خلیج تعاون کونسل اجلاس کا احوال
قطر پورے قد سے سرخرو کھڑا ہے اور عظمت دھیمے مزاج کے منسکرالمزاج امیر قطر شیخ تمیم التھانی پر ٹوٹ ٹوٹ کر برس رہی ہے جسے قطری والہانہ پن میں المجد، سلطان عالیشان کے لقب سے یاد کرتے ہیں محاصرے کرنے والے دعوت نامے بھیج رہے ہیں برادر قرار دے رہے ہیں اقتصادی پالیسیوں کی تعریفیں کر رہے ہیں۔
قطر کے محاصرے کو ایک سال گذر چکاہے۔ بحری ‘ بری اور فضائی ناکہ بندی جاری ہے چند ماہ پہلے آل سعود نے اعلان کیا کہ ھم قطر کو جزیرہ بنا دیں گے کہ تین اطراف سے سمندر میں گھرے ہوئے قطر کا زمینی رابطہ صرف سعودی عرب کے ذریعے ہے۔اپریل 2018 میں سعودی حکام نے سعودی عرب قطرسرحد پر 60 کلومیٹر طویل اور 200 میٹر چوڑی نہر کھودنے کا اعلان کیا تھا۔جس پر 75 کروڑ ڈالر لاگت آئے گی اور اس کے ایک حصے میں ایٹمی فضلہ رکھنے کا گودام قائم کیا جائے گا اس مجوزہ نہر کی تکمیل کے بعد قطر مکمل طور پر جزیرہ بن جائے گا اور اس کا واحد زمینی رابطہ ہمیشہ کےلئے کٹ جائے گا۔اب تو یہ ذہنوں سے محو چکا ہے لیکن 6 خلیجی ریاستوں کے ساتھ جنوبی ایشیا سے مالدیپ نے بھی قطر کا بائیکاٹ کرنے کا اعلان کیا تھا۔قطر کے جواں سال امیر نے مطالبات کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا جس کے بعد قطر کا مکمل مقاطعہ کردیا گیا جس پر ایران اور ترکی نے کھل کر قطر کا ساتھ دیا۔
خلیج تعاون کونسل کا اجلاس جدہ میں ختم ہوگیا۔ اجلاس میں قطری بحران کا بطور خاص تو کوئی ذکر نہیں ہوا البتہ اجلاس کے اختتام پر جاری مشترکہ اعلامیہ میں ’اتحاد‘ پر زوردیاگیا۔ قطری ترجمان نے قطر کی ناکہ بندی پر بات نہ کرنے اور اس مسئلہ کو حل نہ کرنے پر تنقید کی۔اجلاس کے بعد سعودی وزیر خارجہ عادل الجبیر نے کہاکہ قطر اور جی سی سی ارکان کے درمیان ملٹری آپریشنز، تربیت، سکیورٹی اور وزارتی تبادلوں کے ضمن میں تعاون جاری ہے۔ کونسل کے ارکان قطر کے ساتھ بحران کے خاتمے کے لئے پرعزم ہیں، اس کا کونسل پرعمومی یا ڈھانچہ جاتی کوئی منفی اثر نہیں ہے۔ سلامتی کے حوالے سے انہوں نے کہاکہ فوجی کاروائیاں، تربیت کا سلسلہ جاری ہے اور صحت اور تجارت سمیت مخصوص وزارتوں کا جہاں تک تعلق ہے، ان میں بھی تعاون جاری ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ مقصد یہ ہے کہ بحران کے خاتمے تک جو جلد ہی ہوگا، یہ تمام اہم سٹرکچرز محفوظ رکھے جائیں۔
سعودی شاہ سلمان نے اپنے خطاب میں بتایا کہ اجلاس کا مقصد ’کوآرڈینیشن کونسل‘ کا قیام اور سیاسی، ترقیاتی اور عسکری ہم آہنگی واشتراک کی حکمت عملی اختیار کرنا ہے۔ ایران خطے کے ممالک کے امور میں مداخلت جاری رکھے ہوئے ہے۔ خطے میں مصالحت کا روایتی کردار یعنی کویت نے خلیج میں میڈیا مہمات کو روکنے کی ضرورت پر زور دیا۔جی سی سی اجلاس میں خشوگی قتل کیس سے نبردآزما ہونے کے لئے سعودی اقدامات کی حمایت کی گئی۔ مشترکہ اعلامیہ میں فلسطین کے نصب العین کی حمایت کی گئی اور یمن میں جنگ کا سیاسی حل تلاش کرنے پر زور دیاگیا۔ 2025تک معاشی اتحاد کو یقنی بنانے کے لئے کام کرنے پر رکن ممالک نے اتفاق کیا۔
