سیدنا ابوبکر ؓ کی آل کا منور اور روح پرور تذکرہ

رات دس بجے گھر کی گھنٹی بجی۔ میںباہر گیا۔ ایک نوجون موٹر سائیکل پر آیا تھااور سردی سے ٹھٹھر رہا تھا، اس نے مجھے ایک بھاری بھر کم کتاب دی اور چلا گیا۔ یہ کتاب علامہ عبدلستار عاصم کی طرف سے آئی تھی۔ میں ان کی ارسال کردہ کئی کتب واپس ٹی سی ا یس کروا دیتا ہوں کہ جب پڑھ نہیں سکتا تو ان پر لکھوں گا کیا۔ مگر نہ جانے اس کتاب میں کیا لذت، چاشنی اور کشش تھی کہ میں اسے مسلسل دیکھے چلا جا رہا ہوں۔ ورق پر ورق پلٹتا ہوں اور اندازہ لگانے کی کوشش کرتا ہوں کہ میرے آقا ﷺ کے سچے اور قریب ترین ساتھی سیدنا ابوبکر صدیق ؓ کی مہک کیسی تھی ۔اس کتاب کا نام ہے ۔۔مآثر الاجداد۔۔ اورا سکے مصنف ہیںمنظور الحق صدیقی جو ریاضی کے استاد تھے مگر مئورخ کے طور پر زندہ جاوید ہو گئے۔اس کتاب میں انہوں نے حضرت ابوبکر صدیق ؓ سے لے کر اپنے والد ماجد تک ہزاراوں اصحاب کا تذکرہ کیا ہے۔ اور ان کاا حوال بیان کیا ہے۔ میں کتاب پر نظر ڈال رہا تھا اور حیرتوں کے سمندر میں ڈوبتا جا رہا تھا۔اجداد کا تذکرہ زیادہ سے زیادہ دادا پڑدادا تک کیا جاسکتا ہے مگر پندرہ صدیوں اور تین بر اعظموں میں پھلے ہوئے بزرگوں کی تلاش ہمالیہ سر کرنے سے کٹھن کام ہے، منظور الحق صدیقی نے یہی کتاب نہیں لکھی،حسن ابدال میں پڑھانے کے ناطے اس علاقے کی تاریخ بھی الگ مرتب کر دی ہے۔
اب مجھے کچھ سجھائی نہیں دیتا کہ کتاب پر اپنا تبصرہ کہاں سے شروع کروں۔ پہلے تو مجھے حسد کی آگ نے تپا کررکھ دیا ہے کہ علامہ عبدالستار عاصم ایک ایک دن میں درجن بھر کتابیں چھاپ رہے ہیں؛ لگتا ہے کہ انہوں نے کہیں گاجریں کاشت کرنے کا شغل اا ختیار کیا ہے اور گاجروں کی جگہ کتابیں اگ رہی ہیں، میرا ان سے تعارف سعید آسی کے سفر نامے کی اشاعت سے ہواتھا،۔ اب پتہ چلا ہے کہ ان کی چند مزید کتب شائع کرچکے ہیں اور آئندہ ان کی کلیات شائع کرنے کا ارادہ ہے۔ چلئے میںنے علامہ صاحب کے خلاف اپنے دل کا غبار نکال لیا مگر ابھی دل نہیں بھر ا۔ وہ کئی اور کتابیں بھی بھیج چکے ہیں جوسب کی سب آرٹ پیپر پر خوبصورت طریقے سے شائع کی گئی ہیں اور قیمت کے لحاظ سے عام آدمی کی قوت خرید سے باہر ہیں تو کیا وہ ساری کتابیں چاند یا مریخ کی جانب ایکسپورٹ کر دیتے ہیں ۔ اسلئے کہ دنیا بھر میں کتاب پڑھنے کا کلچر ختم ہو چکا۔مگر علامہ صاحب ایسے ٹائٹل منظر عام پر لاتے ہیں کہ میرے جیسا غبی اور دیہاتی بھی پڑھنے کی طرف مائل ہو جاتا ہے خواہ ایک لفظ تک سمجھ میںنہ آئے، مگر لفظ خود بولتے ہیں اور قلب و ذہن میں اترتے چلے جاتے ہیں۔
