سعودی ولی عہد کا دورہ‘ نئے روشن امکانات کی نوید

سعودی عرب پاکستان میں 20 ارب ڈالر کی تاریخی سرمایہ کاری کر رہا ہے۔ ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان 16 فروری کو دو روزہ دورے پر اسلام آباد پہنچیں گے۔ باہمی دلچسپی کے امور کے ساتھ مختلف معاہدوں پر دستخط ہونگے اور شہزادہ محمد بن سلمان پاکستانی قوم سے خطاب کریں گے۔ معزز مہمان جہاں دونوں ملکوں کے مابین اقتصادی‘ صنعتی تعاون کو فروغ دیکر ان کے عوام کیلئے ترقی‘خوشحالی کے نئے امکانات پیدا ہونے کو یقینی بنا رہے ہیں‘ وہاں ان سے پاکستانی عوام کی درخواست بھی ہے دو سال سے قبل عمرہ پر جانے والوں کو دو ہزار ریال اضافی اداکرنے ہونگے۔ پاکستان میں اکثریت غریب لوگوں کی ہے جو خانہ خدا اور روضۂ رسولؐ پر بار بار حاضری کی آرزو میں جیتے ہیں۔ اگر شہزادہ محمد بن سلمان پاکستانی قوم سے خطاب میں یہ پابندی ختم کرنے کا اعلان کر دیں تو یہ پاکستانیوں کیلئے بہت بڑی خوشخبری ہوگی۔ ان سے عقیدت میں مزید اضافہ ہوگا۔ ویسے بھی سعودی عرب وہ ملک ہے جس نے پاکستان کو نہ صرف سب سے پہلے تسلیم کیا بلکہ پاکستان کے قیام کیلئے مسلم لیگ کی جدوجہد کی عملی حمایت یوں کی کہ اس جماعت کی سعودی عرب کی جانب سے کھل کر مالی امداد کی گئی۔ پھر قیام پاکستان کے بعد 1947ء سے تادم تحریر سعودی عرب ہر موقع پر پاکستان سے نہ صرف سفارتی بلکہ مالی تعاون بھی کرتا چلا آ رہا ہے حالانکہ پاکستان میں بدقسمتی سے ایسے عناصر موجود ہیں جو ان دونوں ملکوں کے تعلقات کے رنگ میں بھنگ ڈالنے کی سازشیں کرتے رہے ہیں۔ اب شہزادہ محمد سلمان کے دورہ پاکستان اور پاکستان سرمایہ کاری کے حوالے سے غیر ضروری سوالات اٹھا رہے ہیں۔ اس میں بڑا منفی سوال یہ ہے کہ سعودی عرب پاکستان میں جو سرمایہ کاری کر رہا ہے‘ اس کے بدلے وہ پاکستان سے کیا لے گا حالانکہ بات سیدھی سی ہے کہ اس سرمایہ کاری سے وہ اقتصادی اور تجارتی فائدے اٹھائے گا۔ گوادر کے مقام پر 10 ارب ڈالر کی لاگت سے بہت بڑی آئل ریفائنری قائم کی جائے گی جس میں سعودی عرب کا خام تیل صاف ہوگا۔ یہ تیل لمبا چکر کاٹ کر تین ماہ کی طویل مدت میں چین پہنچنے کی بجائے صرف ایک ہفتے میں پہنچ سکے گا اور پھر صرف چین ہی نہیں‘ گوادر دیگر ممالک کیلئے تیل کی بڑی منڈی ہوگا جس کا فائدہ سعودی عرب کو تو ہوگا ہی مگر ساتھ میں پاکستان کو دیگر فوائد کے ساتھ یہ فائدہ بھی ہوگا۔ اسے تیل کی درآمد میں سات ارب ڈالر کی بچت ہوگی۔ سعودی عرب پاکستان میں توانائی کے شعبے میں بھی سرمایہ کاری کرے گا۔ اس طرح پاکستان کو نہ صرف ضرورت بلکہ ضرورت سے زائد بجلی مہیا ہو سکے گی اور اس سے ملک کے اندر صنعتی‘ تجارتی ترقی کا پہیہ تیزی سے گھومے گا۔گوادر میں سعودی عرب کی سرمایہ کاری سے ایک تاثر یہ دیا جا رہا ہے کہ اس سے ایران ناراض ہوگا۔ ہر ملک اپنے قومی اور ملکی مفاد کو سامنے رکھ کر فیصلے کرتا ہے۔ جب ایران نے گوادر سے صرف 75, 80 کلومیٹر کے فاصلے پر اپنی بندرگاہ چاربہار بھارت جیسے پاکستان کے کٹر دشمن کے حوالے کی تھی‘ کیا ایران میں کسی کے … خیال میں بھی یہ بات آئی تھی اس کے پاکستان پر کیا اثرات ہونگے۔ اگر ایران کو اپنے مفاد میں کوئی بھی فیصلہ کرنے کا حق ہے تو پاکستان کو سعودی عرب سے تعاون بڑھانے اور صنعتی و تجارتی معاہدے کرنے کا ویسا ہی حق حاصل ہے۔
دوسرا منفی پراپیگنڈا اسلامی اتحاد فوج کے خلاف کیا جا رہا ہے جو درحقیقت بالواسطہ طورپر سعودی عرب کے خلاف ہی ہے۔ اسلامی اتحاد فوج کے سربراہ کی حیثیت سے جنرل راحیل شریف کی پاکستان آمد پر بھی منفی چہ میگوئیاں اور پراپیگنڈا کاسلسلہ تیز کر دیا گیا ہے کہ اس سے ایران کے ساتھ تعلقات خراب ہونگے اور یہ تاثر دیا جا رہا ہے کہ اس فوج کے ذریعہ علاقے میں سعودی عرب کی بالادستی قائم کی جائے گی جبکہ اس میں شامل چالیس اسلامی ملکوں کے وزراء دفاع کی کونسل ہر فیصلے کی مجاز ہوگی۔ سعودی عرب کا اس پر نہ کوئی کنٹرول ہوگا نہ اس کی جانب سے کوئی فیصلہ مسلط کیا جا سکے گا۔ یہ فوج صرف کسی اسلامی ملک میں دہشت گردی کے خلاف استعمال ہوگی۔ جنگی تنازع کی صورت میں کسی ملک کا باقاعدہ فوج کا حصہ نہیں بنے گی۔ سعودی عرب اور یمن کے حوثیوں کے مابین لڑائی میں سعودی عرب کی داخلی حفاظت کیلئے پاکستان کی فوج کا ایک دستہ بھیجنے کا معاملہ سامنے آیا تو اس پر پیپلزپارٹی اور خود تحریک انصاف کی شیریں مزاریں کی جانب سے سخت شور شرابا کیا گیا تھا۔ واضح رہے سعودی عرب وہ ملک جس کا پاکستان کے ساتھ باقاعدہ دفاعی معاہدہ ہے اور اس معاہدہ کے تحت پاکستان سعودی دفاع کیلئے فوج بھیجنے کا پابند ہے۔ بہرحال اب مختلف ہے اب پاکستان سے کچھ نہیںجا رہا بلکہ آرہا ہے اس لئے پاکستانی فوج اس کی بھرپور پشت پناہی کرے گی اور شہزادہ محمد بن سلمان کا دورۂ پاکستان بہت کامیاب اور پاکستان کیلئے ثمرآور ثابت ہوگا۔