وطن عزیز میں جوں جوں انتخابات قریب آرہے ہیں سیاسی معاملات اسی تیزی کے ساتھ ہر گھنٹہ تبدیل ہورہے ہیں یہ ہر گھنٹہ تبدیلی کا ذکر عام حالات میں کچھ زیادہ تھا مگر حال ہی میں ایم کیوایم کے دھڑوں نے ’فلاپ اداکاری ‘ کے تمام ریکارڈتوڑتے ہوئے یہ بات بھی سچ کر دکھائی کہ سیاسی معاملات ہرگھنٹہ میں تبدیل ہوسکتے ہیں ۔ ایم کیو ایم کے ہردھڑہ کا کوئی نہ کوئی ہر تھوڑی دیر بعد ٹی وی اسکرین پر آکر پھوٹ پھوٹ کر رونا شروع کردیتا تھا ۔ سیاسی رہنمائوں میں ایم کیوایم کے بانی الطاف حسین نے کیمرے کے سامنے رونے کی ابتداء کی جب عمران فاروق قتل ہوئے انکے رونے کے منظر سے تمام ناظرین لطف اندوز ہوئے جبکہ عمران فاروق کا قتل ایک قابل افسوس واقعہ تھا ، الطاف حسین سے دھاڑے مارمار کر رونے سے لوگ شکوک و شبہات میٰں پڑ گئے ۔ دوسر ا منظر نامہ ایک طویل عرصہ دوبئی رہ کر پاکستان آنے پر مصطفیٰ کمال نے پیش کیا وہ الطاف حسین کا ساتھ چھوڑنے پر خوب پھوٹ پھوٹ کرروئے منظر نامے پر کہانی یہ بتائی کہ کہ الطاف حسین بہت ظلم کررکھے تھے ’ اس بات پر رونا آیا ‘ اب رونے کا مقابلہ اس ہفتے ہوا جب سینٹ کی نشستوں پر سب دست و گریبان ہوئے ۔ عوام کو وجہ کا علم نہ ہوسکا کہ وہ کیوں رو رہے تھے ۔ اس رونے کے دھونے کے عمل میں درمیان میں پھنسے ڈاکٹر فاروق ستار کو پریشان ہی دیکھا شکر ہے کہ اس موقع پر اپنی ضیعف والدہ صاحبہ کو میدان میں نہ لائے اور معاملات خو د ہی نپٹا تے رہے۔ آفرین ہے ٹی وی چینلز کو کہ دنیا بھر کے معاملات چھوڑ کر ناظرین کو پی آئی بی کالونی اور بہادر آباد دکھاتے رہے۔ سوجھ بوجھ والے لوگ سمجھتے ہیں کہ یہ جھگڑہ کراچی پر حکمرانی اور کراچی کی آمدنی کے علاوہ کسی بات کا نہیں۔ الطاف حسین کے بیانات الطاف حسین کی سیاست اور پاکستان کے ٹی وی اسکرین سے غائب ہونے کا سبب بنے مگر کراچی کی قیادت کے دعویداروں کی گزشتہ ہفتے کی کارگردگی سے ایسا لگتا ہے اگر الطاف حسین کو معافی مل گئی (ہماری تاریخ میں ہر قسم کے شخص کو معافی مل جاتی ہے ) اور اگر الطاف حسین نے کسی جلسے کا اعلان کر دیا تو یہ تمام ہی لیڈران خدانخواستہ وہاںبھی روتے ہوئے پہنچ جائینگے۔ اس ہفتہ کی کارکردگی سے کراچی کی خدمت کسی گروپ کی طرف سے نظر نہیں آ رہی۔ ہمارے ہاں تو میڈیا بھی سمجھ سے بالا تر ہوگیا ہے کم از کم دنیا کے دوسرے چینلز کا ہی مطالعہ کر لیں کہ وہاں ٹاک شوز یا خبریں عوام کو کیسے پہنچائی جاتی ہیں، بیرون دنیا کا میڈیا اپنے ناظرین کو معلومات فراہم کرتا ہے جبکہ ہمارے اکثر الیکٹرانک چینلز عوام میں مایوسی پھیلانے کا کام کرتے ہیں۔ یہ بھی کہا جاتا ہے اور سچ بھی ہے کہ اس وقت دنیا میں میڈیا سب سے اہم ستون مگر افسوس کہ ہم اس اہم ستون کو اسکے صحیح معنوں میں استعمال نہیں الیکٹرانک میڈیا پر اسوقت نوے فیصد خبریں صرف اور صرف عدالتی معاملات کی ہوتی ہیں، ججز بھی انسان ہیں وہ بھی دوران کارروائی ایسے جملے ادا کرتے ہیں جو بات چیت کا اور میڈیا کا موضوع بن جائیں اسکی تازہ مثال سپریم کورٹ میں وزیر اعلیٰ شہباز شریف کی پیشی ہے۔
شام کو ناظرین کسی معلوماتی یا تفریحی پروگراموں سے محروم ہو چکے ہیں پہلے ٹاک شوز کو تفریح کا ذریعہ سمجھ بیٹھے مگر نفرت اور مایوسی بڑھ گئی ہے اور ٹاک شوز کے بجائے لوگ کسی اور چینلز پر چلے جاتے ہیں۔ ہونا تو یہ چاہئے کہ الیکٹرانک چینل کھولنے والے سرمایہ کار کیوں نہ ایک چینل صرف عدالتی کارروائیوں کا کھول دیں جہاں صرف عدالتی کارروائیاں اور مقدمے بازی کی تفصیلات بیان کی جائیں اگر سرمایہ کار اسے آمدنی کا ذریعہ سمجھیںتو۔ ملک میں اداروں کی کارکردگی اتنی مایوس کن ہو چکی ہے کہ عدالت سے صرف اور صرف ’’از خود نوٹس‘‘ لئے جانے کی خبر آتی ہے۔ لوگوں کو سہارہ ملتا ہے مگر جب از خود نوٹس کی کارروائی مثلاً قصور کی معصوم بچی زینب کے معاملے میں بچی کے والد سے پوچھا جاتا ہے کہ آپ کیا چاہتے ہیں، والد جواب دیتے ہیں کہ میں درندہ صفت کی فوری پھانسی چاہتا ہوں، عدالت کا جواب ہوتا ہے کہ قانون میں اسطرح کے فوری فیصلے کی گنجائش نہیں۔ جب کوئی مجرم اعتراف جرم کرلے، ایک کا الزام ہو اور وہ اعتراف کئی قتل کرنے کا کرلے تو اس کو فوری سزا تو بنتی ہے ۔ جو لوگ متاثر ہوتے ہیں وہ خاندان فوری تادیبی کاروائی چاہتے ہیں اور یہ ہی جرائم روکنے کا صحیح طریقہ ہے طویل عدالتی کاروائیوں میں تو مجرم بیمار بن کر ہستپالوں میں داخل ہوجاتے ہیں، اثر و رسوخ استعمال کرنے کیلئے ’’مناسب وقت‘‘ کا انتظار کرتے ہیں!