بالآخر حکومت اور اپوزیشن کے درمیان چیئرمین پبلک اکائونٹس کمیٹی کی نامزدگی پر جاری 115 روزہ’’ جنگ‘‘ اس وقت ختم ہو گئی جب حکومت نے اپوزیشن کے سامنے ہتھیار ڈال دئیے اور قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر میاں شہباز شریف کو چیئرمین پبلک اکاؤنٹس کمیٹی بنانے کے مطالبہ کو تسلیم کر لیا ۔ تحریک انصاف کے ’’عقاب صفت ‘‘ رہنمائوں نے لڑائی میں شدت پیدا کر دی لیکن بالآخر حکومت کو اپنے موقف میں لچک پیدا کرنی پڑی ۔ حکومت کو 2006 ء میں میاں نواز شریف اور بے نظیر بھٹو کے درمیان ہونے والے ’’میثاق جمہوریت ‘‘ جسے عمران خان مک مکا قرار دیتے تھے، کو تسلیم کرنا پڑی ۔ حکومت نے اپوزیشن لیڈر میاں شہباز شریف کواس بات کا اختیار دیا وہ اپنی جگہ کسی اور کو کسی اور کو اس ذمہ داری پر نامزدگی اختیار دے دیا لیکن اپوزیشن نے حکومت کی اس پیشکش کو قبول نہیں کیا۔ وزیراعظم سمیت حکومت کے بیشتر ’’ہارڈ لائنر‘‘ میاں شہباز شریف کو کسی صورت چیئرمین پبلک اکائونٹس کمیٹی بنانے کے لئے تیار نہیں تھے۔ دوسری طرف اپوزیشن اپنے موقف پر ڈٹی رہی۔ حکومت نے اپوزیشن کو منقسم کرنے کی کوشش کی لیکن اپوشن کے اتحاد کے سامنے حکومت کو’’ پسپائی ‘‘ اختیار کرنا پڑی۔ وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات فواد حسین چوہدری آخری وقت پارلیمنٹ ہائوس کے باہر میاں شہباز شریف کو چیئرمین پبلک اکائونٹس کمیٹی بنانے کی مخالفت کر رہے تھے شاید وہ وزیراعظم عمران خان سے سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر اور وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی ملاقات میں طے پانے والے امور سے آگاہ نہیں تھے۔وزیراعظم عمران کا یہ واحد ’’یو ٹرن ‘‘ ہے جس کا اپوزیشن نے خیرمقدم کیا۔ سپیکر نے وزیراعظم عمران کو یہ باور کرا دیا ہے کہ میاں شہباز شریف کو چیئرمین بنائے بغیر ایوان کی کارروائی چلانا ممکن نہیں جس کے بعد وزیراعظم نے میاں شہباز شریف کو چیئر بنانے کے لئے ’’گرین سگنل ‘‘ دے دیا۔وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ نیب مقدمات کے پیش نظر اخلاقی تقاضا ہے کہ اپوزیشن لیڈر کے چیئرمین پی اے سی بننے پر ایک خصوصی کمیٹی قائم کی جائے جو مسلم لیگ (ن) کے حالیہ دور حکومت کے حسابات کی جانچ پڑتال کرے۔ وزیر خارجہ نے مجالس قائمہ کی تشکیل کے لئے حکومت اپوزیشن میں تعطل دور کرنے کے لئے متحدہ مجلس عمل سے ثالثی کا کردار ادا کرنے کی درخواست کر دی ہے۔ قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف محمد شہباز شریف نے کہا کہ نیب کے الزامات کے باوجود عمران خان نیازی وزیر اعظم بن سکتے ہیں پرویز خٹک وزیر دفاع تو پھر اپوزیشن لیڈر چیئرمین پی اے سی کیوں نہیں بن سکتے حکومتی منطق ہماری سمجھ سے بالاتر ہے۔ شہباز شریف نے کہا ہے کہ نیب اگر قیامت تک میرے خلاف آدھے پیسے کی کرپشن لے آئے تو سیاست چھوڑ دوں گا۔ نیب اور پی ٹی آئی کا چولی دامن کا ساتھ ہے ، یہ کوئی راکٹ سائنس نہیں ہے ، عقل کا اندھا بھی دیکھ سکتا ہے کہ نیب کی کارروائیاں دن رات اپوزیشن کے خلاف جاری ہیں۔ قومی اسمبلی میں متحدہ حزب اختلاف مسلم لیگ (ن) کے رکن خواجہ سعد رفیق کے پروڈکشن آرڈر جاری نہ ہونے اور احتساب کی یکطرفہ کارروائیوں پر شدید احتجاج کے بعد ایوان سے واک آئوٹ کر دیا۔سابق سپیکر سردار ایاز صادق نے واک آؤٹ کا اعلان کیا اور واضح کیا کہ خواجہ سعد رفیق کے پروڈکشن آرڈر جاری نہ ہونا جمہوریت کا قتل ہے، ہم ایوان میں نہیں بیٹھ سکتے۔ سردار ایاز صادق نے کہا کہ میں نے اپنے دور میں جمشید دستی سمیت 3 ارکان کے پروڈکشن آرڈر جاری کئے یہ سپیکر کا اختیار ہے۔ سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے کہا کہ میں کسی کی طرف نہیں دیکھتا۔ قواعد کے تحت چلتا ہوں۔ پیپلزپارٹی کے رہنما راجہ پرویز اشرف اور ایم کیو ایم کے رہنما اسد محمود نے بھی پروڈکشن آرڈر جاری کرنے کی حمایت کی۔ میاں شہباز شریف نے مطالبہ کیا کہ خواجہ سعد رفیق کے پروڈکشن جاری کر کے ایوان کو چلایا جائے۔ نیب کی چیرہ دستیوں پر مناسب وقت پر بات کروں گا فی الحال خواجہ سعد رفیق کو اس ہائوس میں لانے کا فیصلہ کیا جائے۔ سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے کہا ہے کہ کسی کو ہائوس کو روندنے نہیں دوں گا ایوان کا تقدس پامال نہیں ہونے دوںگا۔ خواجہ سعد رفیق کے پروڈکشن آرڈر کے بارے میں قانونی مشاورت کررہا ہوں اس معاملے پر کسی اور طرف نہیں دیکھ رہا ہوں۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024