سیدنا عمرِ فاروق ؓ کا نظامِ احتسا ب
اگر تاریخی اعتبار سے دیکھا جائے تو سیدنا عمرِ فاروقؓ نے اپنے مثالی دورِ خلافت میں عوام کی فلاح و بہبود کیلئے مختلف محکمے قائم کئے تھے جن کا کام صرف عوام کی فلاح و بہبود تھا اور ان محکموں پر احتساب اور نگرانی کیلئے بھی ایک محکمہ قائم تھا۔آپؓ نے ایک سو ضلع قائم کئے اور اقتدار کو نچلی سطح تک پہنچایا۔ان محکموں کے نام اور کام یہ تھے،1۔چیف سیکرٹری( کاتب)2۔ملٹری سیکرٹری (کاتب الدیوان)3۔ریونیو کلیکٹر (صاحب الخراج) 4۔پولیس چیف (صاحب الاحداث) 5ٹریئری آفیسر (صاحب بیت المال)6۔چیف جج (قاضی)حضرت عمرِ فاروق ؓ نے ریاست میں عوام کو عدل و انصاف ان کی دہلیز تک پہنچانے کیلئے صوبوں کا قیام عمل میں لایا جن کے ایک سو اضلاع قائم کئے۔ان قائم صوبوں کی تفصیل حسبِ ذیل ہے۔عرب (مکہ، مدینہ)عراق (بصرہ، کوفہ)شام(شام) فلسطین (ایلیاء ،رملہ)مصر( اپر ، لوئر) پرشیا (فارس،خوراسان ،آذربائیجان)
آپؓ نے ان تمام بارہ صوبوں کے پھر ایک سو اضلاع قائم کئے ان اضلاع میں آفیسرز کے خلاف شکایات کا ایک سیل بھی قائم کیاجو ان کا کڑا احتساب کرتا تھا۔آپؓ نے ریکارڈ کے نظام کیلئے پبلک منسٹری سسٹم قائم کیا۔پولیس کے ادارے میں اصلاحات لائیں اور اسے عوام کے جان و مال کے تحفظ کیلئے ایک مثالی ادارہ بنایا۔سیدنا عمر فاروقؓ احتساب کے بارے میں اس اصول پر کاربند تھے کہ ظلم ہونے سے پہلے پیش بندی کر لی جائے۔اس کیلئے ایک طرف تو آپؓ نے حکام کی تنخواہوں میں اضافہ کیا،دوسری طرف انہیں سادہ زندگی اختیار کرنے کی تلقین کی اور ان کو اس کا پابند بنایا:ِروزانہ پیش آنے والے مسائل کا فیصلہ کرنے کیلئے اہل الرائے صحابہ کرام ؓ کی ایک مجلسِ شوریٰ موجود تھی جس کے ارکان میں سیدنا علی المرتضیٰؓ،عبدالرحمٰن بن عوفؓ،معاذ بن جبلؓ،ابی بن کعبؓ اور زید بن ثابتؓ شامل تھے۔سیدنا عمرؓ مسندِ خلافت پر متمکن ہوئے تو انتظامِ مملکت قدرے مختصر تھا۔آپ ؓ کے دور میں اس نظام میں نہایت وسعت پیدا ہوئی۔چنانچہ انتظامی ضرورتوں کے پیشِ نظر آپ ؓ نے تمام مفتوحہ علاقوں کو آٹھ بڑے صوبوں میں تقسیم کر کے ہر صوبے میں انتظامی ادارے قائم کرکے انصاف عوام کی دہلیز تک پہنچانے کا بھرپور اہتمام کیا۔عمال و حکام کے انتخاب سے زیادہ دشوار مرحلہ ان کے اختیارات اور ان کے احتساب کا ہے۔اس باب میں سیدنا عمر ؓ کا اصول تھا کہ ہر عامل کو تقرری کے وقت ایک پروانہ عنایت فرماتے،جس میں اس کے اختیارات کی تصریح ہوتی تھی۔عامل اپنے صوبے میں جاتا تو وہاں کی جامع مسجد میں یہ پروانہ اجتماعِ عام میںپڑھ کر سنایا جاتا تھا۔اس میں اس بات کی صراحت ہوتی تھی کہ عامل اپنے حدود سے تجاوز نہیں کر پائے گا اور حقوق اللہ ،اور حقوق العباد اور مشترکہ حقوق کی پاسداری کرے گا۔
