جمال خشوگی ایک قصہ¿ پارینہ!
چند ہفتے پہلے تک کہا جاتا تھاکہ واشنگٹن پوسٹ کے سعودی نژاد کالم نگار جمال خشوگی کا بہیمانہ قتل امریکہ اور سعودیہ کے مابین تعلقات کو تہہ و بالا کر دے گا۔ صدر ٹرمپ کی کہہ مکرنیوں نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔ جو کبھی کچھ کہتے اور کبھی کچھ اور دو ایک بار تو قتل کا تمام تر ملبہ ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان پر ڈالتے ڈالتے رہ گئے۔ یہ ایک ہائی پروفائل قتل ہے جس کی پُراسراریت سے پردے جانے کب اور کیسے اُٹھیں گے۔ جمال خشوگی کے قتل پر بیان بازی بہت ہو چکی اور شاید مطلوب و متوقع نتائج بھی حاصل ہوچکے۔ اب اسے بتدریج ٹھنڈا کرکے بین الریاستی معاملات کو نارملائزیشن کی طرف لے جانے کیلئے اقدامات کئے جا رہے ہیں اور واشنگٹن میں یہ سوچ غالب آرہی ہے کہ خشوگی کے قتل کو غیر ضروری طورپر کھینچنے سے امریکہ‘ سعودیہ تعلقات کے علاوہ آل سعود کے اقتدار کو بھی ناقابل تلافی نقصان پہنچ سکتا ہے اور ایسا نہ ہو کہ واشنگٹن کی سخت گیری سے تنگ آکر ریاض ماسکو اور بیجنگ کی جھولی میں جاگرے۔
فی الحقیقت سعودیہ اور امریکہ کے باہمی مفادات کچھ اس طور جڑے ہوئے ہیں کہ دونوں الگ راہوں کے متحمل نہیں ہوسکتے۔ سعودیہ تیل برآمد کرنے والا دنیا کا سب سے بڑا ملک ہے جس کی زیادہ تر کھپت امریکہ میں ہوتی ہے اور دونوں ملکوں میں یہ سوچ تیزی سے غالب آرہی ہے کہ کسی بھی قسم کا اپ سیٹ کسی کے بھی مفاد میں نہیں۔ خطہ کی بگڑتی ہوئی صورتحال کے علی الرغم اگر ایران تیل کی برآمد میں کمی کر دیتا ہے تو یہ اضافی بوجھ اٹھانے کی سکت بھی صرف سعودیہ میں ہے جس کا مظاہرہ ماضی میں متعدد بار ہو چکا۔دوسری طرف سعودیہ امریکی ہتھیاروں کا ایک بڑا خریدار اور ساڑھے چودہ بلین ڈالر کی خریداری اس وقت بھی پراسس میں ہے اور پھر سعودیہ نے بھی امریکی سکیورٹی بانڈز کی خاصی خریداری کررکھی ہے اور اس وقت بھی اس کے 167 بلین ڈالر کے سکیورٹی بانڈز امریکی خزانہ میں پڑے ہیں۔ مزیدبراں امریکی سلیکون ویلی میں بھی سعودیہ نے ساڑھے چھ بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔ غیرجانبدار تجزیہ نگاروں کے مطابق مذکورہ بالا انویسٹمنٹ کے علاوہ اور بھی بہت کچھ ہے جس کا مکمل حساب کتاب چنداں آسان نہیں۔
خطہ میں ایران کے اثرورسوخ کو روکنے اور اس کے انقلابی پروگرام کو محدود کرنے کیلئے بھی امریکہ کے نزدیک ”سٹیٹس کو“ کا علمبردار سعودیہ ایک بہترین چوائس ہے۔ کم و بیش یہی حکمت عملی اسرائیل کی بھی ہے کہ خطہ میں توازن برقرار رکھنے کیلئے بوقت ضرورت ایران کے مقابلے میں سعودیہ کےساتھ کھڑا ہونا زیادہ مناسب رہے گا۔ خطہ کی سیاست میں دلچسپی رکھنے والوں کو اس حقیقت کا بھی احساس ہے کہ سعودیہ کی اصل طاقت مسلمانوں کے مقدس ترین مقامات مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کی تولّیت ہے اور سعودیہ کے ساتھ کسی قسم کا معاملہ کرتے وقت اس حقیقت کو پیش نظر رکھنا از بس ضروری ہے۔ سعودیہ‘ امریکہ تعلقات کی استواری کو یہ روایت بھی تقویت بخشتی ہے کہ ان کی بنیاد امریکی صدر روز ویلٹ اور سعودیہ کے موجودہ حکمران کے والد شاہ عبدالعزیز نے 1945ءمیں نہر سویز میں امریکی نیول شپ پر ایک ملاقات میں ذاتی طورپر رکھی تھی اور اس شگون کا احترام آج بھی کیا جاتا ہے۔ اس قربت کی وجہ بھی سعودی آئل بنا تھا۔ امریکہ کو دوسری عالمی جنگ کے دوران تیل کی شدید ضرورت تھی جو سعودیہ کے پاس وافر مقدار میں موجود تھا۔
