چیف جسٹس کی سمری مسترد‘ زرداری نے جسٹس خواجہ شریف کو عدالت عظمی کا جج اور جسٹس ثاقب نثار کو قائم مقام چیف جسٹس ہائیکورٹ مقرر کیا ۔۔۔سپریم کورٹ نے صدارتی حکم معطل کردیا
اسلام آباد (خبر نگار + خصوصی رپورٹ + ایجنسیاں) صدر آصف علی زرداری نے چیف جسٹس آف پاکستان افتخار محمد چودھری کی لاہور ہائیکورٹ کے جج مسٹر جسٹس ثاقب نثار کو سپریم کورٹ کا جج لگانے کی سمری کو مسترد کرتے ہوئے لاہور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس خواجہ شریف کو سپریم کورٹ کا جج تعینات کر دیا ہے جبکہ جسٹس ثاقب نثار کو لاہور ہائیکورٹ کا قائم مقام چیف جسٹس مقرر کر دیا ہے۔ اس حوالے سے وزارت قانون و انصاف نے دو الگ الگ نوٹیفکیشن جاری کر دئیے ہیں۔ صدر آصف علی زرداری نے جسٹس ثاقب نثار کو قائم مقام چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ مقرر کر دیا ہے۔ بعد میں سینئر ترین جج کو لاہور ہائیکورٹ کا چیف جسٹس مقرر کیا جائے گا۔ واضح رہے کہ چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے جسٹس ثاقب نثار کو عدالت عظمیٰ کا جج اور جسٹس ریٹائرڈ خلیل الرحمن رمدے کو بطور ایڈہاک جج سپریم کورٹ لگانے کی سمری بھیجی تھی جس پر وزارت قانون و انصاف نے اعتراض لگا کر چیف جسٹس کو یہ سمری واپس کر دی تھی اور موقف اختیار کیا تھا کہ الجہاد ٹرسٹ کیس کے مطابق ہائیکورٹ کا سینئر ترین جج ہی سپریم کورٹ کا جج مقرر ہو سکتا ہے۔ وزارت قانون و انصاف نے چیف جسٹس کو اپنی سمری پر نظرثانی کا مشورہ دیا تھا جس کے بعد ڈاکٹر بابر اعوان نے صحت یابی کے بعد چیف جسٹس کی جانب سے بھیجی گئی وہی سمری وزیراعظم کو بھیج دی تھی۔ گذشتہ روز وزیر قانون و انصاف ڈاکٹر بابر اعوان اور سابق اٹارنی جنرل لطیف کھوسہ نے صدر سے طویل ملاقات کی جس کے بعد چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ خواجہ محمد شریف کو سپریم کورٹ کا جج مقرر کر دیا اور دو بار بھیجی گئی چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی سمری کو مسترد کر دیا اور جسٹس ثاقب کو قائم مقام چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ مقرر کر دیا ہے۔ وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے گذشتہ روز ایوان صدر میں صدر زرداری سے ججوں کی تقرری‘ 17ویں ترمیم کے خاتمے اور دوسرے امور پر تفصیل سے تبادلہ خیال کیا۔ وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے صدر کو مسلم لیگ (ن) کے سربراہ نوازشریف سے ہونے والی ملاقات کے بارے میں اعتماد میں لیا۔ اجلاس میں ملک کی سیاسی صورتحال اور حکومتی امور پر تبادلہ خیال بھی کیا گیا۔ اے این این کے مطابق باخبر ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ صدر اور وزیراعظم کے درمیان طویل مشاورت ہوئی۔ اس موقع پر وزیر قانون ڈاکٹر بابر اعوان اور وزیراعظم کے مشیر لطیف کھوسہ بھی موجود تھے۔ اس موقع پر صدر مملکت نے وزیر قانون‘ اٹارنی جنرل اور لطیف کھوسہ سے ججوں کی تعیناتی کے حوالے سے آئینی حیثیت کے مطابق بریفنگ لی جس کے بعد صدر اور وزیراعظم میں ایک گھنٹہ سے زائد تفصیلی ملاقات ہوئی جس کے بعد ججوں کی تقرریاں کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ جی این آئی کے مطابق ججز کی تعیناتی کے حوالے سے فیصلہ کیا گیا کہ یہ تعیناتیاں حکومت کے دائرہ اختیار میں آتی ہیں اور حکومت آئین اور قانون کے مطابق میرٹ پر فیصلے کرے گی۔
اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت/ مانیٹرنگ سیل) سپریم کورٹ آف پاکستان نے ججوں کی تقرری سے متعلق صدارتی حکم نامے کو معطل کر دیا ہے اور قرار دیا ہے کہ جسٹس خواجہ محمد شریف بطور چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ اور جسٹس میاں ثاقب نثار بطور سینئر جج لاہور ہائی کورٹ کام کرتے رہیں گے۔ ججوں کی تقرری کے حوالے سے جاری کئے گئے نوٹیفکیشن کے حوالے سے چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس افتخار محمد چودھری کی جانب سے جسٹس شاکر اللہ جان کی سربراہی میں تشکیل دئیے گئے سپیشل بنچ نے شیڈول سے ہٹ کر کیس کی سماعت کرتے ہوئے صدر کے فیصلے کو معطل کرتے ہوئے آرٹیکل 177کی خلاف ورزی قرار دیا ہے۔ اس دوران ایڈیشنل رجسٹرار سپریم کورٹ قاضی ساجد نے عدالت کو بتایا کہ اٹارنی جنرل پاکستان انور منصور خان کراچی میں ہیں اور فوری طور پر سپریم کورٹ میں حاضر نہیں ہو سکتے۔ انہوں نے ججز کی تقرری کے حوالے سے تمام ریکارڈ عدالت میں پیش کیا۔ عدالت نے صدارتی حکم نامہ معطل کرتے ہوئے سماعت 18فروری تک ملتوی کر دی جس کی سماعت ججوں کی تقرری میں تاخیر کے حوالے سے قائم کیا گیا پانچ رکنی بنچ کرے گا۔ اس ضمن میں ایڈیشنل سیکرٹری قانون‘ اٹارنی جنرل اور چاروں ایڈووکیٹ جنرلز کو بھی طلب کر لیا گیا ہے۔ جسٹس شاکر اللہ جان کی سربراہی میں قائم لارجر بنچ میں جسٹس راجہ محمد فیاض‘ جسٹس جواد ایس خواجہ‘ جسٹس انور ظہیر جمالی اور جسٹس رحمت حسین جعفری شامل ہیں۔ اس سے قبل مختصر سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے ڈپٹی رجسٹرار کو حکم دیا کہ اٹارنی جنرل آف پاکستان کو فوری طور پر عدالت میں پیش کیا جائے جس پر ڈپٹی رجسٹرار ساجد قاضی نے عدالت کو بتایا کہ اٹارنی جنرل انور منصور کراچی میں ہیں اور کراچی سے آخری فلائٹ شام 7بجے روانہ ہوتی ہے اس لئے اٹارنی جنرل اسلام آباد فوراً نہیں پہنچ سکتے۔ عدالت نے اپنے مختصر فیصلے میں آج گورنر ہاﺅس میں ہونیوالی جسٹس ثاقب نثار کی تقریب حلف برداری کے انتظامات کرنے سے بھی حکومت اور متعلقہ اداروں کو روک دیا۔ سپریم کورٹ نے اپنے مختصر فیصلہ میں لکھا ہے کہ جسٹس خواجہ محمد شریف بدستور چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ جبکہ جسٹس ثاقب نثار لاہور ہائیکورٹ میں جج کے طور پر اپنے فرائض ادا کرتے رہینگے۔ عدالت نے صدارتی حکم نامے کو معطل کرتے ہوئے سماعت 18فروری تک ملتوی کر دی جس کی سماعت ججوں کی تقرری میں تاخیر کے حوالے سے قائم کیا گیا پانچ رکنی بنچ کرے گا۔ اس ضمن میں ایڈیشنل سیکرٹری قانون‘ اٹارنی جنرل اور چاروں ایڈووکیٹ جنرلز کو بھی طلب کر لیا گیا ہے۔ جسٹس شاکر اللہ جان کی سربراہی میں قائم لارجر بنچ میں جسٹس راجہ محمد فیاض‘ جسٹس جواد ایس خواجہ‘ جسٹس انور ظہیر جمالی اور جسٹس رحمت حسین جعفری شامل ہیں۔ نمائندہ نوائے وقت کے مطابق عدالت نے ایڈیشنل رجسٹرار سے پوچھا کہ وہ ریکارڈ کے مطابق بتائیں کہ کیا جسٹس خواجہ شریف کو جج سپریم کورٹ مقرر کرنے کی چیف جسٹس آف پاکستان سے مشاورت کی گئی ہے تو انہوں نے بتایا کہ ریکارڈ کے مطابق چیف جسٹس سے اس حوالے سے مشاورت نہیں کی گئی۔عدالت نے فیصلہ دیا کہ چونکہ جسٹس خواجہ شریف کو سپریم کورٹ کا جج مقرر کرنے کے لئے چیف جسٹس سے مشاورت نہیں کی گئی جو آئین کی شقوں اور آئین کے آرٹیکل 177 کی صریحاً خلاف ورزی ہے۔عدالت نے قرار دیا کہ مذکورہ معاملے سے متعلق درخواستیں عدالت عظمیٰ میں زیر سماعت تھیں۔وفاقی حکومت اٹارنی جنرل اور چاروں ایڈووکیٹ جنرلز کو نوٹس جاری کئے جا چکے تھے۔ سماعت کے لئے پانچ رکنی لارجر بنچ بھی بنا دیا گیا تھا اور 18 فروری کی تاریخ بھی مقرر کی جا چکی تھی۔ اس بنچ میں فریقین نے اپنا موقف پیش کرنا تھا اور صورت حال واضح ہونا تھی۔ لہذا جسٹس خواجہ شریف کی بطور جج سپریم کورٹ تعیناتی کا حکمنامہ معطل کیا جاتا ہے۔ اور وہ عدالت کے مزید فیصلے تک بطور چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ کام کرتے رہیں گے۔ ان کا نوٹیفکیشن معطل ہونے سے چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ کی سیٹ خالی نہیں ہوئی اس لئے جسٹس ثاقب نثار کی بطور قائم مقام چیف جسٹس تعیناتی کا نوٹیفکیشن بھی معطل کیا جاتا ہے اور وہ آئندہ فیصلے تک بطور سینئر ترین جج لاہور ہائی کورٹ کام کرتے رہیں گے۔ عدالت نے قرار دیا کہ آئین کے آرٹیکل 177 میں یہ واضح کیا گیا ہے سپریم کورٹ میں جج چیف جسٹس آف پاکستان کی مشاورت سے مقرر کیا جائے گا کیونکہ وہ ججوں سے متعلق ریکارڈ کا انچارج ہوتا ہے۔ بنچ نے سوموٹو ایکشن کی سماعت کورٹ روم نمبر ون میں کی جہاں چیف جسٹس مقدمات کی سماعت کرتے ہیں۔کورٹ روم میں ملکی و غیر ملکی میڈیا اور وکلاء کی بڑی تعداد موجود تھی جب کہ بعض سیاسی رہنما جن میں مسلم لیگ(ن) کے سینیٹر ظفر علی شاہ اور پیپلز پارٹی کے رہنما انور بیگ اور سابق بیورو کریٹ روئیداد خان بھی عدالت پہنچے ہوئے تھے۔ عدالت نے وزارت قانون کے ایڈیشنل سیکرٹری شیخ حاکم کو بھی 18فروری کی سماعت کے روز طلب کر لیا ہے۔ ججوں کی تقرری کے حوالے سے پیدا ہونے والی تازہ ترین صورتحال کے پیش نظر چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے عدالت عظمیٰ کے تمام ججوں کو اسلام آباد بلا لیا ہے۔ برانچ رجسٹریوں کا شیڈول منسوخ کر دیا گیا ہے جبکہ آئندہ ہفتے کی برانچ رجسٹریوں کی کاز لسٹ بھی منسوخ کر دی گئی ہے۔ اس کے علاوہ ججوں کا آئندہ ہفتے کا مقدمات کا شیڈول بھی تبدیل کر دیا گیا ہے اور ججوں سے کہا گیا ہے کہ وہ پیر سے اسلام آباد میں اپنی موجودگی یقینی بنائیں۔ واضح رہے کہ اس وقت 10 جج اسلام آباد کی پرنسپل سیٹ پر مقدمات کی سماعت کیلئے موجود ہیں جبکہ چار ججوں کو لاہور اور پشاور کی برانچ رجسٹریوں میں مقدمات کی سماعت کیلئے مقرر کیا گیا تھا۔ جبکہ ایک جج چھٹی پر تھے۔ رجسٹرار نے سپریم کورٹ کو آج (اتوار) بھی آن کال رہنے کی ہدایت کر دی۔ واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے حکومت کے فیصلے کے 3گھنٹے کے اندر حکم امتناعی جاری کر دیا۔
اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت/ مانیٹرنگ سیل) سپریم کورٹ آف پاکستان نے ججوں کی تقرری سے متعلق صدارتی حکم نامے کو معطل کر دیا ہے اور قرار دیا ہے کہ جسٹس خواجہ محمد شریف بطور چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ اور جسٹس میاں ثاقب نثار بطور سینئر جج لاہور ہائی کورٹ کام کرتے رہیں گے۔ ججوں کی تقرری کے حوالے سے جاری کئے گئے نوٹیفکیشن کے حوالے سے چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس افتخار محمد چودھری کی جانب سے جسٹس شاکر اللہ جان کی سربراہی میں تشکیل دئیے گئے سپیشل بنچ نے شیڈول سے ہٹ کر کیس کی سماعت کرتے ہوئے صدر کے فیصلے کو معطل کرتے ہوئے آرٹیکل 177کی خلاف ورزی قرار دیا ہے۔ اس دوران ایڈیشنل رجسٹرار سپریم کورٹ قاضی ساجد نے عدالت کو بتایا کہ اٹارنی جنرل پاکستان انور منصور خان کراچی میں ہیں اور فوری طور پر سپریم کورٹ میں حاضر نہیں ہو سکتے۔ انہوں نے ججز کی تقرری کے حوالے سے تمام ریکارڈ عدالت میں پیش کیا۔ عدالت نے صدارتی حکم نامہ معطل کرتے ہوئے سماعت 18فروری تک ملتوی کر دی جس کی سماعت ججوں کی تقرری میں تاخیر کے حوالے سے قائم کیا گیا پانچ رکنی بنچ کرے گا۔ اس ضمن میں ایڈیشنل سیکرٹری قانون‘ اٹارنی جنرل اور چاروں ایڈووکیٹ جنرلز کو بھی طلب کر لیا گیا ہے۔ جسٹس شاکر اللہ جان کی سربراہی میں قائم لارجر بنچ میں جسٹس راجہ محمد فیاض‘ جسٹس جواد ایس خواجہ‘ جسٹس انور ظہیر جمالی اور جسٹس رحمت حسین جعفری شامل ہیں۔ اس سے قبل مختصر سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے ڈپٹی رجسٹرار کو حکم دیا کہ اٹارنی جنرل آف پاکستان کو فوری طور پر عدالت میں پیش کیا جائے جس پر ڈپٹی رجسٹرار ساجد قاضی نے عدالت کو بتایا کہ اٹارنی جنرل انور منصور کراچی میں ہیں اور کراچی سے آخری فلائٹ شام 7بجے روانہ ہوتی ہے اس لئے اٹارنی جنرل اسلام آباد فوراً نہیں پہنچ سکتے۔ عدالت نے اپنے مختصر فیصلے میں آج گورنر ہاﺅس میں ہونیوالی جسٹس ثاقب نثار کی تقریب حلف برداری کے انتظامات کرنے سے بھی حکومت اور متعلقہ اداروں کو روک دیا۔ سپریم کورٹ نے اپنے مختصر فیصلہ میں لکھا ہے کہ جسٹس خواجہ محمد شریف بدستور چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ جبکہ جسٹس ثاقب نثار لاہور ہائیکورٹ میں جج کے طور پر اپنے فرائض ادا کرتے رہینگے۔ عدالت نے صدارتی حکم نامے کو معطل کرتے ہوئے سماعت 18فروری تک ملتوی کر دی جس کی سماعت ججوں کی تقرری میں تاخیر کے حوالے سے قائم کیا گیا پانچ رکنی بنچ کرے گا۔ اس ضمن میں ایڈیشنل سیکرٹری قانون‘ اٹارنی جنرل اور چاروں ایڈووکیٹ جنرلز کو بھی طلب کر لیا گیا ہے۔ جسٹس شاکر اللہ جان کی سربراہی میں قائم لارجر بنچ میں جسٹس راجہ محمد فیاض‘ جسٹس جواد ایس خواجہ‘ جسٹس انور ظہیر جمالی اور جسٹس رحمت حسین جعفری شامل ہیں۔ نمائندہ نوائے وقت کے مطابق عدالت نے ایڈیشنل رجسٹرار سے پوچھا کہ وہ ریکارڈ کے مطابق بتائیں کہ کیا جسٹس خواجہ شریف کو جج سپریم کورٹ مقرر کرنے کی چیف جسٹس آف پاکستان سے مشاورت کی گئی ہے تو انہوں نے بتایا کہ ریکارڈ کے مطابق چیف جسٹس سے اس حوالے سے مشاورت نہیں کی گئی۔عدالت نے فیصلہ دیا کہ چونکہ جسٹس خواجہ شریف کو سپریم کورٹ کا جج مقرر کرنے کے لئے چیف جسٹس سے مشاورت نہیں کی گئی جو آئین کی شقوں اور آئین کے آرٹیکل 177 کی صریحاً خلاف ورزی ہے۔عدالت نے قرار دیا کہ مذکورہ معاملے سے متعلق درخواستیں عدالت عظمیٰ میں زیر سماعت تھیں۔وفاقی حکومت اٹارنی جنرل اور چاروں ایڈووکیٹ جنرلز کو نوٹس جاری کئے جا چکے تھے۔ سماعت کے لئے پانچ رکنی لارجر بنچ بھی بنا دیا گیا تھا اور 18 فروری کی تاریخ بھی مقرر کی جا چکی تھی۔ اس بنچ میں فریقین نے اپنا موقف پیش کرنا تھا اور صورت حال واضح ہونا تھی۔ لہذا جسٹس خواجہ شریف کی بطور جج سپریم کورٹ تعیناتی کا حکمنامہ معطل کیا جاتا ہے۔ اور وہ عدالت کے مزید فیصلے تک بطور چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ کام کرتے رہیں گے۔ ان کا نوٹیفکیشن معطل ہونے سے چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ کی سیٹ خالی نہیں ہوئی اس لئے جسٹس ثاقب نثار کی بطور قائم مقام چیف جسٹس تعیناتی کا نوٹیفکیشن بھی معطل کیا جاتا ہے اور وہ آئندہ فیصلے تک بطور سینئر ترین جج لاہور ہائی کورٹ کام کرتے رہیں گے۔ عدالت نے قرار دیا کہ آئین کے آرٹیکل 177 میں یہ واضح کیا گیا ہے سپریم کورٹ میں جج چیف جسٹس آف پاکستان کی مشاورت سے مقرر کیا جائے گا کیونکہ وہ ججوں سے متعلق ریکارڈ کا انچارج ہوتا ہے۔ بنچ نے سوموٹو ایکشن کی سماعت کورٹ روم نمبر ون میں کی جہاں چیف جسٹس مقدمات کی سماعت کرتے ہیں۔کورٹ روم میں ملکی و غیر ملکی میڈیا اور وکلاء کی بڑی تعداد موجود تھی جب کہ بعض سیاسی رہنما جن میں مسلم لیگ(ن) کے سینیٹر ظفر علی شاہ اور پیپلز پارٹی کے رہنما انور بیگ اور سابق بیورو کریٹ روئیداد خان بھی عدالت پہنچے ہوئے تھے۔ عدالت نے وزارت قانون کے ایڈیشنل سیکرٹری شیخ حاکم کو بھی 18فروری کی سماعت کے روز طلب کر لیا ہے۔ ججوں کی تقرری کے حوالے سے پیدا ہونے والی تازہ ترین صورتحال کے پیش نظر چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے عدالت عظمیٰ کے تمام ججوں کو اسلام آباد بلا لیا ہے۔ برانچ رجسٹریوں کا شیڈول منسوخ کر دیا گیا ہے جبکہ آئندہ ہفتے کی برانچ رجسٹریوں کی کاز لسٹ بھی منسوخ کر دی گئی ہے۔ اس کے علاوہ ججوں کا آئندہ ہفتے کا مقدمات کا شیڈول بھی تبدیل کر دیا گیا ہے اور ججوں سے کہا گیا ہے کہ وہ پیر سے اسلام آباد میں اپنی موجودگی یقینی بنائیں۔ واضح رہے کہ اس وقت 10 جج اسلام آباد کی پرنسپل سیٹ پر مقدمات کی سماعت کیلئے موجود ہیں جبکہ چار ججوں کو لاہور اور پشاور کی برانچ رجسٹریوں میں مقدمات کی سماعت کیلئے مقرر کیا گیا تھا۔ جبکہ ایک جج چھٹی پر تھے۔ رجسٹرار نے سپریم کورٹ کو آج (اتوار) بھی آن کال رہنے کی ہدایت کر دی۔ واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے حکومت کے فیصلے کے 3گھنٹے کے اندر حکم امتناعی جاری کر دیا۔