کہ آرہی ہے دما دم صدائے کن فیکون
انسان اور کائنات کی تخلیق حادثاتی ہے یا انہیں خالق کائنات نے ایک تسلسل اور منصوبہ کے ساتھ درجہ بہ درجہ تخلیق کیا ہے۔اس سوال نے انسانوں کو دوطبقات میں تقسیم کردیا ہے۔اہل مذہب وجود خالق کو تسلیم کرتے ہیں۔ان کی دلیل ہے کہ کوئی صنعت صانع کے بغیر وجود پذیر نہیں ہوتی۔ہر تخلیق کا خالق ہوتا ہے میز یا کرسی بنانے والا بڑھی اور اشیائے آہن بنانے والا آہن گرہوتا ہے ۔دوسری طرف مادیین ہیں جو مادہ کو سبب تخلیق گردانتے ہیں اور مادی قوانین کو ہی خالق کا مقام دیتے ہیں۔لامذہب اور دہر یے بھی وجود خالق کے انکاری ہیں۔الہامی کتابیں تورات،انجیل،زبور اور قرآن خالق کائنات کے وجود کا اعلان کرتے ہیں لیکن حقیقت حال یہ ہے کہ ان الہامی کتابوں میں وجود خدا پر اور تخلیق کائنات پر دلائل صرف زبان قرآن سناتی ہے۔قرآن مجید میں بار بار اعلان ہوتا ہے کہ کائنات کا خالق اللہ کریم ہے ۔سورۃ نوح کی آیات نمبر 13 سے 19 تک انسان ،آسمان ،سورج ،چاند اور زمین کی تخلیق کا ذکر ہے۔یہاں مقام حیرت آیت نمبر 17 ہے۔ارشاد ربانی ہے’’اور اللہ نے تمہیں زمین سے سبزے کی مانند اگایا‘‘۔مفکرین جدید اس آیت کی تشریح میں رقم طراز ہیں کہ ارض زندگی میں پودوں کی طرح حیات انسانی کی ابتداء اور نشوونما بھی کیمیائی اور حیاتیاتی مراحل سے گزرتے ہوئے تدریجاً ہوئی۔مسلمان مفکرین میں ابن مسکویہ اور مولانا جلال الدین رومی بھی انسان کی تدریجی مراحل خلقت کے قائل تھے۔یورپ میں ڈارون نے (Origion of Species)لکھ کر کائنات کو تدریجی مراحل کی تخلیق قرار دیا جو مادی اصولوں پر خود بخود ظہور پذیر ہوئی۔وہ خالق کے وجود کا مفکر تھا۔اس کے نظریہ تخلیق انسان نے انسان کو بندر کی ترقی یافتہ شکل قرار دیا۔اس لادینی نظریہ نے اخلاقیات و روحانیت کو شدید نقصان پہنچایا۔علاوہ ازیں آئن سٹائن کے نظریہ اضافت نے اخلاقیات کے متعلق و مسلمہ اصولوں کو اضافی(Relative) قرار دے کر خیر وشر کے نظریات میں ہلچل مچادی۔لیکن مسلمان عقلیت پسند دانشوروں نے زمان و مکان کے قرآنی تصور کی روشنی میں تخلیق انسان اور تخلیق کائنات کے تدریجی عمل کو نظم و ضبط خالق کی حکمت بالغہ قرار دیا۔قرآن مجید نے تخلیق کائنات کے زمان کو سات ایام قرار دیا۔عالم ناسوت اور عالم لاہوت کے یوم میں فرق ہے۔تخلیق کا عمل کروڑوں سال پر محیط ہے۔لیکن یہ امر مسلمہ ہے کہ تخلیق کا عمل خالق کے بغیر ممکن نہیں قرآن مجید سائینس،اخلاقیات، روحانیات،معاشرت،معاشیات اور سیاسیات پر بنیادی احکام دیتا ہے۔قرآن مجید نہایت آسان انداز میں دلیل و استدلال سے فکر انسانی کی دعوت تفہیم دیتا ہے۔سورۃ الفلق کی پہلی آیت ہے۔فلق دھماکہ کو کہتے ہیں یعنی جب دھماکہ ہوا اور ترتیب و تشکیل و تخلیق کائنات ہوئی ۔آج سائنس نے اس واقعہ کو BIG BANG کا نام دیا ہے۔اسی طرح سورۃ الانبیاء کی آیت نمبر 30 میں ارشاد ربانی ہے۔’’اور کیا کافر لوگوں نے نہیں دیکھا کہ جملہ آسمانی کائنات اور زمین ایک اکائی کی شکل میں جڑے ہوئے تھے پس ہم نے ان کو پھاڑ کر جدا کردیا اور ہم نے ہر زندہ وجود کو پانی سے پیدا کیا۔‘‘آج سائنس نے یہ ثابت کردیا کہ کائنات ایک اکائی کی صورت تھی جسے’’آواز بلند‘‘نے جدا جدا کردیا اور پانی سے ہی ہر ذی روح کی تخلیق ہوئی ۔سائنس قرآن مجید کی حقانیت کی تائید کررہی ہے۔یونانی فلاسفہ کائنات کو ساکن قرار دیتے تھے۔عیسائیت بھی زمین کو ساکن قرار دیتی ہے جب عظیم سائنس دان گیلیلو نے زمین کو متحرک قرار دیا تو عیسائی پادریوں نے اسے ملحد اور واجب القتل قرار دیا۔قرآن مجید نے کائنات کا حرکتی نظریہ دیا یعنی کائنات ساکن وجامد نہیں بلکہ متحرک ہے۔سورۃ رحمان میں تو یہ بھی ارشاد ہوا۔’’