مشرقی پاکستان ‘ پاکستان سے علیحدہ ہوا تھا اس کی کئی وجوہات تھیں مگر علیحدگی کی بظاہر جو وجہ بنی وہ زبان کا جھگڑا تھا۔ بنگالیوں کا کہنا تھا کہ پاکستان میں ان کی اکثریت ہے اور اس لحاظ سے بنگلہ کوملک کی قومی زبان کا درجہ ملنا چاہیئے اس تنازعہ میں اس بحث میں پڑے بغیر کہ کیا غلط تھا اور کیا صحیح۔ گفتگو اس پر کرتے ہیں کہ پھر کیا ہوا؟ غالباً 2016ء میں جب میں ڈھاکہ گیا تو پتہ چلا کہ ڈھاکہ یونیورسٹی میں اردو ڈپارٹمنٹ بھی ہے جہاں ایک بنگلہ دیش اردو شاعر اوردانشور جلال عظیم آبادی کی کتاب پڑھائی جاتی ہے میرے لئے یہ بات حیرت انگیز تھی۔ کراچی یونیورسٹی میں بنگلہ دیش ڈپارٹمنٹ تو شروع سے قائم تھا مگر ڈھاکہ سے تو اردو ناپید ہوچکی تھی خیر تو مجھے اس ڈپارٹمنٹ جانے کا اتفاق ہوا اس وقت اس شعبے کے جو سربراہ تھے(مجھے ان کا نام یاد نہیں) نے میرا گرم جوشی سے استقبال کیا میں جلال عظیم آبادی صاحب کے ساتھ ایک آڈیٹوریم میں گیا جہاں شعبے کے سیکڑوں طلبہ جمع تھے۔ صدر شعبہ کے علاوہ جلال صاحب نے اپنی کتاب اور اردو کے حوالے سے تقریر کی اور پھر صدر شعبہ نے میرا تعارف کرواکر اردو صحافت کے موضوع پر گفتگو کرنے کی دعوت دی۔ میں نے طالب علموں سے پوچھا کہ وہ کس زبان میں میری بات سننا چاہیں گے کیونکہ میں ٹوٹی پھوٹی بنگلہ اب بھی بول سکتا ہوں۔ اکثریت نے انگریزی کا نعرہ لگایا۔ مجھے 1969ء میں ڈھاکہ یونیورسٹی کی ایک سیاسی تقریب کا واقعہ یاد آگیا اس وقت کے پاکستانی نژاد برطانوی طالب علم طارق علی ڈھاکہ آئے ہوئے تھے بائیں بازو کے شعلہ بیاں مقرر تھے‘ ان کی تقریر تھی۔ میں ڈھاکہ کالج میں پڑھتا تھا میں بھی وہاں گیا۔ طارق علی نے مجمع سے پوچھا کہ وہ کس زبان میں تقریر سننا پسند کریں گے تو اس وقت بھی تمام بنگالیوں نے انگریزی کا نعرہ لگایا تھا۔بہرحال میری تمہید اس لئے لمبی ہوگئی کہ میں بنگلہ دیش کے باشندوں کی زبان کے معاملے میں جذباتیت کا احاطہ کرسکوں‘ میرے لئے یہی حیرت انگیز بات تھی کہ اس پس منظر کے بعد وہاں شعبہ اردو موجود ہے وہاں جاکر یہ بھی پتہ چلا کہ بیشتر طالب علم اس لئے یہ مضمون لیتے ہیں تاکہ اس کے ذریعے ان کے مارکس اچھے ہوجائیں اوردلچسپ بات یہ ہے کہ طلبا بنگلہ اسکرپٹ میں اردو پڑھتے لکھتے ہیں یعنی رومن اردو میں۔ایک اہم خبر ہے کہ اس سال جنوری میںشعبہ اردو کے زیر اہتمام بین الاقوامی اردو کانفرنس کا انعقاد ہوا۔ اس کانفرنس کا موضوع تھا ’’21 ویں صدی میں اردو لٹریچر‘‘ اس میں مقالے بھی پڑھے گئے اور ایک شاندار مشاعرہ بھی ہوا جس کی صدارت سید جلال الدین احمد(جلال عظیم آبادی) نے کی۔ اس کانفرنس اور مشاعرے میں شرکت کے لئے بنگلہ دیش کے علاوہ بھارت ‘ قطر‘ مصر‘ کینیڈا‘ جرمنی‘ ایران‘ برطانیہ‘ فن لینڈ‘ ناروے اور ماریشس سے ادیب‘ شعراء اور کالم نگاروں کو دعوت دی تھی میرے دوست افسانہ‘ ناول نگار اور شاعر سرور غزالی نے بھی جرمنی سے جاکر شرکت کی۔ بنگلہ دیش کے بہت معروف ارو شاعر نوشاد نوری نے بنگلہ زبان کی تحریک میں بڑھ چڑھ کر حصہ بھی لیا تھا ان کے بیٹے معروف بنگار بیکل ہاشمی کو خاص طور پر مدعو کیا گیا تھا ایک بات محسوس کی گئی کہ پاکستان اور امریکہ سے کسی مہمان کو یا تو دعوت نہیں دی گئی تھی یا ان میں سے کوئی خود نہ جاسکا تھا ویسے مجھے اس بات کا علم ہے کہ پاکستان سے کسی کو نہ بلائے جانے کی ایک وجہ تین برسوں قبل بنگلہ دیش کے یوم آزادی کے موقع پر ڈھاکہ یونیورسٹی کے وائس چانسلر نے ایک سرکاری اعلان کیا تھا کہ آئندہ پاکستان کے تعلیمی اداروں سے نہ توکسی طالب علم کو یا مدرس کو بنگلہ دیش بلایا جائے گا اور نہ ہی بنگلہ دیش سے کوئی تعلیمی وفد پاکستان جائے گا۔ اس کی سیاسی وجہ سمجھ میں آئی‘ یعنی 1971ء کے تناظر میں پاکستان اور بنگلہ دیش کے تعلقات میں ہمیشہ کے لئے کشیدگی رہی ہے یہی وجہ ہے کہ وزیراعظم شیخ حسینہ واجد جب بھی اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں تقریر کرتی ہیں تو وہ بنگالیوں کی مظلومیت کے بارے میں دنیا کو بتاتی ہیں۔مجھے ایسا لگتا ہے کہ بنگلہ دیش اور پاکستان کے درمیان برف پگھل رہی ہے اور اس کی وجہ شاید ان دنوں بھارت کی اندرونی سیاسی کشمکش ہے۔ بھارت جہاں مسلمانوں اور کشمیریوں کے خلاف متعصبانہ کارروائیاں کررہا ہے وہیں اس نے آسام سے لاکھوں بنگالی مسلمانوں کو ملک سے نکال دینے کی مہم چلائی ہوئی ہے جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ان میں سے بیشتر1971ء کے ہنگاموں کے دوران مشرقی پاکستان سے آکر آسام میں بس گئے تھے۔ بنگلہ دیش کی موجودہ حکومت کو یقیناً یہ بات ناگوار گزر رہی ہے وہ پہلے ہی ڈھائی لاکھ محصورین کا بوجھ اٹھارہا ہے اورتقریباً8 لاکھ روہنگیا مسلمان بھی بنگلہ دیش کے شہرکسز بازار کے کیمپوں میں آباد ہیں۔ بنگلہ دیش کو یہ بھی اندازہ ہے کہ تقریباً بیس لاکھ بنگالی پاکستان کے شہر کراچی میں آباد ہیں جن کی اکثریت غیر قانونی طور پر پاکستان میں داخل ہوئی تھی یہی وجہ ہے کہ برسوں کے انکار کے بعداس دفعہ بنگلہ دیش کی کرکٹ ٹیم پاکستان گئی۔دونوں ممالک کے درمیان یہ نئی فضا یقیناً خوش آئند ہے حال ہی میں بنگلہ دیش میں پاکستان کے نئے ہائی کمشنر عمران احمد صدیقی کا تقرر ہوا ہے جو اس سے پہلے کینیڈا میں پاکستان کے کونسلر جنرل تھے۔ وہ برصغیرمشرقی پاکستان کی تاریخ سے اچھی طرح واقف اور کیریئر ڈپلومیٹ ہیں ان سے توقع کی جارہی ہے کہ وہ پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان جو گرد جم گئی ہے اسے صاف کریں گے۔آیئے اب پھر سے ڈھاکہ یونیورسٹی میں’’عالمی اردو کانفرنس‘‘ پر بات کرتے ہیں اس کانفرنس کا افتتاح ڈھاکہ یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر محمد اختر الزماں نے کیا۔ دونوں دن کئی کئی اجلاس ہوئے جن میں اردو سے متعلق کئی موضوعات پر تقریریں ہوئیں اور مقالے پڑھے گئے۔ ڈھاکہ یونیورسٹی کی پروفیسر حفصہ اختر نے ایک مقالہ پڑھا جس کا عنوان تھا ’’بنگالہ دیش میں اردو ادب کے خدمت گزار جلال عظیم آبادی‘‘ اکیسویں صدی میں بنگلہ دیش میں اردو شاعری کے موضوع پر پروفیسر حسین ا لبنا نے بہترین مقالہ پڑھا۔ ڈھاکہ یونیورسٹی میں اردو کانفرنس کے انعقاد میں جن بنگالی اساتذہ نے بھرپور محنت کی ان میں محمد غلام مولا‘ پروفیسر ڈاکٹر ظفر احمد بھوئیاں‘ پروفیسر حسین البنا‘ ڈاکٹر محمد غلام ربانی‘ ڈاکٹر رشید احمد‘ پروفیسر حفصہ اختر وغیرہ نمایاں ہیں ۔ بنگلہ دیش میں مقیم اردو افسانہ نگار ارمان شمسی کی بیٹی بیرسٹر سعدہ ارمان نے اردو اور اردو کمیونٹی کے حوالے سے انگریزی میں ایک معرکتہ آراء مقالہ پڑھا جس میں انہوں نے ان محصورین کا بھی ذکر کیا جو اردو بولتے ہیں اور47 برسوں سے کیمپوں میں پڑے ہوئے ہیں۔ کانفرنس کے آخری دن عظیم الشان مشاعرہ منعقد ہوا جس کی صدارت جلال عظیم آبادی نے کی اور یہ مشاعرہ معروف اردو شاعر ڈاکٹر عندلیب شادانی کی یاد میں ہوا جو خود بھی ڈھاکہ یونیورسٹی میں استاد تھے۔ اس مشاعرے میں ڈھاکہ میںمقیم شعرا ارمان شمسی‘ شمیم زمانوی‘ سید پور کے ماجد اقبال‘ جرمنی کے سرور غزالی‘ قطر کے صبیح بخاری‘ شہاب الدین(قطر)‘ شائستہ حسن(ناروے) احمد اشفاق(قطر) وغیرہ نے شرکت کی۔ معروف صحافی اور شاعرط احمد الیاس شدید علالت کے باعث شرکت نہ کرسکے۔
"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
Mar 27, 2024