دہشت گردی کی حمایت کے الزام کے تحت جون2017ءمیں سعودی عرب، بحرین، متحدہ عرب امارات اور مصر نے قطر کی ناکہ بندی کی تھی۔ قطر اس الزام کو مسترد کرتے ہوئے یہ مو¿قف رکھتا ہے کہ یہ بائیکاٹ اس کی خودمختاری پر ضرب لگانے کے لئے ہے۔اجلاس میں امیر قطر شیخ تمیم بن حمد شریک نہیں ہوئے، ان کی جگہ قطری وزیر مملکت برائے خارجہ امور سلطان بن سعد الوریخی کی قیادت میں وفد نے اجلاس میں شرکت کی۔ امیر قطر کی غیر حاضری پر بحرین کے وزیر خارجہ شیخ خالد بن احمد الخلیفہ نے تنقید کی کہ ”امیر قطر کو محاصرے کرنے والی ریاستوں کے جائز مطالبات تسلیم کرکے جدہ اجلاس میں شرکت کرنا چاہئے تھی۔“ دوہا نے اس کو مسترد کردیا۔ قطری دفترخارجہ کے ڈائریکٹر احمد بن سعید الرومیہی نے یاد دلایا کہ ”قطر اپنے فیصلے خود کرسکتا ہے اور گزشتہ سال کویت اجلاس میں قطر نے شرکت کی تھی جبکہ خلیج تعاون کونسل کے محاصرہ کرنے والے ممالک نے بائیکاٹ کیا تھا“۔گزشتہ سال کویت سمٹ میں شیخ تمیم نے شرکت کی تھی جنہیں اس سال سعودی عرب نے مدعوکیا لیکن اس کے باوجود وہ شریک نہ ہوئے۔ تنازعہ شروع ہونے کے بعد پہلی بار سعودی فرمانروانے انہیں باضابطہ دعوت نامہ ارسال کیاتھا۔ تجزیہ کار اس اقدام کو محض ضابطے کی کاروائی قرار دے رہے ہیں۔کونسل کے ایجنڈے کو بھی عام نہیں کیاگیا البتہ یہ خیال کیاجارہا ہے کہ قطر کو دعوت دے کر دیگر ممالک نے دنیا کو یہ تاثر دینے کی کوشش کی ہے کہ ”فیصلہ قطرپر ہے“۔ قطر نے بھی اس صورتحال کو سمجھتے ہوئے ایک وفد بھیج کر یہ پیغام دیا کہ وہ کونسل سے الگ نہیں۔
قطر یہ دعوت نامہ مکمل طورپر مسترد کردیتا تو بائیکاٹ کرنے والے ممالک قطر پر یہ الزام دھر دیتے کہ وہ کونسل میں بیٹھنے اور مذاکرات کے لئے آمادہ نہیں۔ وفد بھیجنے سے یہ ظاہر ہوا کہ حکومت قطر براہ راست بات چیت پر کسی ہچکچاہٹ کا شکار نہیں۔ دوسری جانب قطر کے پاس یہ موقع بھی میسر رہا کہ وہ کونسل میں اپنے دفاع کے علاوہ الزامات کا براہ راست جواب دے سکے۔
ماہ رواں کے آغاز میں امیر قطر اپنے اس افسوس کااظہارکرچکے ہیں کہ عرب ریاستوں میں تنازعہ جاری ہے البتہ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ تنازعہ گزرجائے گا۔خلیج تعاون کونسل سیاسی قوت نہ رکھتے ہوئے بھی سیاسی تعاون یا اشتراک کے حوالے سے ایک مو¿ثر فورم ہے۔ سعودی عرب اور قطر دونوں کو اس فورم میں شرکت سے فائدہ ہوتا ہے۔ اسی طرح کا ایک فائدہ ’ویلیو ایڈڈ ٹیکس‘ عرف عام میں ویٹ کا ہے۔ اس ٹیکس کے نفاذ کا مقصد خلیجی ریاستوں کے بجٹ خساروں پر کمی کرنے میں مدد اور تیل پر انحصار سے ہٹ کر وسائل کی فراہمی ہے۔ سعودی عرب چاہے گا کہ 2019ءمیں قطر ویٹ پر عمل درآمد کرے تاکہ سعودی عرب کو اپنی مالی ضروریات پوری کرنے کے لئے ایک جواز میسرآسکے۔
