لاہور میں پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے جلسے میں عوام کی کم تعداد میں شرکت کی اور بالخصوص مقامی لوگوں کا جلسے سے اظہارِ لاتعلقی یا مینار پاکستان جانے میں عدم دلچسپی حکومت کے لیے خوش آئند ہے۔ پاکستان مسلم لیگ نون کی اعلیٰ قیادت اور بالخصوص مریم نواز شریف نے اس جلسے یا اس اجتماع کو کامیاب بنانے کے لیے بہت کوششیں تھیں لیکن پھر بھی شرکاء کی تعداد مایوس کن رہی۔ گوکہ عوامی اجتماعات میں شرکاء کی تعداد سے زیادہ سیاسی قائدین کی فکر، سوچ اور مقصد زیادہ اہم ہوتا ہے لیکن یہاں دونوں چیزوں کی واضح کمی نظر آئی ہے۔ مینار پاکستان میں جمع ہونے والے افراد کی تعداد ایسی نہیں کہ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے قائد ین اور اس تحریک میں شامل تمام سیاسی جماعتوں کے لیے باعثِ اطمینان ہو۔ کیونکہ پی ٹی ایم کو گوجرانولہ کراچی، پشاور کوئٹہ اور ملتان میں جلسے کر چکی ہے۔ ان بڑے شہروں کے بعد وہ لاہور پہنچے لیکن لاہور جسے تبدیلی کا گھر بھی کہا جاتا ہے لاہور سے اٹھنے والی تحریک یا یہاں سے بلند ہونے والی آواز نہ صرف حکومتوں کا نقشہ بدلتی ہے بلکہ ملک کی سیاسی تاریخ کا نقشہ بھی بدل دیتی ہے۔ اس تاریخی پس منظر میں پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے جلسے کو دیکھا جائے تو یہ اجتماع پی ڈی ایم کے لیے ان کے اکابرین، بیرون ملک بیٹھے میاں نواز شریف کے لیے، جیل میں بیٹھے شہباز شریف اور حمزہ شہباز شریف، اور خورشید شاہ کے لئے اور آصف علی زرداری کے لیے زیادہ حوصلہ افزا نہیں ہے بلکہ یہ کہا جائے کہ آنے والے دنوں میں پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے مسائل میں اضافہ ہو سکتا ہے تو یہ غلط نہ ہو گا۔
لاہور میں ہونے والے جلسے میں ایک بات واضح ہوئی ہے کہ شریف خاندان کی خاندانی تقسیم بھی ایک مسئلہ کہی جا سکتی ہے۔ کیونکہ مینار پاکستان کے اجتماع میں میاں شہباز شریف اور ان کے صاحبزادے حمزہ شہباز کی عدم موجودگی کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ حمزہ شہباز لاہور اور پنجاب کی سیاست میں عوام کو سڑکوں تک لانے اور جلسہ گاہ کو بھرنے میں اہم حیثیت رکھتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ نچلی سطح پر منظم ہیں۔ ان کے ساتھ کام کرنے والے موجودہ اور سابق اراکین قومی و صوبائی اسمبلی بھر پور سیاسی انداز میں کام کرتے ہوئے ہوئے ناصرف جلسے کا ماحول بناتے ہیں بلکہ جلسہ گاہ بھرنے کی اہلیت بھی رکھتے ہیں۔ مریم نواز شریف شریف کو آج یہ اندازہ بھی ہوا ہے کہ جو لوگ چند دن پہلے تک ریلیوں میں نظر آرہے تھے وہ سیاسی ورکر نہیں تھے بلکہ وہ مریم نواز کی شخصیت سے متاثر تھے اگر وہ سیاسی ورکر ہوتے تو آج جلسہ گاہ میں موجود ہوتے ہیں اس میں شک نہیں کہ لاہور کو نون لیگ کا قلعہ کہا جاتا ہے لیکن آج کے اجتماع میں لاہور کے سیاسی ورکر کا بھرم بھی ٹوٹا ہے ہے جس بنیاد پر لاہور کو نون لیگ کا کیا کہا جاتا ہے۔ کم تعداد میں لاہوریوں کی کی جلسے میں شرکت شرکت مریم نواز شریف کے لیے ایک وارننگ ہے۔ چونکہ میں یہ سمجھتا ہوں کہ بچے بچے ہوتے ہیں اور بچوں کو یہ اندازہ بھی نہیں ہوتا کہ جلسے کبھی اتحادی جماعتوں کے زور پر کامیاب نہیں ہوتے بلکہ جلسے سے اپنی افرادی قوت کے ساتھ ہی کامیاب ہوا کرتے ہیں۔ مریم نواز شریف کو بتایا گیا تھا کہ ملتان یا جنوبی پنجاب سے گیارہ سو بسوں کا قافلہ مینار پاکستان پہنچے گا گیارہ سو بسیں تو نظر نہیں آئیں لیکن پیپلز پارٹی کے گیارہ رہنما ضرور نظر آئے ہوں گے۔ یہی حال قمر زمان کائرہ کے علاقے کا تھا وہ بھی اکیلے ہی جلسہ گاہ پہنچے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ مریم نواز شریف اس ناکام جلسے سے کیا سبق سیکھتی ہیں۔ میں نے تو کل ہی لکھا تھا کہ یہ مینار پاکستان خالی ہاتھ جائیں گے خالی ہاتھ آئیں گے اس جلسے کے بعد تو خالی ہاتھ کے بجائے یہ ذلت و رسوائی کے ساتھ واپس آئے ہیں۔ جو حال انیس سو ستانوے کے الیکشن میں پاکستان تحریکِ انصاف کا ہوا تھا وہی حال لاہور میں نون لیگ کی میزبانی میں ہونے والے اس جلسے کا ہوا ہے۔
مینار پاکستان کے ناکام اجتماع حکومت کو سکون کا سانس لینے کا موقع بھی ملے گا کیونکہ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ مطلوبہ تعداد میں عوام کو جلسہ گاہ تک لانے لوگوں کو گھروں سے نکالنے، سڑکوں پر احتجاج کی کیفیت کو پیدا کرنے میں ناکام رہی ہے تو پھر یہ کہا جاسکتا ہے کہ حکومت کو عوامی سطح پر بھی کوئی خطرہ نہیں ہے۔ حکومت اپنا وقت پورا کرسکتی ہے اور اسے پاکستان ڈیمو کریٹک سے یا اس حکومت مخالف تحریک سے یا پھر اس جمہوریت مخالف تحریک سے اس حد تک خطرہ نہیں ہو سکتا کہ جس سے نظام کے لپیٹے جانے کا خدشہ ہو یا حکومت کی تبدیلی کی کوئی بات ہو یا ملک گیر احتجاج یہ صورت اختیار کر جائے کہ حکومت کی تبدیلی کا مطالبہ شدت اختیار کر جائے اور کوئی راستہ نہ بچے پھر سیاسی حکومت اپنے ہی وزن سے گر جائے ایسا کچھ ہوتا نہیں آ رہا۔
ایک بڑا مسئلہ یہ بھی ہے کہ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ میں شامل تمام بڑی سیاسی جماعتوں کے اکابرین اپنی ماضی کی کرپشن کی وجہ سے مختلف مقدمات بھگت رہے ہیں۔ کچھ ملک میں ہیں، بعض بیمار ہیں اور کچھ بیرون ملک بیٹھے پاکستان واپسی کے منتظر ہیں۔ ان حالات میں عوام کو یا مختلف سیاسی جماعتوں کے ووٹرز کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنا نہایت مشکل کام ہے۔ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ میں شامل تمام سیاسی جماعتیں چونکہ فکری طور پر ایک نہیں ہیں اپنے سیاسی طرز عمل کے حوالے سے وہ مختلف سمت میں کام کرتی ہیں، عوامی نمائندگی کے حوالے سے وہ ایک صفحے پر نہیں ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ گفتگو میں، تہذیب و تمدن میں مختلف ہیں۔ ان کے لئے ایک ہی صفحے پر جمع ہونا بہت مشکل ہے۔ یہ مفادات کی حد تک یا حصول تک ایک ہیں یا پھر یوں کہیے کہ سیاسی جماعتوں ہی ٹوٹی فروٹی ہیں تو غلط نہ ہو گا۔کوئی لاہور میں لاہوریوں کو برا کہتا ہے کوئی کراچی میں پاکستان کو برا کہتا ہے کوئی کوئٹہ میں پاکستان کے اداروں کے خلاف بات کرتا ہے کوئی گوجرانوالہ میں پاکستان کے ریاستی اداروں اور دفاعی اداروں کے خلاف گفتگو کرتا ہے۔ ان حالات میں عوام کے پاس بھی کوئی واضح نقطہ نظر نہیں پہنچ رہا۔ سیاسی جماعتوں کی پوری ٹیم میدان عمل میں ہے ان کا واحد اور بنیادی مسئلہ حصول اقتدار ہے۔ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے اکابرین کا بنیادی مقصد پاکستان میں اداروں کے خلاف محاذ قائم کرنا ہے۔ وہی ادارے جن کے ساتھ دہائیوں تک کام کرتے رہے ہیں آج عوام نے انہیں مسترد کیا ان سیاسی جماعتوں کو اقتدار سے باہر نکالا ہے تو انہی اداروں میں برائیاں اور خرابیاں نظر آرہی ہیں۔ آج وہی تمام سیاسی جماعتیں ہیں جو دہائیوں سے انہیں اداروں کے ساتھ مل کر حکومتیں بناتی رہی ہیں انہی اداروں کے ساتھ کام کرتی رہی ہیں انہیں برا بھلا کہہ رہی ہیں اور بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ ان کی قیادت بالخصوص دو بڑی سیاسی جماعتوں کی قیادت ان سیاسی بچوں کے ہاتھوں میں ہے جن کا ذاتی طور پر کوئی سیاسی پس منظر نہیں ہے۔ کوئی سیاسی تجربہ نہیں ہے کوئی سیاسی تربیت نہیں ہے ماسوائے اس کے کہ وہ دو حکمران خاندانوں کے گھروں میں پیدا ہوئے اور انہوں نے ہمیشہ بچپن سے لڑکپن، لڑکپن سے جوانی تک اپنے بزرگوں کو اپنے والدین کو حکومتوں میں دیکھا ہے۔ اس کے علاوہ ان کا کوئی سیاسی پس منظر نہیں ہے۔ یہ بچے جذباتی بھی ہیں بیصبرے بھی ہیں اور وہ ہر قیمت پر اقتدار میں بھی آنا چاہتے ہیں تاکہ جیسے وہ اپنے والدین کو اقتدار مین دیکھتے آئے ہیں ان کی اگلی نسل اپنے والدین کو اپنے بزرگوں کی طرح اقتدار میں دیکھے۔ وہ خود بھی اقتدار کے مزے لوٹنا چاہتے ہیں اپنی نئی نسل کا راستہ ہموار کرناچاہتے ہیں۔ اس لیے وہ بے صبری میں تمام ایسے اقدامات بھی کر رہے ہیں ایسی گفتگو بھی کر رہے ہیں ایسے خیالات عوام تک پہنچا رہے ہیں کہ جن کا نہ تو حقیقت سے کوئی تعلق ہے اور نہ ہی وہ قابل عمل ہیں۔ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کو لاہور میں ہونے والے جلسے سے بڑا سیاسی دھچکا پہنچا ہے اور اس دھچکے سے سنبھلنا پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ کے لئے مشکل ہوگا بلکہ نہایت مشکل ہوگا اور اب اس سیاسی تحریک کا مستقبل اور لانگ مارچ سے جڑا ہے۔ اس لانگ مارچ میں پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کیا حکمت عملی اختیار کرتی ہے اگر ساری کی ساری اپوزیشن قومی اور صوبائی اسمبلیوں سے مستعفی ہوتی ہے تو اس کے بعد حکومت کیا راستہ اختیار کرتی ہے۔ متحدہ اپوزیشن متحد ہو کر اسمبلیوں سے مستعفی ہو جاتی ہے تو پھر حکومت کے لیے یقینی طور پر اعصاب کا امتحان ہو گا کہ وہ اس صورتحال میں کس طرح کے ردعمل کا مظاہرہ کرتی ہے اور کیا حکمت عملی اختیار کرتی ہے۔ حکومت کو پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے کامیاب یا ناکام یا عوامی دلچسپی سے عاری اجتماعات کے تمام پہلوؤں پر غور کرتے ہوئے آگے بڑھنا ہو گا۔ حکومت عوامی مسائل حل کرنے میں سنجیدگی کا مظاہرہ کرنا ہو گا۔
اگر وزیراعظم پاکستان سوا دو سال گزرنے کے بعد بھی عوامی مسائل کو حل کرنے میں سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کریں گے تو پھر آنے والے دنوں میں حکومت کے لیے بھی مسائل ہو سکتے ہیں اور وہ مسائل اسی صورت ہو سکتے ہیں کہ جب عام آدمی کو نظرانداز کیا جاتا رہے گا اور دوسری طرف پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے وہ تمام سیاسی لوگ جو ملک کے مختلف حصوں سے تعلق رکھتے ہیں وہ اپنے اپنے حلقوں میں اپنے اپنے لوگوں سے سے بات کرتے ہوئے عوام کو حکومت کے خلاف اکٹھا کرنے کی کوشش کر سکتے ہیں۔ یہ کوشش اسی صورت نسکام ہو سکتی ہے جب عام آدمی کی زندگی آسان ہو رہی ہو گی۔
حکومت کو مختلف حوالوں سے حالات مدد فراہم کر رہے ہیں۔ لاہور میں ہونے والے جلسے کی عام آدمی کی عدم دلچسپی کی ایک وجہ انتہائی سرد موسم میں بھی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ کرونا کی وجہ سے بھی لوگوں کی ان جلسوں میں عدم دلچسپی حکومت کو مدد فراہم کر رہی ہے۔ اگر حکومت کو حالات سپورٹ کر رہے ہیں اسے مدد فراہم کر رہے ہیں تو اس سے فائدہ اٹھانا بھی حکومت کا کام ہے۔ ان جلسوں میں عوام کی عدم دلچسپی کے بعد بھی اگر حکومت اپنی سمت درست نہیں کرتی، اپنی فیصلہ سازی بہتر نہیں کرتی، بہتر لوگوں کو بہتر وزارتوں میں نہیں رکھتی ہے کام کرنے والے لوگوں کو آگے نہیں لاتی ہے پارٹی کے مخلص لوگوں کو ایماندار لوگوں، فکری اور تعمیری کام کرنے کی اہلیت رکھنے والے لوگوں کو موقع نہیں دیتی اور پارٹی کے نظریاتی کارکنان کو مسلسل نظر انداز کیا جاتا رہے گا تو مسائل میں کمی کا کوئی امکان نہیں ہے۔ اگر تنظیم سازی پر توجہ نہیں دی جائے گی نچلی سطح پر پارٹی کو منظم کرنے کے لئے کام نہیں کیا جائے گا تو پھر پاکستان تحریک انصاف کو بھی یہ سوچ لینا چاہیے کہ جب 2023 کے الیکشن کے لیے یہ لوگ عوام میں جائیں گے تو ووٹ حاصل کرنا ان کے لیے کتنا مشکل ہو گا۔ 