یہ شجرے کی تلاش کا سفر بھی عجب عشق ہے۔ منظور الحق صدیقی نے ایک ہزار برس سے زیادہ کا کٹھن سفر طے کیا۔ پتہ نہیں کتنے لاکھ صفحات کو کھنگال ڈالا اور کس سمندر میں غوطہ لگا کر گوہر نایاب تلاش کرنے میں کامیاب ہوئے۔ انہوںنے اس تلاش میں خون جگر جلایا ہے۔ مگر وہ ایک ایسی کتاب لکھنے میں کامیاب ہو گئے جس نے مسلمانوں کے علم الاسما ء کی مہارت پر مہر تصدیق ثبت کر دی ہے۔ اسلام ایک واحد مذہب ہے جس کی کسی روایت کو چیلنج نہیں کیا جا سکتا کیونکہ مفسرین اور محدثین نے جہاں ریسرچ ورک کیا وہاں اسناد کو بھی محفوظ کرتے چلے گئے۔ آپ کسی حدیث کے بارے میں پوچھیں ،محدث آپ کو ایک ہزار سال کے حوالے پیش کر کے ابوہریرہ ؓ تک لے جائے گا۔ اور آپ کو یہ سند ماننا پڑے گی۔
اجداد کا تذکرہ عام طور پر یہ ثابت کرنے کے لئے کیا جاتا ہے کہ پدرم سلطان بود کی جھلک نظر آئے۔ ہر کوئی یہ کہتا سنائی دے گا کہ ا ن کے بزرگ بہت بڑے نواب یا جاگیر دار تھے خواہ ان کے پودینے کے باغوں ہی کا حوالہ کیوں نہ دینا پڑے۔غالب جیساچنگا بھلا شاعر بھی یہ کہے بغیر نہ رہ سکا کہ سوپشت سے ہے پیشہ ا ٓبا سپاہ گری۔ میںنے بعض کالم نویسوں کو یہ دعویٰ کرتے سنا ہے کہ ا ن کے والد گرامی تو خدا رسیدہ بزرگ تھے حالانکہ میں انہیں سینکڑوں بار مل چکا ہوں۔ہو سکتا ہے کہ وہ خدا کے ماننے والے ہوں مگر خدا تک وہ وفات کے بعد ہی پہنچے۔ کچھ لوگ جھنگ کے نواح سے اٹھے اور ذرا شہرت پائی تو اپنا شجرہ نسب شاہ جیلاں تک جا ملایا۔ میرا پوتا عبداللہ نے کوئی تین سال قبل جب وہ چھٹی جماعت میں تھا تو قلم اور کاغذ پکڑ کر بیٹھ گیا کہ اپنے والد کا نام لکھوائو۔،پھر ان کے والد ۔پھران کے والد کا۔ میرے گائوں کا نام فتوحی والہ ہے ۔ ظاہر ہے اسے فتوحی نامی کسی شخص نے کوئی پانچ سو برس پہلے آباد کیا تھا، میں نے ان تک تو سات پشتوں کاشجرہ پہنچا دیا ۔پھر ہانپ گیا ۔ا سلئے کہ مجھے کچھ معلوم نہیں کہ حضرت فتوحی بھیڑ بکریاں چراتے کہاں سے اس مقام تک پہنچے۔ بھیڑ بکریوں کا لفظ میرے قلم سے نکلا ہے تو ساتھ ہی قلم کے آنسو نکل گئے ہیں اور مجھے حضرت اسماء بنت ابو بکر ؓ یادا ٓ گئیں ۔ میں ان کو اپنا آئیڈیل مانتا ہوں۔ اس لئے کہ جب ہجرت کاوقت آیا تو حضرت اسمائؓ کو اعتماد میں لیا گیا تھاا ور ہجرت کی سٹرٹیجی میں ان کی ڈیوٹی تھی کہ صبح شام بکریاں چراتے غار ثور تک جاتیں اور لوگوں کی نظروں سے بچ کر غار میں مقیم دو مسافروں کو تازہ دودھ فراہم کرتیں۔ کاش ! میں اس زمانے میں ہوتا اور یہ سعادت میر ے حصے میں آتی کہ ایک لٹھ لے کر حضرے اسماء ؓ کی حفاظت کے لئے ساتھ ساتھ چلتا ۔ حضرت اسماء میری آئیڈیل ہیں اور اس کتاب نے تو مجھے ان کے جلیل القدر خاندان کے بہت قریب کر دیا ہے۔