اس مرتبہ یہ اجلاس ایک ایسے موقع پر ہوا جب سعودی عرب صحافی امین جمال خشوگی کے قتل پرعالمی دباﺅ میںہے۔ اسی دباﺅ کا نتیجہ ہے کہ سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے گزشتہ ماہ مفاہمتی انداز اپناتے ہوئے قطر کی معیشت کی تعریف کی تھی۔ یمن میں جاری جنگ پر بھی سعودی عرب کو مشکلات کا سامنا ہے۔تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ جنگ یمن اور اس میں شہریوں کی ہلاکت سے سعودی عرب میں عوام کی رائے متاثر ہورہی ہے۔
کونسل کے اجلاس پر ماہرین کا تجزیہ یہ تھا کہ سعودی عرب خلیج میں تنازعہ کے حل کے لئے مذاکرات کا عمل شروع کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتا۔ سعودی عرب اور قطر دونوں کے مفاد میں ہے کہ وہ کونسل کے رکن رہیں۔جب سے یہ بحران شروع ہوا ہے قطر نے نئے سٹرٹیجک اتحادی بنائے ہیں ان میں سب سے اہم ترکی ہے۔ شیخ تمیم نے حال ہی میں یہ انکشاف کیا ہے کہ گزشتہ سال قطر کی برآمدات 18 فیصد بڑھی ہیں اور اس نے اپنے اخراجات میں 20 فیصد کمی کی ہے۔ یہ ایک بڑا پیغام ہے۔ بائیکاٹ کی صورت میں قطر کو جس مشکل میں ڈالنا مقصود تھا، معلوم ہوا کہ اس سے قطر کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑا، اس کے برعکس اس کی معاشی صحت بہتر ہوگئی ہے جس سے اس کی پوزیشن مزید مضبوط ہوگئی ہے اور قطر پورے عرب خطے میں ایک نئے طاقتور ملک کی حیثیت سے ابھر کرسامنے آیا ہے۔ جو سعودی عرب اور بائیکاٹ کرنے والے ممالک کے لئے کوئی اچھی خبر نہیں ہوسکتی۔
قطر کی شوریٰ کونسل سے خطاب کرتے ہوئے امیر قطر نے کہاکہ ان کا ملک تیل اور گیس کی صنعتوں کو ترقی دیتارہے گا اور مائع گیس دنیا میں برآمد کرنے والے ملک کی حیثیت سے وہ اپنا سرفہرست کردار ادا کرتا اور مزید بہتر بناتا رہے گا۔
گذشتہ برس یہ کالم نگار ڈیوس جاتے اور واپسی پر دوہا رکا تھا۔ دوہا کی روایتی گہما گہمی پر محاصرے کے اثرات نہ ہونے کے برابر تھے جواں سال امیر قطر تمیم التھانی المجد کے دیو قامت بورڈ جابجا آویزاں تھے۔دوہاسر شام روشنیوں میں نہا جاتا ہے کوچہ و بازار پر رونق ہیں۔ کہیں محاصرے کے نشان تک دکھائی نہیں دیتے۔ اک نیا جہان آباد و شاد باد ہے۔ قدیم طرز تعمیر کا نمونہ’سوق واقف’ میں سر شام روایتی عرب چوپالیں آباد ہو جاتی ہیں۔ قہوہ شیشہ اور دنیا جہان کے کھانے سج جاتے ہیں، جہاں توفیقہ آپا کا بیٹا سینٹرسیف الرحمن خان اپنی ذاتی سلطنت بنائے ہوئے بروئے کار ہے اور وہ خدائی پکڑ میں آئے ہوئے شریف برادران کا چوتھا بھائی سمجھا جاتا تھا۔