پاکستان کی صلح جویانہ پالیسی کا بھارتی لیڈر کی طرف سے اعتراف
بھارتی کانگرس کے صفِ اول کے رہنما مانی شنکر آئر نے جو ان دنوں کراچی میں ہیں، ایک تقریب میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان اور بھارت تنازعات کا واحد حل مذاکرات ہیں‘ مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ مذاکرات سے مسائل حل کرنا پاکستان کی پالیسی تو ہے لیکن بھارت کی نہیں۔ میں پاکستان سے محبت کرتا ہوں، بھارت کو بھی اپنے پڑوسیوں سے محبت کرنی چاہئے۔پاکستان کی پالیسی پر مجھے فخر ہے جبکہ بھارتی پالیسی پر اُداس بھی ہوں۔
بھارت میں مانی شنکر آئر ایسے حق گو لوگوں کی کمی نہیں، جو جیو اور جینے دو کی پالیسی پر یقین رکھتے ہیں اور پاکستان کے ساتھ تنازعات کو طے کرنے کیلئے مذاکرات کو ہی واحد حل سمجھتے ہیں۔ لیکن شدت پسند اور متعصب ہندونے‘ جنہوں نے ابھی تک پاکستان کو دل سے تسلیم نہیں کیا، حق کی حمایت میں اُٹھنے والی آوازوں کو بزور دبا دیتے ہیں بلکہ پاکستان سے اچھے تعلقات کی بات کرنیوالوں کو زندہ نہیں چھوڑا جاتا۔ جیسا کہ 1948ء میں گاندھی جی نے پاکستان کے حصے کے اثاثے سلب کرنے پر احتجاجاً مرن برت رکھا، تو اگلے ہی دن متعصب مہا سبھائی نتھو رام گاڈسے نے اُنہیں قتل کر دیا۔ تب سے وہ بھارتی بھی جو پاکستان کے بارے میں نرم گوشہ رکھتے ہیں، مسئلہ کشمیر اور پاکستان کے بارے میں کلمۂ خیر کہنے میں محتاط ہو گئے ہیں کیونکہ پاکستان کے حق میں بات کرنا جان کو خطرے میں ڈالنے کے مترادف ہے۔ تعصب کے اس رنگ میں شدت پسند ہندو جنتا ہی نہیں‘ اُنکے لیڈر بھی رنگے ہوئے ہیں جیسا کہ مقبوضہ کشمیر کی وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی کہتی ہیں کہ پاکستان کے ساتھ مسائل کے حل کیلئے جنگ آپشن نہیں، مذاکرات ضروری ہیں مگر بھارتی وزیر دفاع بڑھک لگاتے ہیں کہ سنجوان کے فوجی کیمپ پر حملے کی پاکستان کو قیمت چکانا پڑیگی حالانکہ ابھی تک ایسے کوئی آثار نہیں ملے جس سے اس حملے میں پاکستان کے کسی طرح ملوث ہونے کا ثبوت ملتا ہو۔ مسئلہ کشمیر اور پاک بھارت تنازعات اب تک محض اس لئے حل طلب ہیں کہ بھارت مذاکرات کی بجائے طاقت کے استعمال کی پالیسی پر عمل پیرا ہے لیکن پاکستان نے بھی چوڑیاں نہیں پہن رکھیں، اگر کسی نے جارحیت کا قصد کیا تو اسے دنداں شکن اور مسکت جواب دینے کی اہلیت رکھتا ہے۔ البتہ بھارت کی نسبت پاکستان کا اولین آپشن مذاکرات ہے، جنگ نہیں‘ جس کی دھمکیاں بھارت کی جانب سے بات بات پر دن رات دی جاتی ہیں۔