کچھ مسلم لیگ کے بارے میں
پاکستان مسلم لیگ کے نام سے بڑی سیاسی جماعتیں پائی جاتی ہیں ان سب میں بڑی سیاسی جماعت مسلم لیگ ن کو گردانا جاتا ہے اور اسی جماعت نے تین بار حکومت بھی کی ہے اور ہر بار انہیں میاں محمد نواز شریف کی شکل میں وزیراعظم ملا اور ہر بار کسی نہ کسی وجہ سے انہیں نکال باہر کیا گیا ۔ دوسری جانب پنجاب میں ان کے بھائی شہباز شریف کو ان کے ساتھ ساتھ اقتدار ملتا رہا مگر انہیں کسی نے نہیں نکالا وہ ہر حال میں مسلم لیگ ن کے وزیراعلٰی کے طورپر کام کرتے آ رہے ہیں ۔ میاں محمد نوازشریف کو مختلف سروے رپورٹس میں مقبول ترین لیڈر بھی قرار دیا جا چکا ہے اور ان کو عمران خان سے بڑا لیڈر بھی کہا جاتا ہے ۔ پاکستان مسلم لیگ ن بھی پیپلز پارٹی کی طرح اقتدار میں آتی اور جاتی رہی ہے ۔ پیپلز پارٹی کی طرح اس کے ساتھ بھی کوئی اچھا سلوک نہیں کیا گیا ہے ۔ مسلم لیگ ن کے بارے میں یہ بھی مشہور ہے کہ یہ جماعت تو خالصتاً اسٹیبشلمنٹ کی پیدا وار ہے ۔اس جماعت میں بڑے بڑے لیڈر آئے اور اسی طرح کچھ عرصہ رہنے کے بعد چلتے بنے یا پھر خود ہی مسلم لیگ کو چھوڑ کر ایک نئی مسلم لیگ بنانے کیلئے نکل پڑ ے۔ جنرل مشرف نے مسلم لیگ ن کو زبردست نقصان پہنچا ۔مسلم لیگ ن کو مٹاتے ہوئے مسلم لیگ ق بنائی گئی اور اس میں چوہدری شجاعت او ر چوہدری پرویز الٰہی کو لایا گیا ۔ چوہدری شجاعت حسین کی مسلم لیگ ق اس وقت تک اقتدار میں رہی جب تک مشرف رہے ۔ جیسے ہی مشرف فارغ ہوئے تو انکے ساتھ ہی مسلم لیگ ق بھی تقریباً فارغ ہوگئی ۔ اس وقت چوہدری شجاعت حسین او ر چوہدری پرویز الہیٰ اس کے نام لیوا ہیں ۔ دوسری جانب ان کے جنرل سیکرٹری مشاہد حسین بھی انہیں چھوڑ کر مسلم لیگ ن میں چلے گئے اس سے پہلے ق لیگ ہی امیر مقام بھی مسلم لیگ ن کو پیارے ہو چکے ہیں ۔ جنوبی پنجاب میں بھی مسلم لیگ ق کے بہت کے اراکین ایم این ایز اور ایم پی ایز بھی مسلم لیگ ق کو چھوڑ کر مسلم لیگ ن میں آ چکے ہیں مگر گمنام ہونے کی وجہ سے ان کا کوئی زیادہ چرچہ نہیں ہوا ہے ۔اس کے بعد مسلم لیگ ضیاء بھی بنی۔ جنرل ضیاء الحق کے صاحبزادے اعجاز الحق بھی اکیلے ہی رہ گئے تھے انہوں نے بھی مسلم لیگ ن میں شمولیت ہی میں عافیت جانی اور مسلم لیگ ن کے کافی عرصہ سے خدمت گزار ہیں ۔ مسلم لیگ فنگشنل سندھ میں ہے جو سندھ تک ہی محدود ہے ۔باقی بھی کافی مسلم لیگیں بظاہر الیکشن کمیشن کے رجسٹرمیں موجود ہیں ۔ پرویز مشرف بھی ایک آل پاکستان مسلم لیگ کے مالک ہیں اور ان کے بھی چند ہی وفادار کہیں نہ کہیں پائے جاتے ہیں مگر آل پاکستان مسلم لیگ کے صدر پرویز مشرف مقدمات سے بچنے کیلئے خود ساختہ جلا وطنی میں ہیں ۔ پہلے یہ ہوتا تھا کہ پیپلز پارٹی کے لوگ جلا وطنی کاٹتے تھے کیونکہ مارشل لاء میں ان کے لوگوں پر زمین تنگ رہی ۔ پھر کیا ہوا کہ پیپلز پارٹی کے خلاف ایک مسلم لیگ ن کو کھڑا کیا گیا اور اس سے بڑے پیمانے پر فائدے اٹھائے گئے ۔ جب دیکھا گیا کہ یہ مضبوط ہو رہی ہے تو پھر اس کا بھی پیپلز پارٹی کی طرح حشر نشر کیا گیا ۔پیپلز پارٹی کو بھی مشرف نے توڑا اور اس کو کافی حد تک نقصان پہنچایا ۔بے نظیر بھٹو کو قتل کرادیا گیا اس کے بعد زرداری صاحب آگے بڑھے مگر وہ بے نظیر کے جانشین بن سکے پیپلز پارٹی اتنی کمزور ہوئی کہ پانچ سال اقتدا رملنے کے باوجود بھی بڑی جماعتوں سے صف سے باہر ہوگئی ۔ اب سندھ تک محدود ہے پنجاب کے پی کے اور بلوچستان میں ان کی حالت انتہائی پتلی ہے ۔ ہمارے ہاں سیاسی جماعتوں میں یہ دیکھا گیا ہے کہ جب کوئی جماعت مقبول ہوتی ہے تو اس کے لیڈر میں اسی تناسب سے فرعونیت آ جاتی ہے ۔ یہ چیز بے نظیر بھٹو میںنہیں تھی وہ ہر کارکن سے ملتی تھیں اور ان کی بات سنتی تھیں دوسری جانب میاں محمد نواز شریف بھی پہلے پہل اپنے پارٹیوں کارکنوں میںگھل مل جاتے تھے مگر اس بار تو انہوں نے انتہاء ہی کر دی اپنے وزراء تک کو نہیں ملتے تھے ۔ اپنے آپ کو مغل بادشاہ سمجھنے لگ گئے تھے پارلیمنٹ میں نہیں آتے تھے اور سینٹ میں تو چار سالوں میں صر ف دو بار آئے تھے۔
ان کی جماعت سے بڑے بڑے لوگ چلے گئے مگر ان کی جماعت پر کوئی فرق نہ پڑا پہلے بھی یہ پنجاب تک محدود تھی اب بھی یہ پنجاب تک محدود ہے ۔ سندھ ٗکے پی کے اور بلوچستان میں ابھی تک کمزور ہے ۔بلوچستان میں پچھلے دنوں اپنی ہی حکومت کے خلاف اپنے ہی لوگوں نے بغاوت کردی اور سردار ثناء اللہ زہری وزیراعلٰی کو ہٹا دیا ۔ ان کا قصور یہ تھا کہ یہ بھی اپنے آپ کو میاں نواز شریف سمجھنے لگ گئے تھے ۔ اپنے لوگوں سے نہ ملنا اور اپنے ہی وزراء کی بات نہ سننا ۔ یہ سب کچھ میاں صاحب بھی کرتے ہیں مگر اس طرح کا رویہ دونوں کو لے ڈوبا اب دونوں باہر ہوگئے ہیں مگر عقل ابھی تک نہیں ا ٓ رہی ہے ۔ جمہوریت کی تعریف ہی یہی عوام کی حکومت عوام کے ذرریعے اور عوام کیلئے ہوتی ہے ۔ ڈرائنگ روم کی سیاست کرنے والوں کا حشر پھر پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کی طرح ہوتا ہے ۔ عوام تو دور کی بات ان کی اپنی پارٹی کے لوگ بھی ان کے خلاف ہو جاتے ہیں ۔ مسلم لیگ ن اس وقت ایک سیاسی بھنور میں بری طرح پھنس چکی ہے ۔ میاں نواز شریف کے قابل اعتماد اور قربانی دینے والے ساتھی ان کے انداز حکمرانی اور ان کے بادشاہوں والے رویوں سے تنگ آ چکے ہیں ۔ پارٹی ڈسپلن کو بار بار توڑا جا رہا ہے ۔ جاوید ہاشمی کے ساتھ بھی میاں برادران کا سلوک کوئی اچھا نہیں تھا ۔ اب چوہدری نثار علی خان بھی سامنے آگئے ہیں اور مریم کو اپنا لیڈر ماننے سے انکار کر دیا ہے ۔ ان سے سوال یہ بنتا ہے کہ کیاپیپلز پارٹی والے بھی بلاول بھٹو کو اپنا لیڈر ماننے سے انکار کر دیں ۔ چوہدری نثار علی خان کا تجریہ اور قابلیت میں کوئی شک نہیں ہے مگر پارٹی میں کوئی ڈسپلن تو ہونا چاہئے ۔ پیپلزپارٹی تو پھر مسلم لیگ ن سے زیادہ جمہوری جماعت ہے اس پارٹی میں فرحت اللہ بابر ٗ تاج حیدر ٗ اعتزاز احسن ٗ خورشید شاہ جیسے اور کئی پرانے اور سینئر سیاستدان ہیں کیا وہ بھی کہہ دیتے کہ ہم بھی بلاول کو نہیںمانتے اسے سر یا جناب نہیں کہیں گے ۔ چوہدری صاحب کی یہ منطق سمجھ سے بالا تر ہے ۔ اصل میں بات یہ ہے کہ سینٹ الیکشن کے بعد اور عام انتخابات سے ایک دو ماہ پہلے ملکی سیاست میں بہت بڑ ی اور تباہ کن تبدیلی آنے والی ہے ۔ میاں برادران نے اپنا رویہ نہ بدلا تو پھر ان کا نام لینا والا بھی کوئی نہیں رہے گا ۔ اب بس نہیں چلے گی بلکہ جہاز تیار کئے جا رہے ہیں ایک بڑی تعداد جنوبی پنجاب سے کسی بھی وقت سیاسی دھماکہ کر سکتی ہے ۔ میاں صاحبان کارویہ یہی رہا تو پھر مسلم لیگ ن بھی باقی مسلم لیگوں کی طرح منظر عام سے غائب ہو جائے گی ۔