شرمندگی کا احساس
آمنہ آ بھی جائو اورکتنی دیر لگائو گی،باہر سے امی کی آواز آئی۔ امی سبزی کاٹ رہی ہوں۔آمنہ نے جواب دیا، اتنی دیر میں دروازہ بجنے لگا۔ امی نے دروازہ کھولا تو ابوجان ہاتھ میں پکڑا سودا سلف لے کر آئے۔اُنہوں نے سلام کیا اور ہاتھ منہ دھونے چلے گئے۔ اتنی دیر میں آمنہ ابو کے لئے پانی لے کر آئی اور ابو کو پانی دے کر مشین سے کپڑے نکالنے لگی۔ ابو نے کہا کلثوم کہاں ہے؟ اکیلی ہی کام کرتی رہتی ہو۔ اُسے بھی ساتھ لگایا کرو۔ زاہرہ بیگم نے فوراً کہا وہ تو بے چاری پڑھتی ہے۔ پڑھے کہ گھر کا کام کاج کرے۔ آپ کو تو پتہ ہے آج کل کی پڑھائی کتنی مشکل ہے۔ گھر کے کام تو ہر کوئی کر سکتا ہے۔ لیکن پڑھائی کرنا تو بہت مشکل ہوتا ہے اور وہ بھی آج کے دور میں ایف ایس سی پاس کرنا بڑا کام ہے۔زاہرہ بیگم تو کلثوم پر جان چھڑکتی تھیں اور گھر میں زیادہ چلتی بھی کلثوم کی تھی۔ کلثوم کا ہر کہا حکم سمجھ کر کیا جاتا تھا۔ یہاں تک کہ اگر زاہرہ بازار سے کوئی سوٹ لے کر آتی اور وہ کلثوم کو پسند آ جاتا تو سلوا کر پہن لیتی۔ اگر نہ پسند آتا تو وہ سوٹ آمنہ کے حصے میں ڈال دیا جاتا۔ دراصل زاہرہ سے جوڑوں کے درد کی وجہ سے گھر کا کام نہ کیا جاتا تو آمنہ جب میٹرک کے امتحان سے فارغ ہوئی تو زاہرہ بیگم نے گھر کی ساری ذمہ داری آمنہ کے کندھوں پر ڈال دی۔ اب آمنہ یہ ذمہ داری احسن طریقے سے نبھا رہی تھی۔ایک روز ابو نے امی کو مخاطب کرتے ہوئے بتایا کہ اُن کا دوست اسلم آمنہ کا ہاتھ اپنے بیٹے عثمان کے لئے مانگ رہا ہے اور لڑکا پڑھا لکھا ‘ سُلجھا ہوا ہے اور وہ اسی سلسلے میں کل ہمارے ہاں آنا چاہ رہے ہیں۔ آپ انتظام کر لیجئے گا۔اگلے روز ابو کے دوست اپنی اہلیہ ساجدہ بیگم کے ساتھ آئے۔ آمنہ نے چائے کے ساتھ دیگر لوازمات قباحت نہ تھی اس لئے رشتہ فوراً ہی قبول کر لیا گیا اور چٹ منگنی اور پٹ بیاہ رچا لیا گیا۔ شادی خوب دھوم دھام سے ہوئی۔آمنہ کی شادی کے بعد زاہرہ اور کلثوم میں لڑائی جھگڑا ہونے لگا۔ اگر ماں کچھ کام کہہ دیتی تو آگے سے کلثوم نہ مانتی۔ اگر ماں کچھ سمجھاتی تو آگے سے بدکلامی کرکے ماں کو چُپ کروا دیتی۔ ایک دن تو حد ہو گئی جب زاہرہ بیگم نے کلثوم سے کہا کہ مجھے اندر سے پانی اور دوائی لا دو تو کلثوم نے بد تمیزی کی۔ جس پر زاہرہ نے کہا آمنہ بھی تو تھی وہ بھی گھر کا سارا کام کرتی تھی۔ کلثوم نے کہا تو اسے ہی اپنے پاس لے آئیں وہ ہی آپ کی خدمتیں کر سکتی ہے۔ میرے پاس اتنا فضول ٹائم نہیں ہوتا۔ اس دن زاہرہ بیگم کو احساس ہوا اور زاہرہ بیگم کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔
اس دوران کلثوم کو چوٹ لگی درد کے مارے وہ تڑپ رہی تھی ،ماں پھر ماں ہوتی ہے جتنی دیر وہ بیمار رہی ماں نے اس کی بہت خدمت کی۔آخر کلثوم کو اپنے رویے پر شرمندگی ہونے لگی ،وہ ماں کے قدموں پر گر کر رونے لگی ، شرمندگی کے احساس نے اسے معافی مانگنے پر مجبور کر دیا۔(مرسلین ارشد۔ اچھرہ لاہور)