کراچی کے قبرستان‘ مٹی میں آفتاب
پہلے بھی ایک بار حوالہ دیا تھا کہ سید سلمان ندوی کی وفات پر رئیس امروہوی نے اپنے تعزیتی قطعہ میں لکھا تھا
مدفون ہوئے آخر آغوش کراچی میں
ملت کے بزرگان ذی چشم وفلک پایہ
تو کچھ بھی نہ تھا پہلے‘ اب تجھ میں سبھی کچھ ہے
اے شہر تہی دامن‘ اے خاک گراں مایہ
اور پھر پیر علی محمد راشدی کا یہ بیان کہ انہوں نے ہادی مچھلی شہری کو اپنے نواسے کے اس استفسار پر کہ”بابا ہندوستان میں جن لوگوں کے نام سنا کرتے تھے انہیںکراچی میں اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا“ یہ کہتے سنا”بیٹا پورا ہندوستان اجڑا ہے تو کراچی بسی ہے“ جو لوگ ترک وطن کے بعد نو تخلیق مملکت خداداد پاکستان میں وارد ہوئے اپنی اپنی ذات میں انجمن تھے۔ ہر کوئی گوہر نایاب اور جوہرکمیاب تھا خود کراچی اور سندھ میں اہل علم و دانش کی کمی نہ تھی‘ سائیں جی سید‘ علی محمد راشدی‘ حسام الدین راشدی‘ پیر الہی بخش‘ شیخ عبد المجید سندھی‘ ہاشم گزدر ‘ میر الہی بخش تالپور‘حاتم علوی‘ جمشید مہتا سمیت درجنوں مزیدنام گنوائے جاسکتے ہیں جو آسمان وادی مہران پرچمکتے دمکتے تھے لیکن ہندوستان سے آنے والے بھی تعلیم و صحت‘ شعر و ادب‘ علم و ادیان عالم‘ تجارت وہند پر شعبے میں کامل و اکمل تھے کراچی کے قبرستانوں میں چلے جائیں تو ہر قبر ایک مکمل کہانی بیان کرتی ہے۔
کراچی کے بڑے قبرستان کے طور پر تو میوہ شاہ کا نام لیا جاتا ہے جہاں عیسائیوں‘ یہودیوں‘ جوہریوں‘ خوجوں کلیانے والوں اور پنجابی سوداگران سے لیکر مسلمانان پنجاب تک کم و بیشی ہر کمیونٹی کی آخری آرام گاہیں موجود ہیں لیکن اس کے سوا بھی پاپوش نگر‘ سخی حسن‘ طارق روڈ‘ عظیم پورہ‘ عیسیٰ نگری اور محمد شاہ قبرستان ہیں جہاں اپنے اپنے وقت کی نامور شخصیات مدفون ہیں۔
پاپوش نگر قبرستان میں شاعر و ادیب ابو الفضل صدیقی‘ قریشی پور‘ سلیم احمد‘ شفیع عقیل‘ بلاواحدی‘ اشتیاق اظہر‘ مقبول فرید صابری‘ ابن انشاء‘ دلاور فگار‘ اعجاز الحق قدوسی‘ محسن بھوپالی‘ ابن انشاءمدفون ہیں تو مولانا ظفر احمد عثمانی‘ابن صفی‘ نیاز فتح پور‘ ڈان کے ایڈیٹر الطاف حسین‘ بانی ایم کیو ایم الطاف حسین کی والدہ خورشید بیگم اور والد نذیر حسین کی قبرں اسی قبرستان میں ہیں ویسے ایم کیو ایم کا قبرستان شہداءیاسین آباد میں ہے اور عزیز آباد قبرستان میں اشرف صبوحی‘۔۔۔۔۔۔۔ رضی اختر شوق‘ شہیدنشتر پارک حافظ محمد تقی سمیت کتنے ہی مشاہیر سپردخاک ہیں۔