جمعة المبارک ‘ 6 ربیع الثانی 1440 ھ ‘ 14 دسمبر 2018ء
گوگل سرچ میں بشریٰ بی بی پہلے نمبر پر‘ عمران خان انسٹاگرام پر فعال عالمی رہنماﺅں میں دوسرے نمبر پر آگئے
تحریک انصاف کی حکومت نے کسی اور میدان میں ترقی کی یا نہیں کی‘ مگر گوگل سرچ اور انسٹا گرام کا میدان ضرور مار لیا ہے۔ گوگل سرچ میں پاکستان کی خاتون اول بشریٰ بی بی کے بارے میں جاننے کیلئے سب سے زیادہ سرچ ہوئی۔ کہتے ہیں جو چیز چھپی ہو‘ اس کے بارے میں جاننے کا شوق زیادہ ہی ہوتا ہے۔ یہ انسانی فطرت ہے۔ بشریٰ بی بی کو وزیراعظم سے شادی سے قبل کوئی نہیں جانتا تھا۔ ان کی شادی بھی غیر متوقع طورپر ایسے حالات میں ہوئی کہ خود پاکستانیوں کو اس بارے میں کچھ پتہ نہیں چلا۔ بشریٰ بی بی سراپا حجاب ہوتی ہیں۔ سرکاری تقریبات میں شرکت سے بھی اجتناب کرتی ہیں اس لئے پاکستانی ہی نہیں‘ دنیا بھر کے لوگ ان کے بارے میں جاننے کے شائق ہیں۔ اسکے ساتھ ہی حیرت کی بات یہ ہے کہ ریحام خان اسی فہرست میں چوتھے نمبر پر ہیں۔ بہرحال بشریٰ بی بی سے شادی کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوا کہ عمران خان صاحب وزیراعظم بن گئے۔ یوں ہر بڑے آدمی کے پیچھے ایک عورت کے ہونے والی بات بھی درست ثابت ہوئی۔ انسٹاگرام کا میدان البتہ خان صاحب کے ہاتھ رہا۔جہاں وہ عالمی سطح کے رہنماﺅں کے مقابلے میں دوسرے نمبر ہیں جو نہایت فعال ہیںاور انسٹاگرام پر متحرک رہتے ہیں۔ اتنی مصروفیات کے باوجود خان صاحب کی انسٹاگرام پر فعالیت قابل دید ہے جس کی وجہ سے وہ وکٹری سٹینڈ پر دوسرے نمبر پر کھڑے ہیں۔ یہ ان کی تر دماغی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
....٭....٭٭....٭....
روپے کی قدر میں کمی کا فیصلہ خود کیا: وزیرخزانہ اسد عمر
روپے کی قدر میں کمی پر جو طوفان اُٹھا‘ ڈالر کی پرواز نے جس طرح زمانے کو چونکا دیا۔ اس وقت تو سب کو سانپ سونگھ گیا تھا۔ کسی نے اخلاقی جرا¿ت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس کی ذمہ داری اپنے سر نہیں لی۔ سارا بوجھ غریب دے بال یعنی سٹیٹ بنک کے صدر پر ڈال دیا گیا۔ سب نے متحد ہوکر اپنی اپنی دھوتی بچانے پر زور دیا۔ روپے کی بے قدری کا ذمہ دار سٹیٹ بنک کے مدارالہام کو قرار دیدیا گیا۔ لوگ تو اسی وقت چوکنا ہو گئے تھے کہ یہ بری الذمہ ہونے کی کوشش بے سبب نہیں۔ اس کے پیچھے ضرور کوئی راز و نیاز ہے مگر اتنی دھول اڑائی گئی کہ اصل منظر نظروں سے غائب ہو گیا۔ اب جب دھول بیٹھی‘ لوگوں کے حواس بحال ہوئے تو ہمارے وزیرخزانہ نے ایک بار لوگوں کی سٹی گم کر دی ہے۔ فرماتے ہیں روپے کی قیمت میں کمی کا فیصلہ خود کیا تھا۔ اب یہ خود سے کیا مراد ہے۔ وزیراعظم تواس فیصلے سے لاعلمی ظاہر کر چکے ہیں۔
کیا وزیرخزانہ کو علم نہیں کہ ”باس ہمیشہ صحیح ہوتا ہے۔“ (Boss is Always Right) تو پھر کیسے ممکن ہے کہ باس غلط کہہ رہے ہوں اور انکے وزیر صحیح۔ اب وزیرخزانہ خود تسلیم کر رہے ہیں کہ آئی ایم ایف کے حکم سے پہلے ہی روپے کی قدر کم کی۔ گیس کی قیمت اور شرح سود میں اضافہ کر دیا تاکہ وہ ظالم رام ہو۔ اب آئی ایم ایف سے قرضے کیلئے کیاایک بار پھر عوام کو ہی کند چھری سے ذبح کیا جائے گا۔تب بھی یہی لاعلمی کا ڈھول بجایا جائے گا جس کی بعد میں تردید بھی ایسے ہی کی جائے گی۔
....٭....٭٭....٭....