پاکستان میں احتساب کا عمل مدوجزر کے مراحل سے گزرتا رہا ہے،مختلف سیاسی و جمہوری ادوار میں قومی احتساب بیورو کا سیاسی بنیادوں پر مخالفین کے خلاف وار چلتا رہا لیکن اس کا دائرہِ کار غیرجانبداریت اور شفافیت کے عمل سے ناپید نظر آتا رہا جس کے باعث احتساب کا پروسیس صرف ایک مخصوص طبقے تک محدود رہا ۔احتساب کے نتیجے میں نااہلیت اور بدعنوانی کے خاتمے کی بجائے این آر او کی اصطلاح متعارف کروائی گئی ۔ماضی قریب میں قوم کو شعور کی بیداری اور کرپٹ نظام کے خلاف راہِ عزیمت اختیار کرنے کا حوصلہ عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے دیاجب انہوں نے یکے بعد دیگرے پیپلز پارٹی کے دور کے اواخر میں مینار پاکستان میں بھرپور عوامی طاقت کا مظاہرہ کیا اور پھر ایک لانگ مارچ کیا جو شاہراہِ دستور پر دستور کے نفاذ کی یاددہانی کرواتا رہا اور پھر جناح ایونیو پر ڈاکٹر محمد طاہرالقادری جناح کے پاکستان کی بات کرتے دکھائی دئے۔یہ عوامی دھرنا مذاکرات پر منتج ہوا جس کے نکات پر عملدرآمد یقینی بنانے میں اس وقت کی حکومت ناکام رہی۔ڈاکٹر محمد طاہرالقادری پہلے احتساب پھر انتخاب اور سیاست نہیں،ریاست بچائو کے منشور کے تحت میدان میں نکلے اور عام آدمی کے شعور پر دستک دی کہ آئین پاکستان کا آرٹیکل38 صحت،تعلیم،روزگار اور تمام معاشی و سماجی حقوق کی فراہمی کی بات کرتا ہے۔اسی اثناء میں نئے انتخابات میں دھاندلی کے تحت میاں نواز شریف کی حکومت قائم ہوئی جنہوں نے ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے عوامی بیداری شعور کے اسلوب سے خوفزدہ ہو کر مرکز منہاج القرآن پر ریاستی جبر و تشدد کی بدترین وحشیانہ و سفاکانہ داستانِ ظلم و جور رقم کرتے ہوئے نہتے چودہ افراد بشمول دو خواتین کو سے شہید کر دیا اور سو سے ذائد افراد کو گولیاں ماریں۔جس کا مقدمہ میری مدعیت میں تھانہ سیکریٹیریٹ میں درج ہوا۔جب ریاست کمزور پڑنے لگی تو ایوانِ عدل کی زنجیریں ہلنے لگیں ۔عمران خان کے دور کی شروعات ہی احتساب کے عمل کی شفافیت،غیرجانبداریت،قانون کی حکمرانی اور یکساں نظام مساوات سے شروع ہوئی۔سادگی،کفایت شعاری،بچت،ٹیکس وصولی،عوامی منصوبوں کا آغاز،ایوان صدر،گورنر ہائوسز تک عوام کی رسائی،مائیکرو اور میکرو فنانس کے تحت عوامی فلاح و بہبود کے پراجیکٹ کا آغاز ہوا۔اپنے ہی دو وزراء کے خلاف فیصلوں کو آئین کی بالادستی سے تعبیر کیا۔ملک کی چار بڑی یونیورسٹیز میں سیرت چیئرز کے قیام کے ذریعے نبی پاک ؐ کی سیرت سے ناطہ جوڑنے کے اقدامات سامنے آئے۔ملکی تاریخ میں پہلی پرمرتبہ دوروزہ میلاد النبیؐ کانفرنسز سرکاری سطح پر منعقد ہوئیں جہان وزیر اعظم اور صدر مملکت نے سیرت النبیؐکے انتظامی پہلوئوں پر گفتگو کی۔پاکستان کی تاریخ میں عمران خان وہ پہلا وزیر اعظم ہے جس نے ریاستِ مدینہ کے ماڈل کی بات کی ہے ۔آج عمران خان پاکستان کے مستقبل،عوام کے طرز زندگی کی بہتری،ترقی و خوشحالی اور اقوام عالم میں پاکستان کو ایک پرامن اور باوقار ملک دیکھنا چاہتا ہے۔آج تمام ریاستی ادارے پاکستان کی ترقی،بقا،خوشحالی،قیامِ امن اور عوامی حقوق کے تحفظ کیلئے ایک پیج پر ہیں۔افواجِ پاکستان نے اپنے مقدس لہو کے نذرانے پیش کر کے پاک سرزمین کو امن سے سیراب کیا اور علمی و فکری محاذ پر ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے اسلام اور پاکستان کا اصل امیج دنیا کے سامنے پیش کیا۔ضرورت اس امر کی ہے کہ قوم اداروں کے شانہ بشانہ چل کر ملک کو عظیم سے عظیم تر بنانے میں اپنا اجتماعی قومی و ملی کردار ادا کرے۔