کشمیریوں سے اظہار یک جہتی کے لیے سابق صدر و پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹرین کے سربراہ آصف علی زرداری نے موچی گیٹ لاہور اور سابق وزیر اعظم نوازشریف نے مظفر آباد میں جلسوں سے خطاب کیا۔ آصف علی زرداری نے نواز شریف کو درندہ، چور، ناسور کہا اور یہ بھی کہا کہ میاں صاحب کو نکالنا ضروری ہو گیا ہے، ان کو معاف کیا تو اللہ ہمیں معاف نہیں کرے گا۔ رانا ثناء اللہ نے اپنے ردعمل میں کہا کہ آصف زرداری نے جلسے میں گھٹیا زبان استعمال کی۔ سیاست دان مخالفین پر الزام تراشی کرتے رہتے ہیں مگر انہیں شائستہ زبان استعمال کرنی چاہیے۔ موچی دروازہ میں سیاسی جلسوں کی ایک روایت ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو نے مارچ 1970ء میں موچی دروازہ لاہور میں ایک یادگار جلسہ کیا تھا۔ اس جلسے کی طوالت پانچ گھنٹے کے قریب تھی۔ نماز ظہر کے بعد جلسہ شروع ہوا اور مغرب کے بعد تک جاری رہا۔ ان پانچ گھنٹوں میں بھٹو صاحب نے پانچ چھ بار پانی پیا اور کچھ وقفوں میں بیٹھ گئے۔ جلسہ نعرہ تکبیر اللہ اکبر، انقلاب انقلاب، روٹی کپڑا اور مکان کے فلک شگاف نعروں سے گونجتا رہا۔ اس وقت میری عمر 23برس تھی۔ موچی دروازہ باغ کے حوالے سے تاریخ کا ایک پرُانا واقعہ بیان کرتا ہوں جو سانحہ مسجد شہید گنج کے متعلق ہے۔ شورش کاشمیری مسجد شہید گنج تحریک کا ایک نمایاں کردار تھا۔ اس تحریک کو منظم کرنے کے لیے موچی دروازہ باغ میں اتحاد ملت نے جلسہ عام منعقد کیا تھا۔ اس جلسہ کا پہلا نوجوان مقرر شورش کاشمیری تھا۔ 1935ء میں مسلمانوں پر قیامت ٹوٹ پڑی۔ لاہور کے لنڈا بازار میں داخل ہوتے وقت اس کے سرے پر ایک خستہ حال مسجد تھی۔ مسلمان اسے مسجد شہید گنج کہتے تھے۔ سکھوں کے دور حکومت میں جو وحشیانہ طرز عمل انہوں نے مسلمانوں کی مسجدوں، قبروں اور دوسری یادگاروں کو تباہ کرنے کے لیے اپنایا تھا، وہ ناقابل بیان ہے۔ اسی دور میں انہوں نے مسجد پر قبضہ کر لیا اور اس کا نام گورودوارہ شہید گنج رکھ دیا۔ سکھوں کے بعد لاہور انگریزوں کے قبضہ میں آ گیا تھا مگر اس مسجد پر سکھوں کا قبضہ برقرار رہا۔ بدقسمتی کی انتہا ہو گئی جب 1935ء میں اچانک سکھوں نے اسے مسمار کر کے گورودوارہ تعمیر کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس خبر نے مسلمانوں کو سلگتی ہوئی آگ کے شعلوں کی نذر کر دیا۔ مسجد شہید گنج پر سکھوں کے قبضہ نے ہندوستان کے مسلمانوں کے سینوں میں ایک طوفان برپا کر دیا تھا اور وہ مرنے مارنے پر تلے ہوئے تھے۔ مختلف سمتوں سے مسلمانوں کے قافلے مسجد شہید گنج کی طرف بڑھ رہے تھے۔ ان قافلوں کو پولیس اور انگریز سپاہی پوری قوت کے ساتھ روک رہے تھے۔ جو بچ کر آگے نکل جاتے تھے وہ اپنے ان جانبازوں سے جا ملتے تھے جو انگریز کی گولیوں کا نشانہ بننے کے لیے بے قرار تھے۔ لاہور کے دلی دروازہ کے باہر مسلمانوںکے ٹھٹ کے ٹھٹ لگے ہوئے تھے مگر راستہ خاردار تاروں سے بند تھا۔ کوتوالی کی برجیوں پر گورا فوج ہتھیار لیے بیٹھی تھی۔ جوانانِ لاہور سینے تان کر گولیوں کا نشانہ بن رہے تھے۔ مسجد شہید گنج کا سانحہ برصغیر ہندوستان میں بسنے والے مسلمانوں کے لیے کسی ناسور سے کم نہ تھا۔ اب کچھ ذکر مظفر آباد میں نواز شریف کے جلسے کا کروں گا۔ اس جلسے میں نواز شریف نے وزیر اعظم آزاد کشمیر راجا فاروق حیدر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’’اب پاکستان سے فارغ ہو گیا ہوں، میری ڈیوٹی آزاد کشمیر میں لگا دیں۔ پاکستان سے نااہل ہو گیا ہوں، یہاں تو نااہل نہیں ہوا‘‘ گویا نواز شریف نے وزیر اعظم آزاد کشمیر سے نوکری کی درخواست کر دی ہے۔ اس لیے کہ وہ بیروزگار ہو گئے ہیں اور انہیں روزگار چاہیے۔ میں سمجھتا ہوں کہ میاں نواز شریف کو آزاد کشمیر میں نوکری کی ضرورت نہیں۔ اگر واقعی بیروگاری کی وجہ سے ان کی گزر بسر مشکل ہو گئی ہے تو وہ اپنے بیٹے سے تنخواہ وصول کر سکتے ہیں۔ جس کا انہیں گلا رہتا ہے کہ مجھے بیٹے سے تنخواہ نہ لینے کی وجہ سے نااہل کر دیا گیا۔ عدلیہ پر تنقید نواز شریف پہلے بھی کرتے رہے ہیں۔ میاں نواز شریف کا دوسرا عہد حکومت بھی ایکشن فلموں کی مانند تھا۔ ہر لمحہ کوئی نہ کوئی سین مار دھاڑ سے بھرپور ہوتا تھا۔ عدالت عظمیٰ میں ان کے خلاف توہین عدالت کا کیس زیر سماعت تھا۔ وزیر اعظم نوازشریف سپریم کورٹ میں پیش ہوئے۔ چیف جسٹس سید سجاد علی شاہ تھے۔ عام خبر تھی کہ ان دونوں میں مخالفت عروج پر ہے۔ وزیر اعظم نوازشریف نے بیان دیا ’’آئی ایم سوری‘‘ مگر 19 نومبر 1997ء کو توہین عدالت کیس میں سپریم کورٹ نے وزیر اعظم نواز شریف پر فردجرم عائد کر دی۔ اس کا انجام بڑا تشویش ناک تھا۔ ججز دو گروپوں میں بٹ گئے۔ ایک گروپ نواز شریف کے خلاف دوسرا حمایت میں۔ کوئٹہ بنچ اور پشاور بنچ نے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی حیثیت کو چیلنج کر دیا۔ 28نومبر 1997ء میں مسلم لیگ (ن) کے کارکن سپریم کورٹ پر چڑھ دوڑے۔ سپریم کورپ میں دو عدالتیں لگ گئیں۔ دونوں نے ایک دوسرے کے خلاف فیصلے سنا دئیے۔
میرے ذہن میں سمائے خوف کو تسلّی بخش جواب کی ضرورت
Apr 17, 2024