اس واقعہ کو ٹیسٹ کیس نہ بنایا گیا تو بھیانک سانحات جنم لیتے رہیں گے

پی آئی سی بدستور بند‘ وکلاء ڈاکٹرز ہڑتال پر‘ حملہ میں ملوث اور قانون ہاتھ میں لینے والوں کے ساتھ سختی سے نمٹنے کا فیصلہ
پنجاب انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی (پی آئی سی) پر حملے کے افسوس ناک واقعہ کے بعد وکلاء اور ڈاکٹرز دونوں اپنی اپنی انا پر اڑ گئے اور ایک دوسرے کیخلاف احتجاج کیا۔ پنجاب بار کونسل اور خیبر پی کے بار کونسل کی اپیل پر پی آئی سی حملے میں ملوث 46وکلا کی گرفتاری، پولیس تشدد اور ڈاکٹرز کے مبینہ رویے کیخلاف دونوں صوبوں میں وکلا نے ہڑتال کی۔ اس موقع پر وکلا نے عدالتی کارروائی کا بائیکاٹ کردیا اور مقدمات کی سماعت کیلئے پیش نہیں ہوئے۔ وکلا نے عدالتوں اور کچہریوں کے دروازے بند کردیئے جس کے نتیجے میں ہزاروں مقدمات التوا کا شکار ہوگئے اور ہزاروں سائلین کو شدید پریشانی کا سامنا کرنا پڑا۔ اسلام آباد سمیت ملک کے دیگر شہروں میں بھی وکلا برادری نے ڈاکٹرز اور پولیس کیخلاف احتجاج کیا۔ اس حوالے سے ریلیاں نکالی گئیں اور احتجاجی مظاہرے کئے گئے۔ اس موقع پر وکلا نے شدید نعرے بازی کرتے ہوئے وکلا پر تشدد میں ملوث ڈاکٹروں کی گرفتاری اور اپنے ساتھیوں کی رہائی کا مطالبہ کیا۔ دوسری جانب ڈاکٹرز بھی کسی سے پیچھے نہیں رہے۔ پی آئی سی پر حملے کیخلاف پنجاب کے شہروں میں ڈاکٹرز نے ہڑتال کی۔ مختلف ہسپتالوں میں ڈاکٹرز اور پیرا میڈیکل عملے نے وکلاء کے حملے کیخلاف احتجاج کیا۔ امراض قلب کا ہسپتال پنجاب انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی بند رہا اور ڈاکٹرز و طبی عملہ غیر حاضر رہے۔ ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن اور گرینڈ ہیلتھ الائنس نے تین روزہ سوگ کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ ڈاکٹرز کالی پٹیاں باندھ کر کام کرینگے۔ ڈاکٹرز کے احتجاج کی وجہ سے ہزاروں مریضوں اور انکے لواحقین کو شدید پریشانی کا سامنا رہا۔ شہریوں کا کہنا ہے کہ زندگی کے 2 اہم شعبوں سے تعلق رکھنے والے پیشہ ور افراد کے اس افسوس ناک رویے کی قیمت عوام کو چکانی پڑ رہی ہے۔وزیر صحت پنجاب ڈاکٹر یاسمین راشد نے کہا ہے کہ تشدد کا نشانہ بننے والے ڈاکٹرز کے ساتھ کھڑے ہیں، ڈاکٹرز اور مریضوں کو مکمل تحفظ فراہم کیا جائیگا۔ مشتعل وکلا نے زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا مریضوں کا علاج معالجہ روک کر حکومت کی رٹ کو چیلنج کیا ہے۔
وکلاء پاکستان کے طبقات میں پڑھا لکھا اور قانون سے تو سب سے زیادہ آگاہ طبقہ ہے۔ وکالت کیلئے کم از کم بھی گریجویشن لازم ہے اسکے بعد کئی سال کا کورس ہے۔ قائد و اقبال بھی اسی مقدس پیشہ سے وابستہ رہے۔ انکے بعد بھی بہت سے وکلاء نے محنت مہارت اور لگن سے بڑا نام پایا۔ وکلاء ہی سے بڑے نام کے قانون ساز بھی پاکستان میں سامنے آتے رہے ہیں مگر ہر طبقے کی طرح وکلاء میںبھی ایسے لوگ سامنے آنے لگے جو پیشے کی حرمت پر داغ ثابت ہوتے ہیں۔ پی آئی سی میں جو کچھ ہوا‘ وہ ایک جرم نہیں انسانیت سے گراوٹ کی بھی بدترین مثال ہے۔ ایک لمحے کیلئے فرض کرلیں کہ کسی ڈاکٹر نے وکلاء کے بارے میں اشتعال انگیز بات کی یا کوئی ویڈیو جاری کی‘ اول تو کہا جارہا ہے یہ ویڈیو وکلاء اور ڈاکٹرز کے مابین صلح سے قبل کی ہے اگر یہ بعد میں بھی جاری کی گئی ہے تو بھی قصوروار وہ ایک ہی کلپرٹ ہے۔ اس کیخلاف قانونی چارہ جوئی ہوسکتی ہے۔ شاید وکلاء کو اپنے نظام انصاف پر تحفظات ہوں‘ انصاف ملنے میں تاخیر ہو سکتی ہے لہٰذا خود ہی ’’فیصلہ‘‘ کردیں تو بھی انکے نزدیک کتنے ملزم تھے؟ ہسپتال کا پورا سٹاف بشمول سینئر ڈاکٹرز عملے اور مریضوں کے سب ملزم تھے؟ کچہریوں سے اٹھ کر میلوں دور جا کر ہسپتال کو بدترین دشمن کا ٹھکانہ سمجھ کر حملہ کرنا کیا مناسب اقدام ہو سکتا ہے جس سے ڈاکٹر اور عملے کے لوگ بھاگنے پر مجبور ہوئے اور کئی مریض جاں بحق ہوئے۔ یہ بھی رپورٹ ہے کہ ایک نوجوان نے جوش انتقام میں ایک مریضہ کا آکسیجن ماسک بھی کھینچ کر پھینک دیا تھا جو اسکی ہلاکت کا باعث بنا۔
رپورٹ کے مطابق ہسپتال میدان جنگ کا نقشہ پیش کررہا تھا‘ اس میدان جنگ میں ایک نہیں جوددو فریق ہوتے ہیں۔ ڈاکٹرز عملے اور مریضوں کے کچھ لواحقین نے بھی وکلاء کے اشتعال اور جارحیت کی مزاحمت کی جس نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔ اس مزاحمت کو شاید دفاعی اقدام کہا جائے۔ کچھ وکلاء کے پاس پستول بھی تھے اور انہوں نے بھی ہوائی فائرنگ پر اکتفا کیا ورنہ صورتحال مزید خوفناک ہوسکتی تھی۔ ابتدائی رپورٹ کے مطابق ہسپتال میں نقصان کا تخمینہ سات کروڑ روپے لگایا گیا ہے جبکہ ہسپتال کی ایمرجنسی بدستور بند ہے۔ مستحق مریضوں کو ادویات مل رہی ہیں نہ اپریشن ہورہے ہیں نہ ہی اپریشن کیلئے وقت دیاجارہا ہے۔ پولیس پر بھی الزام ہے کہ اس نے ذمہ داری پوری نہیں کی۔ پولیس کیلئے ایسے ہجوم کو کنٹرول کرنا چنداں مشکل نہیں ہوتا مگر فرائض کی ادائیگی کے دوران ماڈل ٹائون جیسے سانحات بھی پولیس افسروں اور اہلکاروں کی آنکھوں کے سامنے گھوم جاتے ہیں۔ سانحہ ماڈل ٹائون کے احکامات دینے والے محفوظ اور عمل کرنیوالے زیرعتاب رہے۔ سی سی پی او کے مطابق پولیس نے پھر بھی اپنی ذمہ داری پوری کی اور صورتحال پر قابو پانے میں اپنا کردار ادا کیا۔
تازہ ترین اطلاعات کے مطابق پی آئی سی حملے میں ملوث وکلاء کو سخت سکیورٹی حصار میں انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت کے ایڈمن جج عبدالقیوم خان کے روبرو پیش کیا گیا۔ اس موقع پر تفتیشی افسر نے ملزمان وکلاء کے 14 دن کے جسمانی ریمانڈ کی استدعا کی۔ ملزمان وکلا کے خلاف تھانہ شادمان میں دو ایف آئی آر درج کی گئی ہیں۔اس حوالے سے جہاں یہ افسوسناک پہلو سامنے آیا ہے کہ پی آئی سی واقعہ کی ہولناکی کے باوجود وکلاء تنظیمیں اور وکلاء رہنماء متعلقہ وکلاء کی حمایت کر رہے ہیں وہیں یہ حوصلہ افزاء صورتحال بھی پیدا ہوئی ہے کہ وکلاء کی نمائندہ تنظیموں اور سینئر وکلاء کی جانب سے اس واقعہ پر دکھ اور افسوس کا اظہار بھی کیا جارہا ہے جس کی مثال گزشتہ روز حفیظ الرحمن چوہدری صدر لاہور ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن کی زیر صدارت منعقد ہونیوالا لاہور ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن، پاکستان بار کونسل، پنجاب بار کونسل ، سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن، لاہور بار ایسوسی ایشن اور ٹیکس بار ایسوسی ایشن کا مشترکہ اجلاس ہے جس میں احسن بھون ممبر پاکستان بار کونسل، اعظم نذیر تارڑ ممبر پاکستان بار کونسل، عابد ساقی ممبر پاکستان بار کونسل، طاہر نصر