یہ عہدہ میرے شایان شان نہیں، وفاقی پارلیمانی سیکرٹری پٹرولیم راجہ ریاض مستعفی ہو گئے
بات کچھ اور ہے جس کی وجہ سے راجہ صاحب مستعفی ہوئے ہیں۔ وجہ کچھ کچھ انہوں نے خود بھی دبے لفظوں میں بتا دی ہے کہ وہ پنجاب میں سینئر وزیر رہ چکے ہیں، یعنی بعد از وزیراعلیٰ ان کا درجہ ہوتا تھا۔ پھر اپوزیشن رہنما کا عہدہ جلیلہ بھی ان کے پاس رہا ہے۔ ظاہر ہے اب ایک ایسا بے معنی سا عہدہ انہیں کہاں جچتا ہوگا۔ مگر اتنا اہم فیصلہ اتنی تاخیر سے کرناکچھ کھٹک سا رہا ہے، یہ تو
بہت دیر کی مہربان ”جاتے جاتے“
کہاں آ گئے ہم کہاں جاتے جاتے
والی بات ہے۔ اگر یہ عہدہ ان کی مرضی اور منشا کے بغیر ان کے سر تھوپا گیا توانہوں نے اسی وقت یہ بوجھ اپنے سر سے اتار کر کیوں نہ پھینکا ، بلاوجہ اسے لئے ہوئے پھرتے رہے اور لوگوں کی باتیں سنتے رہے کہ ایسے بے معنی عہدے کا کیا کرنا۔ سواب راجہ جی کی آنکھ کھلی اور انہوں نے استعفے دے دیا۔ کہتے ہیں وزیراعظم نے انہیں اعتماد میں لئے بغیر یہ عہدہ دیا ۔انہوں نے اسے قبول کیسے کر لیا۔ کیا اس وقت یہ شایان شان تھا جو اب نہیں ہے۔ معلوم نہیں حکمران جماعت میں باہمی رابطہ کی کمی ہے یا افرا تفری ہے کہ کسی کوکچھ معلوم نہیں ہوتا کہ کیا ہو رہا ہے۔ یہ تو ایک تماشہ ہے جو لگا ہوا ہے اورلوگ دیکھ رہے ہیں۔
....٭....٭٭....٭....
بھارت جس روز اسلامی ملک بنا قیامت آ جائے گی۔ میگھالے ہائیکورٹ کے جج کی ہرزہ سرائی
حیرت کی بات ہے اتنا لا علم شخص ہائی کورٹ کا جج کیسے بھرتی ہو گیا جو اپنے مہان بھارت کی تاریخ سے بھی لاعلم ہے۔ مہاراج کو یاد نہیں یا وہ یاد رکھنا نہیں چاہتے کہ قیامت تو ہزار سال قبل اس وقت آ گئی تھی جب بھارت میں پہلا مسلم حکمران تخت وتاج کا مالک بنا تھا۔ پھر چل سو چل انگریزی سامراج کے قیام تک کم و بیش ایک ہزار سال تک بھارت میں خلجی‘ غوری‘ تغلق غلاماں لودھی اور کبھی مغل بادشاہوں کی حکومت رہی یہ سب مسلمان تھے اور ان کے دور میں بھارت مسلمانوں کے زیرنگیں رہا۔ انگریزوں نے بھی بھارت کی حکومت مسلمانوں سے چھینی۔ بھارت کے چپے چپے پر مسلم حکمرانوں کی چھاپ اندھے کو بھی نظر آ جاتی ہے۔ حیرت ہے ایک جج جو دماغ بھی رکھتا ہے دو آنکھیں اور دو کان بھی اسے کچھ نظرنہیں آتا اور وہ ایسے احمقانہ خیالات کا اظہار کرتا ہے۔ اب اسے لوگ عقل کا اندھا نہیں کہیں گے تو اور کیا کہیں گے۔ سچی بات ہے تعصب بری بلا ہے۔ یہ کوئی حقیقت تسلیم کرنے کی راہ پر آنے نہیں دیتا۔اب یہی تعصب میگھالے کے یہ جج دکھا رہے ہیں۔ انہیں حوصلہ رکھنا چاہئے نجانے کب ایک بار پھرکوئی قیامت بھارت پر ٹوٹ پڑے اور لال قلعے پر پھر کوئی سبز پھریرا لہراتا ہوا نظر آئے کیونکہ جج صاحب اتنا تو جانتے ہوں گے کہ قیامت اچانک ہی ٹوٹ پڑتی ہے اور لال قلعہ بھی تو مسلمانوں کا ہی بنایاہوا ہے۔