2023 کے عام انتخابات میں پی ٹی آئی کے موجودہ اراکین قومی و صوبائی اسمبلی اپنے اپنے حلقوں میں میں جائیں گے تو وہ یہ مت سمجھیں کہ اس کارکردگی کے ساتھ اور جو کارکردگی حکومت کی اس وقت ہے آئندہ دو برس میں سوا دو تین برس میں وہ ایسی کارکردگی کو دہراتے ہوئے 2023 کے عام انتخابات میں جاتے ہیں اور وہ اپنے حلقوں میں جاتے ہیں تو ان کا استقبال پھولوں سے ہوگا یا ان کا استقبال ڈھول کی تھاپ پر نہیں ہو گا۔ موجودہ کارکردگی کے ساتھ انہیں اپنی انتخابی مہم میں عوامی غیض و غضب کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اگر پاکستان تحریک انصاف کے اکابرین یہ چاہتے ہیں کہ آئندہ عام انتخابات میں عوام انہیں ویلکم کرے تو پھر انہیں عام آدمی کے مسائل کو حل کرنے میں سنجیدگی اور دلچسپی کا مظاہرہ کرنا ہو گا۔ بصورت دیگر حلقے جیتنا تو دور کی بات حلقوں میں داخل ہونا بھی مشکل ہو جائے گا۔ عوام اپنے نمائندوں کو منتخب کر کے ایوان میں پارلیمنٹ میں اس لیے بھیجتے ہیں کہ وہاں جا کر ان کے مسائل اور ان کے حقوق کے لیے بات کریں اور اگر منتخب نمائندے پارلیمنٹ میں جا کر عوام کو بھول جاتے ہیں عوامی مسائل کو نظر انداز کر دیتے ہیں تو پھر دوبارہ ان کے لئے حلقے جیتنا مشکل ہی نہیں ناممکن بھی ہو جاتا ہے۔ اب پاکستان تحریک انصاف کو عوامی فلاح و بہبود اور ترقیاتی منصوبوں کو نا صرف شروع کرنا ہے بلکہ انہیں 2022 یا اس کے آخری مہینوں تک مکمل بھی کرنا ہے۔ اگر حکومت آج شروع کیے گئے ملک گیر ترقیاتی منصوبوں کو 2022 جولائی اگست یا ستمبر تک مکمل کرنے میں کامیاب نہیں ہوتی، حکومت مہنگائی پر قابو پانے میں کامیاب نہیں ہوتی، حکومت عوام کو صحت اور تعلیم کی بہتر سہولیات فراہم کرنے میں کامیاب نہیں ہوتی تو پھر اکابرین تحریک انصاف یاد رکھیں کہ 2023 میں وہ یہ نہیں کہہ سکیں گے کہ ان کے پاس حکومت نہیں تھی یا وہ اختیار میں نہیں تھے یا ان کے پاس تجربہ نہیں تھا یا وہ پہلی مرتبہ حکومت میں آئے تھے اس وقت کوئی ان کی بات سننے کو تیار نہیں ہو گا۔ پانچ سال حکومت کرنے کے بعد جب پاکستان تحریک انصاف عوام کے پاس جائے گی تو اس وقت ہر شخص ان سے یہی پوچھے گا کہ ہمارے لئے کچھ کیا ہے۔ 2023 میں جب عام انتخابات کے لیے پی ٹی آئی کے لوگ اپنے حلقوں میں جائیں گے تو لوگ ان سے یہ نہیں پوچھیں گے کہ آپ نے میاں نواز شریف، میاں شہباز شریف یا آصف زرداری اور مولانا فضل الرحمن کے ساتھ کیا کیا بلکہ اس وقت لوگ یہ پوچھیں گے کہ آپ نے ہمارے لیے کیا کیا ہے۔ اگر حکومت آج سے 2023 کے عام انتخابات کو ہدف بنا کر کام شروع کرے گی تو کامیابی ممکن ہے ورنہ حکومت کے بدلنے میں کونسا وقت لگتا ہے ووٹرز کی سوچ بدلنے میں کونسا وقت لگتا ہے۔ عہدہ بدلنے میں کون سا وقت لگتا ہے، بنچوں کے بدلنے میں کونسا وقت لگتا ہے۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38