اللہ وڑائچ ممبر پاکستان بار کونسل، شمیم الرحمن ملک سیکرٹری سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن، شاہ نواز اسماعیل وائس چیئرمین پنجاب بار کونسل، چوہدری غلام سرور نہنگ ممبر پنجاب بار کونسل، رانا سعید اختر ممبر پنجاب بار کونسل، مرزا ذیشان ممبر پنجاب بار کونسل، فیاض احمد رانجھا سیکرٹری لاہور ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن ، کبیر احمد چوہدری نائب صدر لاہور ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن ، عنصر جمیل گجر فنانس سیکرٹری لاہور ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن ، اعجاز بسرا نائب صدر لاہور بار ایسوسی ایشن، ملک مقصود کھوکھر سیکرٹری لاہور بار ایسوسی ایشن کے علاوہ وکلاء کی کثیر تعداد نے شرکت کی۔ وکلاء کی نمائندگی کرتے ہوئے احسن بھون نے کہا کہ پنجاب انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی میں پیش آنے والا واقعہ انتہائی افسوسناک ہے اور تمام وکلاء برادری نہ صرف اس پر رنجیدہ ہے بلکہ اس میں شر پسندی کرنیوالے عناصر کیخلاف سخت تادیبی کاروائی کی جائیگی۔ واقعہ میں فائرنگ کرنیوالے اور پولیس وین کو آگ لگانے والے چند ایک وکلاء ، اگر وہ بار ممبرز ہیں، کیخلاف انضباطی کارروائی ضرور کی جائیگی۔ اس اندوہناک واقعہ کے حوالہ سے ہم چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ سے جوڈیشل انکوائری کروانے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ احسن بھون کے مطالبے سے بھی آگے جانے کی ضرورت ہے۔ چیف جسٹس پاکستان اس معاملے میں ازخود نوٹس لیں تو بہتر ہے۔
چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس آصف سعید کھوسہ نے وکلاء کی جانب سے زدوکوب کے بڑھتے ہوئے واقعات کے باعث ہی پنجاب جوڈیشل اکیڈمی میں خطاب کرتے ہوئے باور کرایا تھا کہ اب عدلیہ بحالی تحریک جیسی بحالی عزت وکلاء تحریک چلانے کی بھی ضرورت ہے۔ سپریم کورٹ کے جسٹس عمر عطا بندیال نے گزشتہ روز ایک کیس کی سماعت کے دوران پی آئی سی واقعہ پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس واقعہ سے پوری کمیونٹی کو ضرب لگی ہے۔ پی آئی سی پر یلغار کا کوئی جواز نہیں ہو سکتا مگر کچھ جوشیلے وکلاء ہڑتال کی کال دے رہے ہیں‘ عدالتیں بند کرائی جارہی ہیں میڈیا کو بھی دھمکیاں دی گئی ہیں۔ سینئر قانون دان اعتزاز احسن نے اصولی بات کرتے ہوئے پی آئی سی حملہ کی مذمت کی تو ان پر پنڈی بار میں داخلے پر پابندی عائد کر دی گئی۔
ماضی کے واقعات میں پولیس سائلین حتیٰ کہ ججوں پر تشدد کا اگر سخت نوٹس لیا جاتا تو پی آئی سی پر حملے کی نوبت نہ آتی جس سے پوری دنیا میں پاکستان کا چہرہ گہنا گیا ہے۔ متعلقہ ادارے اس کیس کو ٹیسٹ کیس بنا کر مکمل تحقیقات کے بعد ذمہ دار قرار پانے والوں کیخلاف سخت کارروائی کریں‘ دوسری صورت میں یہ آگ ایسے ہی جلتی رہے گی جو کسی کے بھی دامن کو اپنی لپیٹ میں لے سکتی ہے اور پی آئی سی سے بھی زیادہ بھیانک واقعات رونما ہو سکتے ہیں۔ ڈاکٹرز اور وکلاء رہنمائوں کو کسی بھی طور پر جونیئرز اور نوجوانوںکو کسی قسم کی شہ دینے کے بجائے انہیں پرامن رہنے کی تلقین کرتے ہوئے صورتحال کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ بہتر ہے ڈاکٹرز اور وکلاء کے قائدین مل کر معاملات طے کریں۔