سعودیہ‘ امریکہ کے قدیمی اور مضبوط تعلقات کا مظاہرہ 1979ءمیں افغانستان پر روسی یلغار کے دوران بھی ہوا اور دونوں اتحادیوں نے جہادی دستوں کی تخلیق اور بھرپور وسائل مہیا کرنے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ امریکہ اور سعودیہ کے تعلقات کی اس قدر گہرائی و گیرائی اور خطہ کے انتہائی گھمبیرحالات و واقعات کے علی الرغم پاکستانی قیادت کو پھونک پھونک کر قدم رکھنے کی ضرورت ہے اور اپنی حیثیت اور اختیارسے بڑھ کر بات نہیں کرنا چاہئے۔ جو سفارتی حلقوں میں معیوب ٹھہرے اور جگ ہنسائی کا سبب بنے۔ مالی اعانت کیلئے سعودیہ جانے کے موقع پر جناب وزیراعظم نے بعض غیرملکی صحافیوں کےساتھ غیر رسمی بات چیت کی تھی جسے برطانیہ میں چلنے والی ویب ساٹ Middle East Eye (MEE) نے موصوف کے ایکسکلوسیو انٹرویو کے طورپر پیش کیا تھا جس کی صدائے بازگشت دنوں تک صحافتی حلقوں میں موجود رہی جس میں جمال خشوگی کے قتل کے بارے میں جناب وزراعظم کے مبینہ کمنٹس کو یوں پیش کیا گیا ”ترکی میں جو کچھ ہوا‘ افسوسناک تھا۔ سعودی حکومت کو جواب دینا ہوگا۔ ہم منتظر ہیں کہ وہ کیا کہتے ہیں۔ لوگوں کو مطمئن کرنے کیلئے وہ ضرور کوئی وضاحت کریںگے۔“ عالمی میڈیا کے علاوہ جس کی صدائے بازگشت مودی میڈیا میں سنائی دی۔ اندازہ فرمایئے کہ یہ وہ موقع تھا جب جناب وزیراعظم مالی اعانت کی غرض سے سعودیہ جا رہے تھے۔
بے شک مذکورہ ویب سائٹ نے پیشہ ورانہ اخلاقیات سے تجاوز کیا اور ایک پرائیویٹ گفتگو کو انٹرویو کے طورپر پیش کیا مگر جناب وزیراعظم اور متعلقہ سٹاف کو بھی احتیاط کرنا چاہئے تھی۔ حکمرانوں کو بعض اوقات دل کی بات کرنا پڑتی ہے۔ بالخصوص انٹیلی جینشیا اور میڈیا کے ساتھ کیونکہ وہ کسی بھی موضوع پر ایک طرح کی برین سٹارمنگ ہوتی ہے مگر ایسے میں ضروری ہوتا ہے کہ آغاز ہی میں متعلقہ مواد کو ”آف دی ریکارڈ“ قرار دیدیا جائے ورنہ ”اہل جفا“ تو ہوتے ہی موقع کی تلاش میں ہیں اور ان کی کہی ہوئی باتوں کو موقع بہ موقع لیڈرز کے سامنے لاکر انہیں آک ورڈ پوزیشن میں ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں۔ مانا کہ اس قسم کے بلکہ اس سے بھی سخت کمنٹس بعض دیگر عالمی رہنماﺅں کی طرف سے بھی آئے مگر سعودیہ کے ساتھ ان کے تعلقات کی نوعیت مختلف قسم کی ہے اور وہ پاکستان کی طرح مالی بحران کا شکار ہیں اور نہ اعانت کے طلبگار۔
ریاض سے واپسی پر جناب وزیراعظم نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ سعودیہ اور اس کے علاقائی حریفوں کے مابین پاکستان ثالثی کا کردار ادا کرے گا۔ یمن اور ایران کا بالخصوص ذکر ہوا کہ پاکستان انہیں مذاکرات کی میز پر لانے کی کوشش کرے گا جو موجودہ حالات میں یقینا چنداں آسان نہیں۔ کیا جملہ متحارب طاقتیں پاکستان کو ثالثی کا کردار سونپنے کو تیار ہیں؟ کیونکہ اس کے بغیر تو بیل منڈھے چڑھنے سے رہی۔ دوسری اہم بات یہ کہ جن طاقتوں نے شطرنج کی بساط بچھائی اور ایک سازشی عمل کے ذریعے خطہ کو اس نوبت تک پہنچا دیا‘ کیا وہ کھیل کو منطقی انجام تک پہنچائے بغیر پیچھے ہٹ جائیں گے؟ اور زمام کار کسی اور کے ہاتھ جاتے ہوئے برداشت کر لیں گے؟ اور وہ بھی پاکستان جیسا ملک جس کے ساتھ بعض طاقتوں کے اپنے پھڈے ہیں‘ یہ بالکل وہی بات ہے جس کی کوشش نوازشریف سرکارنے بھی کی تھی مگر عملی طورپر کچھ نہیں ہو رہا تھا۔ کیا اب بھی وہ تاریخ دہرائی جائے گی؟