چینی سفیر کی ملاقات، گوادر میں سہ فریقی سرمایہ کاری کیلئے حالات سازگار ہیں: خسرو بختیار
اسلام آباد (آن لائن، آئی این پی، صباح نیوز)پاکستان میں چین کے سفیر یاو جنگ نے وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی، ترقی و اصلاحات مخدوم خسرو بختیار سے بدھ کو ملاقات کی، اس دوران دو طرفہ دلچسپی کے امور بالخصوص پاک چین اقتصادی راہداری پر جاری پیشرفت کے حوالے سے تفصیلی بات چیت ہوئی۔ خسرو بختیار کا کہنا تھا کہ گوادر منصوبوں بشمول گوادر ائر پورٹ، ہسپتال، ووکیشنل انسٹی ٹیوٹ اور پاور پلانٹ پر کام کی رفتار تیز کردی جائے، یہ منصوبے نہ صرف یہاں سرمایہ کاری کیلئے سازگار ماحول فراہم کرنے میں معاون ثابت ہوگے بلکہ مقامی آبادی کو بنیادی سہولیات کی فراہمی ممکن ہوجائے گی۔ گوادر میں سہ فریقی سرمایہ کاری کیلئے حالات ساز گار ہے۔ گوادر ماسٹر پلان پر تمام سٹیک ہولڈرز کا اتفاق رائے حاصل ہوگیا ہے جلد اس پلان کو حتمی شکل دے دی جائی گی۔ وفاقی وزیر نے سماجی و معاشی تعاون کے سلسلے میں رواں ماہ کے آخر میں چینی ماہرین کے دورہ پاکستان پر اطمینان کا اظہار کیا۔ وفاقی وزیر نے سماجی شعبے میں چین کے مالی تعاون کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ وفاقی حکومت صوبوں کے ساتھ مل کر ایک روڈ میپ تیار کررہی ہے تاکہ اس شعبے میں جلد از جلد منصوبوں کا اجراء کیا جاسکیں۔خسرو بختیار نے کہا کہ صنعتی تعاون پر کام تیز کرتے ہوئے اقتصادی زونز کے قیام کیلئے تمام ممکنہ اقدامات کئے جارہے ہیں۔ خیبرپی کے میں رشکئی کے مقام پر سی پیک کے پہلے اقتصادی زون کا سنگ بنیاد رکھا جائے گا۔ وفاقی حکومت گیس و بجلی کی فراہمی اور زون کیلئے شاہراہوں کی تعمیر کے سلسلے میں ہر ممکن مدد فراہم کرے گی۔ چین نجی و حکومتی کمپنیوں کی پاکستان میں سرمایہ کاری کیلئے حوصلہ افزائی کرے۔ وفاقی وزیر نے اس موقع پر پاک چین زرعی تعاون کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ وفاقی حکومت صوبوں کے ساتھ مل کر جائنٹ ورکنگ گروپ کے اجلاس سے قبل روڈ میپ تیار کر رہی ہے۔ چینی کمپنیوں کو پاکستان کے زرعی شعبے میں سرمایہ کاری کیلئے مواقع فراہم کئے جائیں گے۔ وفاقی وزیر نے زور دیا کہ پاکستان ریلویز ایم ایل ون منصوبے کی ڈیزائن کو فوری طور پر حتمی شکل دی جائے تاکہ اس منصوبے کی مالی معاملات پر مذاکرات کا آغاز کیا جاسکے۔اسلام آباد(آئی این پی)پاکستان اور چین نے اپریل2019 میں بیلٹ اینڈ روڈ فورم کے موقع پر وزیر اعظم عمران خان کے دورہ چین کیلئے تیاریاں شروع کرنے پر اتفاق کیا ہے۔ مخدوم خسرو بختیار نے کہا ہے کہ چین نجی و حکومتی کمپنیوں کی پاکستان میں سرمایہ کاری کیلئے حوصلہ افزائی کرے، پاکستان ریلویز ایم ایل ون منصوبے کی ڈیزائن کو فوری طور پر حتمی شکل دی جائے تاکہ اس منصوبے کی مالی معاملات پر مذاکرات کا آغاز کیا جاسکے۔صنعتی تعاون پر کام تیز کرتے ہوئے اقتصادی زونز کے قیام کیلئے اقدامات کئے جارہے ہیں،گوادر ماسٹر پلان پر تمام سٹیک ہولڈرز کا اتفاق رائے ہوگیا ہے جلد اس پلان کو حتمی شکل دی جائے گی،پاکستان زراعت کے شعبے میں ٹیکنالوجی کی منتقلی، چینی مارکیٹس تک رسائی، سائنسی اور تکنیکی تعاون کے خواہاں ہے،چینی کمپنیوں کو پاکستان کے زرعی شعبے میں سرمایہ کاری کیلئے مواقع فراہم کئے جائیں گے۔دو طرفہ دلچسپی کے امور بالخصوص پاک چین اقتصادی راہداری(سی پیک) پر جاری پیش رفت کے حوالے سے تفصیلی بات چیت ہوئی۔ وزیر مخدوم خسرو بختیار کا کہنا تھا کہ گوادر منصوبوں بشمول گوادر ائر پورٹ، ہسپتال، ووکیشنل انسٹی ٹیوٹ اور پاور پلانٹ پر کام کی رفتار تیز کردی جائے۔ چین، پاکستان اور افغانستان کے درمیان اہم سرحدی گزرگاہوں پر جدید استقبالیہ مراکز، پینے کے پانی اور کولڈ اسٹوریج کی سہولیات کی تعمیر کے لیے سرمایہ فراہم کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔چین کے اس پراجیکٹ کا مقصد دونوں ملکوں کے درمیان روزانہ ہزاروں افراد کی آمد و رفت اور تجارتی قافلوں میں آسانیاں پیدا کرنا ہے جس سے دو ہمسایہ ملکوں کے درمیان کشیدگی کم کرنے میں مدد مل سکے گی۔بیجنگ کے دونوں ملکوں کے ساتھ اچھے سفارتی اور اقتصادی تعلقات ہیں اور وہ اسلام آباد اور کابل کے درمیان کشیدہ رابطوں کو بہتر بنانے کے لیے ان کی حوصلہ افزائی کر رہا ہے، تاکہ افغان جنگ کے خاتمے کے لیے طالبان اور افغان حکومت کے درمیان کسی سیاسی سمجھوتے تک پہنچنے کے لیے یہ دونوں ملک مل کر کام کر سکیں۔اسلام آباد میں چینی سفارت خانے کے ڈپٹی چیف مشن زہو لی جیان نے امریکی نشریاتی ادارے کو ایک تفصیلی انٹرویو میں بتایا کہ کابل میں تین ملکوں کے وزرائے خارجہ کے اعلی سطحی مذارات میں سرحدی گزرگاہوں کو ترقی دینے کے پر وگرام پر اتفاق ہوا تھا۔ ہم ان منصوبوں کی حوصلہ افزائی کر رہے ہیں جو پاکستان اور افغانستان کے درمیان تعلقات کو بہتر بنانے میں مدد دے سکتے ہیں۔ اور بالآخر اس کے نتیجے میں افغانستان میں امن اور ترقی لانے میں مدد ملے گی۔لی جیان نے بتایا کہ بیجنگ نے 2017 کے آخر میں دونوں ملکوں کے درمیان دہشت گردی کی روک تھام، سٹریٹجک نوعیت کی بات چیت اور حقیقی تعاون کو فروغ دینے کے لیے سہ ملکی مذاکرات کا آغاز کیا تھا۔