سعودی ولی عہد کاتاریخی دورہ
nadeembasra@hotmail.com
ندیم بسرا
حکومتیں اپنے سہاروں پر کم جبکہ معاشی سہاروں پر ہی قائم رہتی ہیں ۔اچھے معاشی سہاروں کے لئے حکومتوں کے پاس شیڈوکیبنٹ نہ ہو یہی کہا جاتا ہے کہ ڈوبتے کو تنکے کا سہارا ۔کچھ یہی حال حکومت کا ہے جو گھونسلے کو مظبوط کرنے کیلئے سہاروں پے سہاروں کی تلاش میں ہیں کونسا سہارا کتنا مظبوط ہوگا اس کا تعین تو آنے والا وقت ہی کرے گا ۔ تاریخ یہی سبق سکھاتی ہے کہ کسی بھی حکومت کی پالیسیاں ہی اس کی سمت کا تعین کرتی ہیں، پالیساں قلیل المدتی یا پھر طویل المدتی دونوں صورتوں میں ہوسکتی ہیں،قلیل مدتی پالیسیوں میں فوری طور پر عوام کو ریلیف فراہم کرنا ہوتا ہے،جبکہ طویل مدتی پالیسیوں میں کسی بھی حکومت کے لانگ ٹرم منصوبے شامل ہوتے ہیں،ایسے منصوبے جن کا تعلق وقتی طور پر عوام کو ریلیف فراہم کرنا نہیں ہوتا بلکہ طویل المدتی منصوبوں سے آنے والی نسلیں بھی مستفید ہوتی ہیں، ان منصوبوں کی تعمیر کی عمر مہینوں پر نہیں بلکہ سالوں پر محیط ہوتی ہے ،مثلاًپاکستان کاناقابل تسخیردفاع کیلئے ایٹمی قوت بننا، آبی ذخائراور پن بجلی کے بڑے منصوبوں کی تعمیر ،داخلی ، خارجی ، اقتصادی پالیسی ، یا پھر آبادی کو کنٹرول کرنے کی پالیسی ہو، ان کا تعلق طویل المدتی پالیسیوں سے ہے ،تاہم ایسے منصوبوں کا تعلق ملک وقوم کی خوشحالی سے وابستہ ہوتاہے،لیکن حکومت کی ایسی پالیسیوں یا پھر منصوبوں کی تعمیر سے عوا م کوشدید مشکلات بھی سامنا کرنا پڑسکتا ہے،اس سے موجودہ حکومت کی پالیسیوں کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے،دراصل تحریک انصاف کی حکومت کی پالیسیاں بھی قلیل مدتی یعنی عوام کو فوری ریلیف فراہم کرنے والی نہیں ہیں، جس کے تحت حکومت قرض اٹھائے، یا پھر اپنے تعمیراتی منصوبوں کے بجٹ میں کٹ لگا ئے، یا پھرحکومت عوامی خواہشات کی تکمیل کیلئے ہر غیرقانونی کام کرنے کیلئے تیار ہوجائے، حکومت کے اس طرح کے کاموں میں عوام کو بجلی ، گیس، تیل یا پھر دیگر اخراجات میں فوری ریلیف تو فراہم کیا جاسکتا ہے، ایسا ریلیف جس کا تعلق عارضی یا قلیل مدتی ہوگا،لیکن آنے والی نسلوں پراس کے منفی اثرات مرتب ہوں گے،جبکہ حکومت کے اس عمل سے طویل المدتی منصوبے بھی تعطل کا شکار ہوجائیں گے،لہذا پی ٹی آئی کی حکومت کی پالیسیوں کامحورملک وقوم کو طویل المدتی ریلیف فراہم کرنا ہے، جس کے تحت حکومت کی اولین ترجیح کرپشن کا خاتمہ اور احتساب کے عمل کو جاری رکھنا ہے، دوسرا معاشی ترقی اور پھر اس معاشی ترقی کو مستحکم رکھنے کے لیے اقدامات کرنا ہے،ملک کا قرض اتارنا ،پھر ہمیشہ کیلئے مقروض ہونے سے محفوظ بنانا ہے،وزیراعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ دس سال پہلے ملک کا قرض 6ہزار ارب تھا ، جبکہ اب 2019ء میں یہ قرض بڑھ کر30ہزار ارب ہوگیا ہے،حکومت قرضوں پر ہر روز6ارب سود دیتی ہے ،گیس سیکٹر157ارب کا مقروض ہے،جبکہ 50ارب کی سالانہ چوری ہوجاتی ہے ۔وزیراعظم کے طویل مدتی منصوبوں میں سرمایہ کاری لانا اور سیاحت کا فروغ بھی شامل ہے،وزیراعظم عمران خان نے دوبئی ایم ڈی آئی ایم ایف، ولی عہد یواے ای،سمیت غیرملکی رہنمائوں سے ملاقاتیں بھی کیں، ورلڈگورنمنٹ سمٹ سے خطاب میں غیرملکی سرمایہ کاروں کو سرمایہ کاری کی دعوت دی اوپاکستان میں سازگار ماحول کوسرمایہ کاری کیلئے موزوں وقت قرار دیا، وزیراعظم کی ایم ڈی آئی ایم ایف سے ملاقات میں بیل آئوٹ پیکج پر بھی اتفاق پا گیا ہے ۔ وزیراعظم کے ویژن سے معلوم ہوتا ہے کہ حکومت کے نزدیک تین شعبے جن میں زراعت، صنعت اور سیاحت ٹاپ پر ہیں، حکومت زرعی شعبے سے چین کے ذریعے جدید ٹیکنالوجی استعمال کرکے بھرپور فائدہ اٹھانا چاہتی ہے۔سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کا 16فروری تا 17 فروری دورہ پاکستان بڑی سرمایہ کاری کا مظہر ہے،پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان 14ارب ڈالر کے معاہدے ہوں گے،اس کو پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان تاریخ کی بڑی سرمایہ کاری کہا جارہا ہے، سعودی ولی عہد پاکستان کا ہی نہیں ایشیاء کا دورہ کررہے ہیں،ان کے ساتھ 300سے زائد کاروباری شخصیات بھی ہوں گی،سعودی ولی عہد چین، ملائیشیائ، انڈونیشیاء اوربھارت کا بھی دورہ کریں گے،پاکستان میں سعودی شاہی مہمان کا والہانہ استقبال کیا جائے گا، شہزادہ محمد بن سلمان کے دورہ پاکستان کی تیاریاں شروع کردیں گئی ہیں۔ایک طرف پاکستان میں تاریخ کی بڑی سرمایہ کاری ہونے جارہی ہے،طویل مدتی منصوبوں پر کام کیا جارہا ہے، دوسری طرف قومی اسمبلی یا صوبائی اسمبلیوں میں حزب اختلاف کی جماعتیں حکومت کے راستے میں بڑی رکاوٹ بن کرکھڑی ہوئی ہیں،حکومتی پالیسیاں اسی صورت کامیاب ثابت ہوسکتی ہیں جب حکومت ان کوعملی جامہ پہنانے کیلئے قانون سازی کرے گی ۔وزیراعظم عمران خان نے پارٹی رہنمائوںاور اتحادیوں کی مشاورت پرقومی اسمبلی میںاپوزیشن لیڈرمیاں شہبازشریف کو چیئرمین پی اے سی بنانے میں کردار ادا کیا، تاکہ قانون سازی اور ترمیمی بل کی منظوری کیلئے راہ ہموار ہوسکے گی،لیکن اب اپوزیشن پہلے سے بھی زیادہ مضبوط شو کررہی ہے،جس پر حکومتی صفوں میں شہبازشریف سے اخلاقی طور پر مستعفی ہونے کی آواز لگ گئی ہے،لیکن اس کے برعکس پیپلزپارٹی نے اعلان کیا کہ شہبازشریف اپوزیشن کا مشترکہ چیئرمین ہے،اگر ہٹایا گیا تو ایوان میں کوئی بھی کاروائی نہیں چلنے دیں گے،پنجاب کو دیکھا جائے تو یہاں بھی ن لیگی رہنماء رانا ثناء اللہ نے دعویٰ کیا ہے کہ علیم خان کو اگر 15فروری تک کلین چٹ نہ ملی تو پی ٹی آئی کا پنجاب میں صفایا ہوجائے گا،کیونکہ حکومت نے 30ارکان اسمبلی کو علیم خان کو نیب سے کلین چٹ دلوانے کا وعدہ کیا ہے۔دوسری جانب سربراہ ق لیگ چودھری شجاعت حسین نے معاون خصوصی نعیم الحق سے ملاقات میں یقین دلایا کہ وہ حکومت کے ساتھ کھڑے ہیں،اسی طرح مدینہ منورہ میںاسپیکر پنجاب اسمبلی چودھری پرویزالٰہی اور وزیراعلیٰ عثمان بزدار کے درمیان بھی ملاقات ہوئی ، عمران خان نے ق لیگ کے ایم پی اے بائو رضوان کو وزارت سونپ دی ہے، مرکزمیں چودھری مونس الٰہی کو وزارت صنعت وتجارت ملنے کا امکان ہے،حکومت کی جانب سے اتحادی جماعت ق لیگ کے تحفظات کو دور کرنے سے پی ٹی آئی کو پنجاب میں تقویت ملے گی،شریف برادران پنجاب کی سیاست کا یقینا بڑا نام ہیں،اگر پنجاب میں شریف برادران کا مقابلہ کرنا ہے تو وہ صرف چودھری برادران کے سیاسی ویژن ہی کیا جاسکتا ہے۔