میں نے ایک تعویذ گورنر سرور کی جیب میں ڈالا تھا ۔ قارئین نے پوچھا ہے کہ میںنے ا س تعویذ پر کیا لکھا۔ تعویذ پر میں نے ایک شعر کا یہ مصرع لکھا:
پل بنا، چاہ بنا، فیض کے اسباب بنا یہ وہ کلیہ ہے جس پر عمل کرنے سے انسان رضائے ربانی، ابدی شہرت اور قبولیت عامہ پاتا ہے۔ مجھے معلوم ہے کہ گورنر صاحب آئین کے تحت اختیارات سے محروم ہیں لیکن ایک فرد کی حیثیت سے وہ ہر اچھا کام کرنے کا اختیار رکھتے ہیں اور جب وہ سرور فائونڈیشن بھی بنا چکے ہیں اور ان کے پاس پیسہ بھی بے پناہ ہے تو پھر وہ کس گھڑی کا انتظار کر رہے ہیں۔ تھر کے ہسپتال میں پچھلے ایک ہفتے میں پندرہ بچے ہلاک ہوئے۔ چیف جسٹس ان ہلاکتوں کا نوٹس لے چکے ہیں اور گزشتہ روز انہوںنے مٹھی کا دورہ بھی کیا۔ ان کے ہمراہ سندھ کے چیف منسٹر بھی تھے، پیپلز پارٹی یہ ڈھنڈورہ پیٹ رہی ہے کہ اسے کبھی تھر سے سیٹ نہیںملی تھی لیکن اب اس نے ایسے کام کئے ہیں کہ یہاں کی سیٹیں اس نے جیت لی ہیں، ان کاموں میں گندم کی تقسیم بھی شامل ہے ۔ صاف پانی کا پلانٹ چالو کرنا بھی شامل ہے مگر وہ موت جو تھر کے بچوں کاگلا گھونٹ رہی ہے،ا س کا سد باب پیپلز پارٹی سے نہیں ہو سکا ، اس کا کہنا ہے کہ تھر میں خشک سالی ہے اور یہ ایک قدرتی آفت ہے تو کیا لاہور میں اور کراچی میں خشک سالی نہیں ہے اور کیا لاہور اور کراچی میں پانی کی کمی دور کرنے کی کوششیں نہیں کی جاتیں، اس طرح کی کوششیں تھر میںکیوںنہیں کی جاتیں، یہ کام این جی ا وز کے لئے چھوڑ دیا گیا ہے۔ وہاں الخدمت جائے، وہاں فلاح انسانیت جائے ، وہاں ڈاکٹرآصف جاہ کی کسٹمز ہیلتھ کیئر کے رضا کار جائیں اور دور دراز کے علاقوں میں میٹھے پانی کے کنویںکھودیں، ان کنوؤں کی مدد سے علاقے میں گرین فارم بنانے کا کامیاب تجربہ کریں۔
گورنر سرور کو جب میں نے ڈاکٹرا ٓصف جاہ سے ملایا اور تھر میں ان کی کوششوں کے بارے میں بتایا تو انہوں نے ڈاکٹر صاحب سے پوچھا کیا آپ کے پاس رضا کار ہیں، ڈاکٹر صاحب نے اثبات میں جواب دیا اور تھر کے مسائل پر لکھی ہوئی اپنی کتاب بھی پیش کی جس میں ان کی این جی او کے کارناموں کی تفصیلات درج ہیں، گورنر صاحب نے ہمارے گروپ کی ملاقات کے دوران پوچھا تھا کہ آج آپ کے ساتھ مسرورکیفی صاحب نہیں آئے ، میںنے بتایا کہ وہ اللہ کوپیارے ہو چکے لیکن ان کے بیٹے بلال کیفی نے والدصاحب کی یاد میں تھر میں ایک مسجد بنوا دی ہے۔ یہ مسجد بھی ڈاکٹر آصف جاہ کی تنظیم کی زیر نگرانی بنی ہے، ڈاکٹر صاحب جہاں جاتے ہیں وہاں سب سے پہلے ایک مسجد کھڑی کرتے ہیں ، پنجاب میں سیلاب ا ٓیاتو وہ جھنگ گئے اور اٹھ ہزاری میں ایک مسجد بنا دی ۔ مسجد کی تعمیر بھی ایک نیکی ہے لیکن تھر میں زیادہ تر ہندو آباد ہیں اور انہیں صاف پانی کی ضرورت ہے۔ دوائوں کی ضرورت ہے، تعلیم کی ضرورت ہے، اشیائے خوراک کی ضرورت ہے۔ڈاکٹر آصف جاہ یہ سب کام کرتے ہیں، وہ تھر میں سینکڑوں کنویں بنا چکے ہیں۔ اسکول بھی کھل رہے ہیں اور تھرکے کئی علاقوں میں ڈسپنسریاں قائم ہیں جہاں چوبیس گھنٹے علاج کی سہولت فراہم کی جاتی ہے۔ گورنر صاحب نے سب کچھ سنا اور کہا کہ وہ ڈاکٹر صاحب کے تعاون سے سرور فائونڈیشن کے منصوبوں کو تھر میں آگے بڑھائیں گے مگر میںنے گورنر ہائوس میںجو حال دیکھا ہے کہ میٹنگ پہ میٹنگ چل رہی ہے، تصویریں بن رہی ہیں،باقی کوئی کام ہوتا ہے تو گورنر نہیں چودھری سرور خاموشی سے کرتے ہیں مگر میرا خیال ہے کہ گورنر بننے سے ان کے کاموں میں سستی آ گئی ہے۔ ظاہر ہے کہ وہ میٹنگ پہ میٹنگ کریں گے تو فلاحی کام کس وقت کریں گے۔ پچھلی ٹرم میں انہوںنے بڑی تیزی دکھائی۔ سرور فائونڈیشن کے کاموں کے لئے اسٹاف بھی لندن سے لے آئے ۔ یہ اسٹاف رضاکارانہ خدمات انجام دے رہا تھا لیکن سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان میں رضا کاروں کی کمی ہے۔جب ڈاکٹر صاحب گورنر صاحب کو بتا چکے کہ ان کے پاس رضا کار ہیں اور وہ کوئی کام تنخواہ دار ملازموں سے نہیں کرواتے تو اور کس ثبوت کی ضروت ہے کہ پاکستان میں فلاحی کام رضاکار ہی کرتے ہیں۔ دو ہزار پانچ کے زلزلے میں رضاکارانہ بنیاد پر ہی کام کیا گیا، پھر سیلاب ا ٓیا تو ایک بار پھر رضاکار تڑپ اٹھے اور سیلاب زدگان کی مدد کو پہنچ گئے،انہوںنے اطمیان کا سانس تب لیا جب بے گھروں کو چھت مہیا کر دی گئی۔گورنر سرور اپنے فائونڈیشن کے کاموں میں تیزی چاہتے ہیں توکچھ منصوبے آئوٹ سورس کر دیں، جس کا کام اسی کو ساجھے، سرور صاحب کی مہارت یہ ہے کہ وہ فنڈ اکٹھا کر سکتے ہیں انہوں نے سابق برطانوی وزیراعظم گورڈن برائون سے فنڈ لیا اور صاف پانی کی فراہمی کے پراجیکٹ بنائے ، اسکول بنائے، ڈسپسنریاں بھی قائم کیں۔ اب میں ڈاکٹر محمود شوکت کو گورنر صاحب کے ساتھ ملا قات کے لئے لے گیا تو انہوںنے بتایا کہ شالا مار کے قریب ایک ہسپتال کو وہ اپنے فائونڈیشن کی نگرانی میں لے لیں۔ گورنر کے اسٹاف نے ڈاکٹر صاحب کا فون نمبر لے لیا اوراب ڈاکٹر صاحب کب تک جوابی فون کا انتظار کریں گے۔ میں سمجھتا ہوںکہ گورنر صاحب کو اپنی سرکاری ا ور نجی حیثیت میں توازن سے کام لینا چاہئے۔ سرکاری حیثیت میں ان کے لئے تیز رفتاری سے کام کرنا مشکل ہے مگر وہ نجی حیثیت میں روزانہ نت نئے کاموں میں ہاتھ ڈال سکتے ہیں، شیر شاہ سوری اگر نوٹنگ ڈرافٹنگ میں لگا رہتا تو پانچ سال میں وہ شیر شاہ سوری نہیں بن سکتا تھا،کام کرنے کے لئے تیز رفتار قوت فیصلہ درکار ہے۔گورنر صاحب میں اچھے کام کی جانکاری کی صلاحیت بدرجہ اتم موجود ہے مگر میں معافی چاہتا ہوں کہ ان کے پاس وقت کی کمی ہے، اس کمی پر قابو پانے کے لئے انہیں اپنے سرور فائونڈیشن کے کام مقامی این جی ا وز میں بانٹ دینے چاہیئں۔ نجی تنظیمیں ان کے منصوبوں کو چلانے پر توجہ دیں گی ا ور گورنر صاحب اپنی سرکاری ڈیوٹی ا دا کرنے کے لئے آزاد ہوں گے۔اگر کوئی مجھ سے توقع رکھے کہ میں تھر کے مسائل پر اسے قائل کرنے کے لئے دلائل پیش کروں تو مجھے معاف رکھا جائے،تھر میںموت کا رقص آندھی آنکھوں کو بھی نظرآ سکتا ہے، ایسے منظر بھی عالمی میڈیا میں آئے جن میں بچوں اور ان کی مائوں کی لاشوں کے انجر پنجر کو چیلیں جھنجھوڑ رہی ہیں۔ یہ دیکھ کر کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ڈاکٹر آصف جاہ کے پروفائل سے میں گورنر صاحب کو پھر آگاہ کئے دیتا ہوں ، حکومت پاکستان ان کی فلاحی ا ور انسانی خدمات پر انہیں ستارہ امتیاز پیش کر چکی ہے،۔ ڈاکٹر صاحب نے زلزلے میں کام کیا، سیلاب میں کام کیا۔۔ آواران کے زلزلہ میں کام کیا۔ ترکی میں شام کے مہاجرین کی مدد کی۔ بنگلہ دیش میں بے خانماں روہنگیا مسلمانوںکی امداد کی۔ گورنر صاحب کے پاس برائون فنڈ موجود ہے جس سے تھر میں صاف پانی کی فراہمی کا منصوبہ مکمل کیا جا سکتا ہے، چودھری سرور بلا جھجک یہ نیک کام ان کی تنظیم کے سپرد کر دیں ۔ تھر کے ہڈیاں بنے بچے ہماری طرف دیکھ رہے ہیں۔پل بنا، چاہ بنا، فیض کے اسباب بنا۔ یہ ہے وہ تعویز جو میںنے گورنر صاحب کی جییب میں ڈالا تھا۔عمل کرنا گورنر صاحب کی مرضی پر منحصر ہے۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024