اسد درانی ای سی ایل کیس‘ ڈپٹی اٹا رنی جنرل کی عدم موجودگی پر سماعت ملتوی
اسلام آباد (وقائع نگار) اسلام آباد ہائی کورٹ نے ڈپٹی اٹارنی جنرل کی عدم موجودگی کے باعث آئی ایس آئی کے سابق سربراہ لیفٹیننٹ جنرل (ر) اسد درانی کا نام ای سی ایل میں شامل کرنے کے خلاف درخواست کی سماعت 24 جنوری تک ملتوی کر دی۔ لیفٹیننٹ جنرل (ر) اسد درانی کی جانب سے دائردرخواست کی سماعت گزشتہ روز عدالت عالیہ کے جسٹس محسن اختر کیانی نے کی۔ اس موقع پر جنرل اسد درانی اپنے وکیل عمر آدم کے ہمراہ عدالت پیش ہوئے اور موقف اختیار کیا کہ ہمیں توکئی بار چائے پر بھی جی ایچ کیو بلایاگیا ، گپ شپ ہوئی اور کتاب پر بھی بات ہوئی لیکن کوئی انکوائری نہیں کی گئی۔ اس پر وہاں موجود وزارت دفاع کے نمائندہ بریگیڈئر فلک ناز نے کہاکہ اگر ریٹائرڈ آفیسر جی ایچ کیو آئے تو اچھی طرح ٹریٹ کرنے کا یہ مطلب نہیں کہ انکوائری نہیں ہو رہی۔ اس پر جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ ہم ای سی ایل کو دیکھ رہے ہیں ، اصل معاملہ تو متعلقہ حکام کو دیکھناہے۔ اس پر درخواست گزار کے وکیل کا کہنا تھا کہ سات ماہ سے ہمیں ایک لیٹربھی نہیں لکھا گیا ، یہ کتاب ایک صحافی نے انٹرویو کر کے لکھی۔ عدالت نے استفسار کیا کہ کیا وہ صحافی بھارتی شہری ہے جس پر وکیل نے بتایاکہ امریکی شہریت ہے اور بھارت سے باہر انٹرویو ہوئے ۔ انہوں نے کہا کہ ریٹائرڈ آرمی آفیسر آرمی ایکٹ کے تحت نہیں آتے ، آرمی ایکٹ صرف ریٹائرمنٹ کے چھ ماہ بعد تک لاگو ہوتا ہے ، اس کے بعد نہیں ہوتا۔ سات ماہ سے کتاب چھپی ہوئی ہے کوئی بات قومی سلامتی کے خلاف ہے تو سامنے لائی جائے۔ اس پر عدالت نے استفسار کیا کہ اسد درانی نے کوئی تحریری یا زبانی جواب وزارت دفاع میں جمع کرایا۔ اس پر وزارت دفاع کے نمائندے نے لاعلمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پوچھ کر بتا سکتا ہوں۔ انہوں نے عدالت سے استدعا کی کہ جب تک آرمی انکوائری کر رہی ہے ان کا نام ای سی ایل سے نہ نکالا جائے۔ اس پر عدالت نے استفسار کیا کہ کیا آفیشل سیکرٹ کتاب میں لکھا گیا ہے۔ جنرل اسد درانی کے وکیل نے بتایا کہ اگر اگر کسی آفیشل ایکٹ کی خلاف ورزی کی گئی ہے تو اسد درانی کے خلاف مقدمہ درج کیوں نہیں کرایا گیا۔ اسد درانی کے کتاب کے کسی بھی اقتباس کو کسی نے چیلنج نہیں کیا۔ اس پر جسٹس محسن اختر کیانی نے کہاکہ کیا کتاب لکھنے سے نیشنل سیکورٹی کو خدشہ ہے؟ وزارت دفاع کی طرف سے داخل کرائے گئے جواب میں کہا گیا ہے کہ اسد درانی کے خلاف آرمی ایکٹ کے تحت انکوائری جاری ہے،اصغر خان کیس میں بھی واضح جواب وزارت دفاع میں جمع کرایا ہے۔ دوران سماعت وزارت دفاع کے آفیسر نے عدالت کو بتایاکہ اسد درانی کو چار بار انکوائری کے لئے جی ایچ کیو طلب کیا گیا۔ اس پر عدالت نے استفسار کیا کہ کیا جی ایچ کیو میں اسد درانی سے تحریری جواب لیا گیا یا وائس ریکارڈ کیا جاتا ہے۔ اس پر فاضل عدالت کو بتایا گیا کہ اسد درانی کے خلاف دو الگ الگ انکوائریاں جاری ہیں۔ سماعت کے دوران وزارت دفاع نے اضافی جواب عدالت میں جمع کرایا۔