اچھا تو یہ کتاب پدرم سلطان بود سے کوئی میل نہیں کھاتی کیونکہ اجداد میں شامل سارے لوگ نہ تو حاجی تھے نہ زمانے کے امام ۔ اس کتاب کا اصل وصف یہی ہے کہ اس میں خاندان کے بزرگوں کو ان کی حقیقی شکل میں پیش کیا گیا ۔ ان کے چہرے کو پینٹ کرنے کی قطعی کوشش نہیں کی گئی۔
اس کتاب میں ڈاکٹر عبدالقدیر، الطاف حسن قریشی ، جبار مرزا اور محمد فاروق عزمی کے تبصرے پہلے ہی سے شامل ہیں۔ میں ناچیز ان پر کیا اضافہ کر پائوں گا اور مولا نا مودودی جیسے جید علمائے کرم کے مکاتیب بھی اس کے متن کا حصہ ہیں۔ یہ سب کچھ کتاب اورصاحب کتاب کو معتبر اور محترم ثابت کرنے کے لئے کافی ہے اور اصل اہمیت تواس بات کی ہے کہ مصنف نے اپنا رشتہ سیدنا ابو بکر صدیق ؓ سے جوڑا ہے ۔ اس سے بڑھ کر اس خاندان کے لئے فخر اور سعادت کی اور کیا بات ہو سکتی ہے۔
مگر مجھے یہاں مصنف کے فرزند بریگیڈیئر احمد رضا صدیقی سے اپنی ٹیلی فون گفتگو کی خوشبو اس کالم کا حصہ ضرور بنانی ہے۔ جناب احمد رضا صحیح معنوں میں اپنے باپ کی تصویر ہیں اور اپنے جد امجد کے عشق سے سرشار۔ وہ بتاتے ہیں کہ ان کے والد راولپنڈی کے علاوہ بر صغیر کے کئی سکولوں میں ٹیچر رہے اور ان کے شاگردوں کا دائرہ اس قدر وسیع ہے کہ بیان سے باہر ہے۔ یہ سب شاگرد اپنے استاد کو باپ کی جگہ دیتے ہیں بلکہ اس سے بھی بڑھ کر عزت و تکریم سے نوازتے ہیں۔ جناب احمد رضا سے میںنے ان کے والد کے کتب خانے کے بارے میں پوچھا جس کا ذکر مولانا مودودی نے اپنے ایک خط میں بھی کیا ہے۔ بریگیڈیئر صاحب نے بتایا کہ یہ کتب خانہ صحیح معنوں میں علم و فن کا مخزن تھا، مخطوطات اور نایاب کتب کا سرمایہ۔ والد صاحب نے اپنی زندگی ہی میںیہ کتب خانہ قومی آرکائیوز کو ہدیہ کر دیا تھا۔ مجھے یہ سن کر یادا ٓیا کہ حضرت صدیق اکبر ؓ نے بھی اپنا سب کچھ مسجد نبوی میں جا ڈھیر لگایا تھا اور کہا تھا کہ صدیق ؓکے لئے ہے خدا کا رسول ﷺ بس۔ ایثار کی یہ روایت محترم منظور الحق نے بھی قائم رکھی۔ مجھے اسی ایثار کی خوشبو بریگیڈیئر احمد رضا صدیقی کے لبوں سے بھی محسوس ہوئی۔ میری زندگی کا یہ پون گھنٹہ جب میں جناب احمد رضا صدیقی کی باتوں سے محظوظ ہو رہا تھا،اسے میں حاصل زند گی کہوں گا۔ ایسی لطیف اور مہربان گفتگو صرف میںنے اپنی ماں سے سنی تھی۔آج پھر بارش کے چند چھینٹے پڑے ہیں ۔ انٹر نیٹ اور وائی فائی پھر غائب۔ کیا مجھے کسی نے سری نگر تو نہیں پھینک دیا۔