سوسائٹی قبرستان طارق روڈ میں زیڈ اے بخاری‘ نواب راحت سعید چھتاری‘ پاکستان کے سابق وزیر اعظم آئی آئی چندریگر‘ جنگ کے بانی میر خلیل الرحمن‘ سخی حسن قبرستان میں رئیس امروہوی‘نعیم عارضی‘ خان آصف‘ جون ایلیا‘ میوہ شاہ قبرستان میں اس قبرستان کے بانی میوہ شاہ ان کے قدموں میں شان رسالت میں گستاخی کے مرتکب نتھورام کو واصل جہنم کرنے والے غازی عبد القیوم شہید‘ ایاز سموں‘ راگ انبالوی سمیت کتنے ہی نام ہیں۔ ویسے بہت سی شخصیات قبرستانوں سے ہٹ کر بھی خود سے منسوب اداروں میں سپردخاک ہیں مولانا سلمان ندوی‘ مولانا شبیر احمد عثمانی کے مزارات اسلامیہ کالج میں ظہور الحسن بھوپالی شہید اور ان کے والد علامہ وہاج الدین چشتی کے بنیادی مسجد لائنز ایریا‘ علامہ سیماب اکبر آبادی کامزار قائد کے مقابل میدان میں‘ علامہ عبد الحامد بدایونی‘ جامعہ تعلمیات اسلامیہ یا اورنگی ڈگری کالج بنارس‘ سندھ کے پہلے مسلمان گورنر سر غلام حسین ہدایت اللہ عید گاہ میدان مقابل جامع کلاتھ مارکیٹ‘ مولانا شاہ احمد نورانی کا مزار بابا عبد اللہ شاہ غازیؒ کلفٹن کے قدموں میں ہے۔ کراچی سے حیدرآباد کی سمت چلیں تو سپر ہائی وے جسے اب موٹر وے کہتے ہیں۔ سیدھے ہاتھ پر ایک قبرستان وادی حسین کے نام سے کمپیوٹرائزڈ‘ کیمرہ سسٹم‘ بیرون شہرہوں یا کسی اورملک میں مقیم اس کی ویب سائٹس پرجائیں کلک کریں اور قبر دیکھ کر فاتحہ خوانی کرلیں تدفین کے مناظر بھی براہ راست دیکھ سکتے ہیں اس قبرستان میںسینکڑوں اہم شخصیات مدفون ہیں ہمیں بھی یاد ہے ایک محترم سید حسن عابدی اور سینئر صحافی رفیق جابر کی تدفین وہاں ہوئی تھی عظیم پورہ قبرستان میں بھی شاہ فیصل کالونی‘ ملیر‘ رفاع عام اور الفلاح کی اہم شخصیات مدفون ہیں گورا قبرستان سے ملحق فوجی قبرستان میں پاکستان کے سابق گورنر جنرل غلام محمد‘ راشد منہاس شہید‘ سراج الدین ظفر کے مقابر ہیں۔
کراچی ایک مکمل موضوع ہے۔ سندھ کے دارالحکومت اور منی پاکستان بھی پکارا جاتا ہے لیکن توجہ کا طالب ہے اور سہولتوں کا فقدان۔ کراچی کا چہرہ کلفٹن‘ ڈیفنس‘ باتھ آئی لینڈ کی کشادہ سڑکیں‘ خوبصورت شاپنگ مالز اور چمکتے دمکتے روشن چہرے ہی نہیں‘ لیاری‘ ملیر کے گوٹھ‘ گڈاپ‘ کھارادر‘ رنچھوڑ لائن اور لائنز ایریا سمیت وہ علاقے بھی ہیں جہاں بجلی‘ پانی ‘ صحت و بلدیات کے محکموں کے ستائے ہوئے لوگ رہتے ہیں جہاں اسٹریٹ کرائمز ہیں اور آمدورفت کی مشکلات بھی لیکن اسے اپنا تا کوئی نہیں نتیجتاً مسائل بڑھ رہے ہیں‘ کوئی ہے جو اس شہر خوباں کی داد رسی کرے۔