بھارتی شہریت بل: ہسپتال پر حملہ

نریندر مودی نے مقبوضہ کشمیر کا خصوصی سٹیٹس ختم کر کے اور کشمیریوں کو طویل عرصہ تک نظر بند رکھ کر عالمی ردعمل کا اندازہ لگا لیا۔ اسے اندرونی طور پر بھی غیر معمولی رد عمل کا سامنا نہ کرنا پڑا۔ اب مودی نے لوک سبھا میں امتیازی بل منظور کرا لیا ہے جس کے مطابق مسلمان تارکین وطن بھارتی شہریت کے حقدار نہیں ہوں گے جبکہ دیگر مذاہب سے تعلق رکھنے والے افراد بھارتی شہریت حاصل کر سکیں گے۔ اس نئے امتیازی بل کی منظوری کے بعد سب سے زیادہ رد عمل شمال مشرقی بھارتی علاقوں میں ہوا ہے جن کو خدشہ ہے کہ بنگلہ دیش اور میانمار کے علاقوں سے غیر مسلم ترک وطن کر کے آئیں گے اور مسلم آبادی کو اقلیت میں تبدیل کر دیں گے۔ شمال مشرقی بھارتی علاقوں میں سڑکوں کو بلاک کر کے پورے علاقے میں آمدورفت کو بند کردیا گیا۔ مسلمانوں کی تنظیموں نے خبردار کیا ہے کہ احتجاج جاری رہے گا اور بھارتی حکومت کو امتیازی شہریت بل واپس لینا پڑے گا۔ بھارتی لوک سبھا کے بعد راجیہ سبھا نے بھی اس بل کی منظوری دے دی ہے۔ عالمی سطح پر اس بل کے خلاف شدید ردعمل سامنے آیا ہے۔ امریکہ کے کمیشن برائے عالمی مذہبی آزادی نے بھارتی شہریت بل کو غلط سمت کی طرف خطرناک موڑ قرار دیا ہے۔ یورپی یونین نے بھی اس بل کی مخالفت کی ہے۔ پاکستان کے وزیراعظم عمران خان نے اس امتیازی بل کی مذمت کرتے ہوئے اسے بھارت کے لئے خطرناک قرار دیا ہے۔ وزیراعظم نے کہا ہے کہ مودی ہندو بالادستی کی پالیسی پر گامزن ہیں۔ بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی اسلام دشمنی میں ایسے اقدامات کر رہے ہیں جن کا خمیازہ بھارت کے عوام کو بھگتنا پڑے گا جب بھی آگ لگائی جاتی ہے تو وہ پھیلتی ہے اور سب کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے۔ بھارتی وزیراعظم کی انتہا پسندی اور مہم جوئی بھارت کے مستقبل کے لیے سنگین خطرہ بن چکی ہے۔
جب تک عالم اسلام کردار کے بحران سے گزرتا رہے گا پوری دنیا کے مسلمانوں سے امتیازی سلوک کیا جاتا رہے گا۔ کاش مسلمان اللہ تعالی کی ہدایت کی کتاب قرآن کی جانب واپس آجائیں تو ایک بار پھر دنیا کی عظیم طاقت بن سکتے ہیں۔ اقوام متحدہ اگر عالمی چارٹر کے مطابق اپنے فرائض پورے کرنے کے قابل ہو تو کوئی ملک اس قسم کی قانون سازی نہیں کر سکتا جو اقوام متحدہ کے عالمی چارٹر کے ہی خلاف ہو بھارت کا امتیازی شہریت کا بل بھارت کے آئین کے بھی خلاف ہے۔
پاکستان کے دل لاہور میں دل کے ایک معروف ہسپتال پی آئی سی پر وکلا کی دہشتگردی سے پورے ملک میں افسوس اور ندامت کی لہر پھیل گئی ہے۔ اردو کے مشہور شاعر میر تقی میر نے کہا تھا۔
نہ درد مندی سے تم یہ راہ چلے ورنہ
ہر اک جا پہ تھی جائے نالہ و فریاد
کبھی سوچا بھی نہ تھا کہ ہمیں یہ دن بھی دیکھنا پڑے گا کہ قانون کے رکھوالے کالے کوٹ پہن کر دل کے مریضوں کے ہسپتال پر حملہ آور ہو کر علاج کی غرض سے آئے ہوئے مریضوں کو بھی ہلاک کر ڈالیں گے۔ کیا کوئی انسان ایسا دردناک اقدام کام کر سکتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہم بحیثیت قوم اجتماعی طور پر ناکام ہو رہے ہیں۔ وکلاء گردی کا یہ پہلا واقعہ نہیں ہے اس سے قبل بھی کئی شرمناک واقعات ہو چکے ہیں مگر ان میں چونکہ مجرموں کو سخت سزائیں نہ دی گئیں۔ اس لیے لاہور کا حالیہ واقعہ رونما ہوا۔ دنیا کے جن ممالک میں عبرت ناک سزائیں دی جاتی ہیں ۔ وہاں پر جرائم کی شرح بہت کم ہے اور کوئی گروہ یہ تصور بھی نہیں کر سکتا کہ وہ باقاعدہ منصوبہ بندی کرکے ہسپتال یا کسی دوسری جگہ پر حملہ آور ہو سکے۔ افسوس جنگوں کے دوران دشمن بھی ہسپتالوں پر حملہ کرنے سے گریز کرتے ہیں مگر پاکستان انسانیت چھوڑ کر جانورستان بنتا جا رہا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کی مائیں باپ اساتذہ مذہبی رہنما پولیس ریاستی ادارے سب ناکام ہو رہے ہیں جس کی وجوہات تلاش کرنے کی ضرورت ہے تاکہ وہ ضروری اقدامات اُٹھائے جا سکیں جن سے ایک مثالی اور معیاری سماج وجود میں آسکتا ہے۔ پاکستان کی تاریخ گواہ ہے کہ ریاست کو پڑھے لکھے طبقے نے نا کام کیا ہے جبکہ ان پڑھ لوگ مشکلات اور مصائب کے باوجود نظم و ضبط کا مظاہرہ کرتے چلے آرہے ہیں۔ حالانکہ ان کو دو وقت کی پوری روٹی بھی میسر نہیں ہے۔ پولیس اگر آزاد اور خود مختار ہو تو اس قسم کے شرمناک اور افسوسناک واقعات ظہور پذیر نہیں ہو سکتے۔ وکلاء اور ڈاکٹر دونوں پڑھے لکھے طبقے سے تعلق رکھتے ہیں۔ مگر افسوس انہوں نے ایک ایسا المیہ جنم دیا ہے جسے تاریخ میں سیاہ دن کے طور پر یاد کیا جائے گا۔ پولیس کی سپیشل برانچ کو وکیلوں اور ڈاکٹروں کے تنازعہ کے سلسلے میں کڑی نظر رکھنی چاہیے تھی اور مشتعل وکلاء کو عدالتوں سے باہر نکلنے سے پہلے ہی بھاری پولیس کی نفری سے روکا جانا چاہیے تھا۔جن کے عزیز ہسپتال میں جان بحق ہوئے ہیں وہ یہ سوال کر رہے ہیں۔
میں کس کے ہاتھوں پر اپنا لہو تلاش کروں
کہ سارے شہر نے پہنے ہوئے ہیں دستانے
پاکستان اندر سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو رہا ہے‘ اس مسلسل زوال کو روکنے کے لیے واحد طریقہ یہ ہے کہ قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے والوں کو عبرت ناک سزائیں دی جائیں تاکہ دوسروں کو عبرت ہو اور ایک جیسے واقعات دوبارہ رونما نہ ہو سکیں۔ جو لوگ مجرموں کی سرپرستی یا اعانت کرتے ہیں ان کے خلاف بھی چارہ جوئی ہونی چاہیے۔ افسوس کا مقام یہ ہے کہ وکلاء کی تنظیمیں موجود ہیں مگر وہ اپنی برادری کے وکلاء کے خلاف انضباطی کارروائی کرنے سے ہمیشہ قاصر رہتی ہیں بلکہ مجرموں کو قانون کی گرفت سے بچانے کے لئے ہڑتال کی کال دے دی جاتی ہے۔ لازم ہے کہ انضباطی کاروائی کا اختیار وکلاء کی تنظیموں سے لے کر ریٹائرڈ ججوں پر مشتمل ڈسپلین کمیٹیوں کو دے دیا جائے۔
ہمارے حکمران اکثر اوقات دہشت گردی کے واقعات کا نوٹس تو لے لیتے ہیں اور بیانات بھی جاری کر دیتے ہیں مگر ان واقعات کو منطقی انجام تک پہنچانے میں سے قاصر رہتے ہیں۔ میڈیا بھی چند دن شور مچاتا ہے ہے پھر اس کے بعد شرمناک اور افسوسناک واقعات ماضی کا حصہ بن جاتے ہیں۔ عوام کا تاثر یہی ہے کہ دل کے ہسپتال پر ہونے والی افسوسناک دہشت گردی کا واقعہ بھی ماضی کا حصہ بن جائے گا اور اس واقعے میں ملوث افراد بھی ماضی کی طرح سزاؤں سے بچ جائیں گے کیونکہ پاکستان میں وکلا بھی اب مافیا کی شکل اختیار کر چکے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان پر آئین اور قانون کی بجائے مافیاز کا راج ہے جس کو توڑنے کے لئے ایک منظم اور باشعور عوامی تحریک کی ضرورت ہے۔ پاکستان کے عوام اگر منظم اور متحد ہوجائیں تو مافیاز کسی صورت بھی آئین اور قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے کی جرأت نہیں کر سکتے۔ آخرِکار عوامی دباؤ ہی کارگر ہوا کرتا ہے۔ پاکستان کے عوام کو یہ توقع تھی کہ پاکستان کے دلیر چیف جسٹس جناب آصف سعید کھوسہ اس واقعہ پر تو ضرور سوموٹو نوٹس لیں گے تاکہ ذمہ دار افراد کو کیفرِ کردار تک پہنچایا جاسکے کیونکہ ایک لحاظ سے پاکستان کے وکلاء چیف جسٹس پاکستان کے دائرہ اختیار میں آتے ہیں مگر افسوس انہوں نے اپنا آئینی اور قانونی اختیار استعمال کرنے سے گریز کیا ہے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس محترم اطہر من اللہ تحسین کے مستحق ہیں کہ انہوں نے اسلام آباد ہائی کورٹ بار کے سیکرٹری کو توہین عدالت کا نوٹس جاری کیا ہے۔ ہمیں قانون سازی کر کے احتجاج کے حق کو محدود کرنا پڑے گا تاکہ ہمارے احتجاج کا حق کسی دوسرے کے لیے اذیت اور دہشت کا ذریعہ ثابت نہ ہوسکے۔ وکیلوں کے لیڈروں نے کبھی وکلا گردی پر مشاورتی اجلاس نہیں بلایا جو افسوسناک امر ہے کیا سینئر وکلاء کی یہ ذمے دار ی نہیں ہے کہ وہ وکلاء کو آئین اور قانون کی حدود کے اندر رکھنے کے لئے سنجیدہ کوشش کریں۔
٭…٭…٭