سورج اور چاند مقررہ حساب سے محو گردش ہیں۔اس طرح کائنات میں تخلیق عمل جاری و ساری ہے اور سورۃ رحمان کی آیت نمبر 29 میں ارشاد ہوا۔’’وہ ہر آن نئی شان میں ہوتا ہے‘‘کائنات کے حرکتی نظریہ کا اعلان سورۃ الانبیاء کی آیت نمبر 33میں یوں ہوا۔’’یعنی تمام(آسمانی کرے)اپنے اپنے مدار میں گھوم رہے ہیں‘‘یہی الفاظ سورۃ یسٰین کی آیت نمبر 40 میں استعمال ہوئے ہیں۔علامہ اقبال اور علامہ دوانی نے زمان و مکان کے تصور قرآن کی روسے کائنات کے نظریہ حرکت و گردش کی وضاحت کی ہے۔علامہ اقبال نے اپنے انگریزی زبان میں خطبات بعنوان’’تشکیل نو افکار اسلامیہ ‘‘میں زمان و مکان پر تفصیلی روشنی ڈالی ہے۔پاکستان کے ممتاز سائنس دان سابق وائس چانسلر ڈاکٹر رضی الدین صدیقی مرحوم کی اردو زبان میں لکھی گئی کتاب عنوان’’اقبال کا نظریہ زمان و مکان‘‘اقبال کے تصور کائنات پر سیر حاصل روشنی ڈالتی ہے۔علامہ اقبال کا تصور زمان و مکان اور نظریہ کائنات پر مبنی نظریہ قرآن تھا۔اس لئے اقبال کہتے ہیں۔
یہ کائنات ابھی ناتمام ہے شاید
کہ آرہی ہے دما دم صدائے کن فیکون
آج سائنسی تحقیقات قرآنی علوم کی ترجمانی کررہی ہیں۔ویڈ یو فلم اور ٹیلیویژن نے ’’سورۃ ق‘‘کے اس اعلان کو برحق ثابت کردیا ہے جو آیت 17 میں کیا گیا کہ ہر انسان کے ساتھ دائیں اور بائیں طرف دو فرشتے ہیں جو اس کے ہر قول و فعل کو ریکارڈ کررہے ہیں اور بروز محشر ہر انسان کا ریکارڈ اسے دکھادیا جائے گا۔اسی طرح سورۃ یٰسین کی آیت 12 میں اعلان ہوا’’بے شک ہم ہی تو مردوں کو زندہ کرتے ہیں اور ہم وہ سب کچھ لکھ رہے ہیں جو اعمال وہ آگے بھیجتے ہیں‘‘سورۃ یٰسین کی آیت 65 نے تو اس حقیقت کو مزید وضاحت سے بیات کرتے ہوئے اعلان ربانی کیا۔’’آج ہم ان کے مونہوں پر مہریں لگادیں گے اور ان کے ہاتھ ہم سے باتیں کریں گے اور ان کے پاؤں ان اعمال کی گواہی دیں گے جو وہ کرتے تھے‘‘اس حقیقت کے بعد کیا کوئی صاحب ایمان خلوت و جلوت میں گناہوں کے ارتکاب کا تصوربھی کرسکتا ہے۔زلزلہ آتا ہے تو زمین لرزنے لگتی ہے۔زمین پھٹ جاتی ہے۔موت کا سما ہوتا ہے۔جب اصل زلزلہ آئے گا تو کائنات کی مادیت ختم ہوجائے گی اور برقی کائنات ہوگی۔جیسے ایٹم کو توڑ کر اس کی برقی طاقت کو محفوظ کرکے ایٹم بم بنایا جاتا ہے جو شہروں کے شہر جلادیتا ہے اسی طرح کائنات مادی میں ایسا خوفناک بھونچال آئے گا کہ ساری کائنات برقی بن جائے گی۔بجلی کی ایک صفت ہے کہ یہ بھی بیک وقت گرمی اور سردی کا اخراج کرتی ہے۔آپ اس سے گرمی کے لئے ہیٹر اور سردی کے لئے فرج یا اے سی لگاتے ہیں۔اسی طرح روزخ میں گرمی اور جنت میں متعدل موسم ہوگا اور ان کے درجات ہوں گے۔مردے قبروں سے زندہ باہر نکل آئیں گے جسے ’’سورہ ق‘‘ کی آیت 42 میں ’’یوم الخروج‘‘کہا گیا ہے۔صور اسرافیل پھونکا جائے گا اور فشار زمین ہوگا۔یوم معاد ایک حقیقت ہے۔یوم نشور کے دو عقلی جواز ہیں۔جو ظالم دنیا میں اپنے اثرو رسوخ نے اپنی زیادتیوں اور گناہوں سے بچ جاتے ہیں ان کا یوم حساب عقلی و فطری و انسانی تقاضا ہے۔جن دلوں میں خوف خدا نہ ہو وہ سنگ فارا سے بھی زیادہ سخت ہیں ایسے سنگ دل انسانوں کا ذکر سورۃ البقرہ کی آیت 74 میں مرقوم ہے۔یوم آخرت کا دوسرا جواز یہ ہے کہ ہر آمرو جابر اور ہرفاسق و فاجر کو یہ خوف رہتا ہے کہ وہ انسانوں پر ظلم و زیادتی کرکے آتش دوزخ میں پھینک دیا جائے گا۔تاریخ انسانی گواہ ہے جو بادشاہ اور حکمران عادل اور ابرار تھے وہ رعایا کے لئے نعمت تھے اور ظالم و فاسق حکمران فرعون و نمرود ثابت ہوئے۔خوف خدا اور خوف جہنم کا یہ سماجی و سیاسی پہلو بھی ہے۔قرآن مجید کے تمام احکامات دین و دنیا میں سرخروی اور کامیابی کے ضامن ہیں۔