عہد حاضر کے سماجی اور اقتصادی مسائل کا مظہر
مکرمی :ادبی مجالس اور حلقۂ احباب و رفقاے کار میں ڈاکٹر محمد شیراز دستی کی وجۂ شہرت ان کی تدریسِ انگریزی زبان و ادب،ترجمہ نگاری اورلسانیات رہی ہے، جن سے متعلق ان کی تین کتابیں Hour of Decline’’مغل سراے‘‘ اور ’’نسلوں نے سزا پائی‘‘ کے عنوانات سے منظر عام پر آکر داد پا چکی ہیں تاہم ان کانو تصنیف ناول ’’ساسا‘‘ مکمل تخلیقی تجربہ ہے،جو اس لحاظ سے توجہ کا طالب ہے کہ وہ ایک انگریزی مدرس کے قلم سے تحریر کردہ ایک اردو ناول ہے۔ناول کے پیشگی تعارف کے طور پر پہلے دو ابواب اس سے قبل علامہ اقبال اوپن یونی ورسٹی اسلام آبادکے ادبی جریدے ’’ثبات‘‘میں شائع ہوچکے ہیں،جب کہ 25 ابواب اور تقریباً اڑھائی سو صفحات پر مشتمل ناول کی کتابی شکل عکس پبلی کیشنز،لاہور کے توسط سے منصہ شہود پر آئی ہے،جس کے سادہ سے سر ورق پر نہ صرف مستنصر حسین تارڑ،محترمہ خالدہ حسین، حمید شاہد،ڈاکٹر نجیبہ عارف اور ڈاکٹر ارشد محمود ناشاد جیسے اکابرینِ زبان و ادب کی آرا دی گئی ہیں بلکہ ناول کے اندرونی صفحات پر بہ طور پیش لفظ عصر ِ حاضر کے معروف نقادڈاکٹر ناصرعباس نیر کا تبصرہ بھی موجود ہے۔ عنوان’’ساسا‘‘انفرادیت کا حامل ہونے کے ساتھ ساتھ دل چسپ بھی ہے۔یہ متن کے اعتبار سے یہ ایک طوطانما پرندے کا نام ہے،جس کا ذکر ہمیں صرف چند ابواب ہی میں ملتا ہے البتہ اس کردار کی مدد سے ناول نگار نے جس فکر کو نمایاں اور جس تضاد کو ابھارنے کی سعی کی ہے اس کی بازگشت’ساسا‘کی عدم موجودگی کے باجود بھی پورے ناول میں سنائی دیتی ہے اور یہی مصنف کا بنیادی قضیہ ہے،جو ان کے ناول کے انتساب سے بھی پوری طرح واضح ہو جاتا ہے، جسے وہ ’’ساسا‘‘ہی کے ثنوی جوڑے’’سادہ‘‘سے منسوب کرتے ہیں۔ بحیثیت مجموعی ’’ساسا‘‘ کو عہد حاضر کے سماجی اور اقتصادی مسائل کو مدنظر رکھتے ہوئے سپر طاقتوں کی مریضانہ تہذیبی نرگسیت کا اظہار کہا جا سکتا ہے، جس میں فرسودہ اور کمزور روایات کو بدلنے کی خواہش ناول نگار کو بت تراش سے بت شکن بننے پر مجبور کر دیتی ہے اور وہ جرأتِ فکر اور آزادیٔ رائے کا نعرہ لگاتے ہوئے اپنی تحریر کی مدد سے حقائق کو دریافت کرنے، پیرایۂ اظہار اپنانے اور سوچ کو پروان چڑھانے کے حوالے سے جدت پسندی کا مشورہ دیتے ہیں لیکن ان سب کے ساتھ ان کی اپنی جڑیں اپنی دھرتی اور اپنی تہذیب میں پیوست رہتی ہیں اور ان کی یہی وطن پرستی ظلم، جارحیت اور استعماریت کے خلاف ایک مؤثر اور توانا آواز بن کر پہلی دنیا کی خود پسندیت پر ضربِ کاری اور تیسری دنیا کے باشندوں کی خود شناسی اور خود نگری کی طرف ایک مثبت قدم کی صورت آشکار ہوتی ہے، جو اگر اُٹھ جائے تو نہ صرف آج کے ماحول میں مردہ دلوں کی زندگی کے لیے معاون ثابت ہو سکتا ہے بل کہ ایک متحرک معاشرت کے بنیادی جوہر کے فروغ کا باعث بھی بن سکتا ہے۔(بی بی امینہ،اسلام آباد)