے حق میں رائے دی وہ مبارکباد کے مستحق ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کو جزائے خیر عطا فرمائیں ۔ اس قرارداد کے منظور ہونے پر جہاں بہت خوشی ہوئی یہ صدمہ بھی ہوا کہ کچھ عوامی نمائندگان ممبران اسمبلی اور کچھ وزراء نے اس قرار داد کے خلاف ووٹ دیا ۔ مخالفت کی اور مؤقف اختیار کیا کہ یہ ظالمانہ طریقہ ہے اس سے پاکستان بدنام ہوگا۔ دنیا مخالفت کرے گی۔ اقوام متحدہ مخالفت کرے گی وغیرہ ۔ بحیثیت سیاسی جماعت پیپلز پارٹی نے بھی مخالفت کی ہے اس پر بہت افسوس ہے۔ جن ممبران اور وزراء نے قرارداد کی مخالفت کی ہے وہ خدا کے حضور توبہ کریں۔ قوم سے معافی مانگیں۔ پوری قوم ان درندہ صفت مجرموں کو چوکوں اور چوراہوںمیں پھانسی پر لٹکانے کے حق میں ہے۔ آپ لوگ قوم کی آواز کے خلاف مؤقف اختیار کرکے نمائندگی کی توہین کر رہے ہیںَ بھیانک جرائم کی عبرتناک سزا ضروری ہے۔ اگر ایسا نہ ہوا تو یہ جرم مزید بڑھے گا۔ میں یہ دعا نہیں کر سکتا کہ جن وزیروں اور ممبران اسمبلی نے بل کی مخالفت کی ان کے بچوں کے ساتھ ایسا ہو۔ اگر ان کے معصوم بچوں کے ساتھ ایسا ہو تو انہیں مکمل احساس ہوگا کہ یہ کس قدر تکلیف دہ اور خوفناک بات ہے ان والدین کے دکھ اور درد کو سمجھنے کوشش کریں۔ اورخدارا ان لمحات و سمجھنے اور محسوس کرنے کی کوشش کریں کہ جس کیفیت میں یہ معصوم بچے جنسی ھوس کا نشانہ بنے اور قتل ہوئے ہیں وہ لمحات اپنی اولادد کو سامنے رکھ کر سوچیں جس شخص میں انسانیت ہے انسانی جذبات اور اقدار ہیں وہ بخوبی اس دکھ اور درد کو محسوس کر سکتا ہے۔ جن ممبران اور وزراء نے اس قرار داد کی مخالفت کی ہے انہوں نے قرآن کے احکامات کی مخالفت کی ہے اور قومی جذبات کی مخالفت کی ہے۔ ہم ان لوگوں کی بھرپور مذمت کرتے ہیں۔ یہ روشن خیال قسم کے عوامی نمائندے آنکھوں کے سامنے ہونے والے ظلم و ستم کو دیکھنے کے باوجود منفی فیصلہ کرکے اللہ کے عذاب کو دعوت دے رہے ہیں۔ تم اقوام متحدہ اور دنیا کی خواہشات کا احترم کرتے ہو اور پاکستانی معاشرے میں درندہ صفت مجرموں کی حوصلہ افزائی لئے کہتے ہو کہ سرعام سزا نہ دی جائے۔ اللہ کا خوف کرو۔ جب تمہارے معصوم بچہ یا بچی اس گھناؤنے جرم کا شکار ہوگا تو لگ پتہ جائے گا کہ اس وقت کیا کیفیت ہوتی ہے۔ میں دعوے سے کہتا ہوں کہ اگر مجرموں کو سرعام پھانسی کی سزائیں دی جائیں تو اس جرم میں ہر صورت کمی آئے گی۔ مجرموں کی حوصلہ شکنی ہوگی۔ سعودی عرب میں سر قلم کرنے کی سزا سے جرائم میں بہت کمی ہے۔ پاکستان میں اگر صرف ایک سو مجرموں کو سر عام پھانسی ہو جائے تو 80فیصد سے زائد اس گھناؤنے جرم میں کمی آ جائے گی۔ یہ بیماری خوفناک حد تک بڑھ چکی ہے اس کے لئے عبرتناک سزا پر عمل ہونا اشد ضروری ہے۔ پارلیمنٹ اور تمام صوبائی اسمبلیاں اس حوالے سے قانون سازی کریں۔عبرتی سزا کا بل پاس کریں۔ تمام صاحب الرائے بالخصوص علمائے کرام اور وکلاء دوست اس کی بھرپور حمایت کریںجن ممبران نے اس قرار داد کی مخالفت کی ہے رائے ان کی مذمت اور باز پرس کرے۔
بانی تحریکِ انصاف کو "جیل کی حقیقت" سمجھانے کی کوشش۔
Apr 19, 2024