مشترکہ اقتصادی راہداری پاکستان اور چین کے دفاع کی بھی ضمانت بنے گی
آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا ہے کہ پاک فوج سرحدوں کے دفاع کیلئے مکمل طور پر پرعزم ہے‘ داخلی صورتحال بہتر ہونے سے بیرونی سرمایہ کاری کی راہ ہموار ہوئی ہے اور راستے کھل گئے ہیں۔ ملک میں سکیورٹی کی صورتحال بہتر ہو رہی ہے۔ اس سلسلہ میں گزشتہ روز پاک فوج کے شعبہ¿ تعلقات عامہ کی جانب سے جاری کئے گئے اعلامیہ کے مطابق آرمی چیف نے گدرا سیکٹر سندھ میں اگلے مورچوں کا دورہ کیا۔ اس موقع پر انہوں نے جوانوں کی پیشہ ورانہ تیاریوں اور بلند حوصلے کو سراہا۔ انہوں نے تھرکول پراجیکٹ کا بھی دورہ کیا۔ اس موقع پر انہیں مختلف منصوبوں پر ہونیوالی پیش رفت پر بریفنگ دی گئی۔ آرمی چیف نے اس موقع پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ تاجروں اور صنعت کاروں کو محفوظ ماحول کی فراہمی یقینی بنائیں گے۔ قبل ازیں ایئرڈیفنس سنٹر کراچی کے دورہ کے موقع پر آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا کہ دہشت گردی کیخلاف جنگ میں آرمی ایئرڈیفنس کا کردار لائق تحسین ہے۔ انہوں نے پی اے ایف کے اپریشنل بیس کے دورہ کے موقع پر پاک چین بین الاقوامی فضائی مشق شاہین 7 کا معائنہ کیا اور فضائی مشق کے بھرپور انعقاد پر پاک فضائیہ اور پیپلز لبریشن آرمی ایئرفورس کی کوششوں کو سراہا۔ انہوں نے پاکستان چین مثالی تعلقات کو سراہتے ہوئے کہا کہ اس مشق سے پاکستان اور چین کے مابین دوستی مزید مضبوط ہوگی اور مزید فروغ پائے گی۔ انہوں نے اس موقع پر لیفٹیننٹ جنرل حمودالزمان کو کرنل کمانڈ آف آرمی ایئرڈیفنس کور کے بیجز لگائے۔
اس ارض وطن کی سلامتی کو اسکے شاطر دشمن بھارت کی جانب سے شروع دن سے ہی جو خطرات لاحق رہے ہیں اور ابھی تک یہ خطرات ہمارے سروں پر منڈلا رہے ہیں‘ اگر جری و بہادر افواج پاکستان نے ہمہ وقت اپنی فعالیت کا مظاہرہ نہ کیا ہوتا اور اس مکار دشمن کو ٹھوس جواب دے کر اسکی سازشیں ناکام نہ بنائی ہوتیں تو اس میں کوئی دورائے نہیں کہ اپنی مذموم منصوبہ بندی کے تحت بھارت کب کا ہمیں ہڑپ کرچکا ہوتا۔ دفاع وطن اور دشمن کی چالیں ناکام بنانے کی منظم حکمت عملی میں ہماری افواج کا دنیا میں کوئی ثانی نہیں اور اقوام متحدہ کی امن مشن فورس میں موجود پاک فوج کے دستے کی مشاقی اور حربی صلاحیتوں کی پوری دنیا معترف و قائل ہے۔ چونکہ تشکیل پاکستان کے ساتھ ہی ہمارا بھارت کی مذموم سازشوں سے واسطہ پڑ گیا تھا جو اس ارض کی سلامتی کے شروع دن سے ہی درپے ہوگیا تھا جس کی متعصب ہندو قیادت نے یہ بڑ بھی ماری تھی کہ اقتصادی اور دفاعی طور پر کمزور پاکستان اگلے چھ ماہ میں ہی بے بس ہو کر واپس ہماری جھولی میں آگرے گا ‘اس لئے دفاع وطن کی خاطر افواج پاکستان کی اہمیت بھی شروع دن سے ہی اجاگر ہوگئی تھی۔ جب بھارت نے پاکستان کی سلامتی کیخلاف اپنی سازشی منصوبہ بندی کے تحت خودمختار ریاست کشمیر پر چڑھائی کی جس کا تقسیم ہند کے ایجنڈا کے تحت پاکستان کے ساتھ الحاق نوشتہ¿ دیوار تھا تو بانی¿ پاکستان قائداعظم نے بے سروسامانی کے باوجود افواج پاکستان کی دفاع وطن کیلئے فعالیت کو جانچ کر ہی اسکے انگریز کمانڈر انچیف جنرل ڈگلس گریسی کو کشمیر میں بھارتی فوج کی چڑھائی روکنے کیلئے اپنی افواج داخل کرنے کا حکم دیا مگر جنرل گریسی نے بھارت کے ساتھ سازباز کی بنیاد پر اس جواز کے تحت کشمیر میں افواج پاکستان داخل کرنے سے انکار کر دیا کہ وہ اپنے برطانوی فوجی سربراہ کے احکام کے تابع ہیں۔ اگر جنرل گریسی قائداعظم کے احکام کی تعمیل کرتے ہوئے افواج پاکستان کشمیر میں لے جاتے تو وہ اپنی حربی استعداد و صلاحیتوں کو بروئے کار لا کر بھارتی فوجوں کو اسی دن کشمیر سے بھگا دیتیں۔ اس طرح بھارت کا کشمیر پر کبھی تسلط قائم نہ ہوپاتا اور نہ ہی کبھی کشمیر کا تنازعہ پیدا ہوتا۔ افواج پاکستان نے اس مکار دشمن کو بہرحال ستمبر 1965ءمیں ناکوں چنے چبوائے اور اسکی جنگ مسلط کرنے کی سازش نہ صرف ناکام بنائی بلکہ بھارتی فوج کو ہزیمت سے دوچار کیا۔
یہی بھارت 1962ءمیں چین کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرتے ہوئے اروناچل پردیش کے معاملہ میں اسکے ساتھ تنازعہ کھڑا کرچکا تھا اور اس نے کشمیر ہی کی طرح اروناچل پردیش میں بھی اپنی افواج داخل کرکے اس پر اپنا تسلط جمانے کی کوشش کی مگر چینی سخت جاں افواج نے بھارتی فوجوں کے چھکے چھڑا دیئے اور انہیں پسپا کرکے اپنے ملک فرار کا راستہ دکھایا۔ اگرچہ بھارت آج بھی چین کیخلاف جارحانہ عزائم رکھتا ہے مگر اروناچل پردیش میں اٹھائی گئی ہزیمت کی بدولت اسے چین پر جارحیت کے ارتکاب کی آج تک جرا¿ت نہیں ہوسکی مگر پاکستان کی سلامتی اسے ایک آنکھ نہیں بھاتی اور اس نے قیام پاکستان کے وقت سے ہی اسکی سلامتی کیخلاف سازشوں کے جال بچھانے شروع کردیئے تھے۔ انہی سازشوں کے ماتحت اس نے پاکستان پر 65ءکی جنگ مسلط کی اور اس سے منہ کی کھانے کے باوجود پاکستان کی سلامتی کیخلاف اپنی سازشوں کا سلسلہ برقرار رکھا چنانچہ انہی سازشوں کے ماتحت پاکستان کی اندرونی کمزوریوں سے فائدہ اٹھا کر اس نے 71ءکی جنگ مسلط کی جس میں وہ اپنی پالتو عسکری تنظیم مکتی باہنی کی معاونت سے پاکستان کو سقوط ڈھاکہ کے سانحہ سے دوچار کرنے میں کامیاب ہوگیا۔ اسکے باوجود افواج پاکستان نے ہمت نہیں ہاری اور باقیماندہ پاکستان کی سلامتی کے تحفظ کیلئے کمر کس لی جبکہ پاکستان کی حکومتی سیاسی قیادتوں نے بھی دفاع وطن کے تقاضے نبھانے میں کوئی کسر نہ چھوڑی جنہوں نے افواج پاکستان کو دفاعی لحاظ سے مضبوط بنایا اور پاکستان کو ایٹمی قوت سے ہمکنار کیا جس کے باعث ہمارے اس مکار دشمن کو پاکستان پر دوبارہ جنگ مسلط کرنے کی تو جرا¿ت نہیں ہوئی مگر وہ اسکی سلامتی کیخلاف نت نئی سازشوںکے تانے بانے بنتا رہتا ہے جبکہ اب امریکی آشیرباد حاصل ہونے کے بعد اسکے حوصلے مزید بلند ہوگئے ہیں اور وہ امریکہ کے ساتھ جنگی‘ دفاعی اور جدید و روایتی ہتھیاروں کے حصول کے معاہدے کرکے پاکستان کی سلامتی کو آئے روز چیلنج کرتا اور اس پر سرجیکل سٹرائیکس کی بڑ مارتا رہتا ہے۔ وہ بدمست ہاتھی کی طرح چین کی سلامتی کیخلاف بڑ مارنے سے بھی باز نہیں آتا چنانچہ پاکستان اور چین کے مفادات ایک دوسرے کی سلامتی کے تحفظ کے معاملہ میں بھی ایک دوسرے کے ساتھ جڑ گئے ہیں۔
امریکہ نے تو پاکستان کو اپنا فرنٹ لائن اتحادی بنانے کے باوجود اسکے ساتھ ہمیشہ طوطاچشمی کی ہے اور اسکے برعکس اسکے ازلی دشمن بھارت کے ہاتھ ہمیشہ مضبوط بنائے ہیں جبکہ اب پاکستان چین اقتصادی راہداری کی کامیاب تکمیل کی بنیاد پر امریکہ کو بھی اس خطے میں اپنے مفادات پر زد پڑتی نظر آرہی ہے اس لئے اس نے بھارت کو علاقے کی تھانیداری سونپ کر اسکے ذریعے اپنے مفادات کے حصول کی ٹھانی ہوئی ہے چنانچہ آج پاکستان چین دوستی روایتی دوستی اور محض تجارتی تعلقات سے علاوہ ایک دوسرے کے ساتھ سٹریٹجیکل تعاون تک بھی وسیع ہوگئی ہے۔ چونکہ روس‘ ایران‘ ترکی اور اس خطے کے دوسرے ممالک کے مفادات بھی سی پیک کے ساتھ منسلک ہوچکے ہیں اس لئے پاکستان کا دفاع مضبوط کرنا خطے کے تمام متعلقہ ممالک کی ضرورت بن چکا ہے۔ اسی تناظر میں روس کے ساتھ بھی پاکستان کی مشترکہ فوجی مشقیں ہوچکی ہیں اور اسی طرح ترکی‘ ایران اور سعودی عرب کے ساتھ بھی دفاعی تعاون کے معاہدے کئے گئے ہیں جس کی ضرورت امریکہ بھارت گٹھ جوڑ کے باعث ملک کی سلامتی کیلئے بڑھتے ہوئے خطرات کے تناظر میں محسوس کی گئی۔ اسی بنیاد پر چین کے ساتھ پہلے بھی بری‘ فضائی اور بحری مشترکہ مشقیں ہوتی رہی ہیں اور اس وقت بھی پاکستان چین مشترکہ فضائی مشقیں جاری ہیں جن کے ذریعے بھارت اور امریکہ دونوں کو یہ ٹھوس پیغام مل رہا ہے کہ اس خطے میں انکے جارحانہ عزائم کبھی کامیاب نہیں ہو سکیں گے۔
چونکہ آج امریکہ اور بھارت دونوں سی پیک کو سبوتاژ کرنے کے درپے ہیں اور اسی تناظر میں وہ پاکستان کی سلامتی کیخلاف بھی اپنی سازشوں کا سلسلہ برقرار رکھے ہوئے ہیں اس لئے آج ملک کی سلامتی کے تحفظ کی خاطر افواج پاکستان کے ہمہ وقت فعال اور مستعد و چوکس رہنے کی ضرورت ہے جس کیلئے حوصلہ افزاءصورتحال اس لئے پیدا ہوئی کہ آج پوری قوم‘ تمام ریاستی ادارے اور سول و عسکری قیادتیں ایک پیج پر ہیں جو باہمی اشتراک و یگانگت سے دفاع وطن کے ہر تقاضے سے عہدہ برا¿ ہورہی ہیں اور عملی پیش رفت جاری رکھے ہوئے ہیں۔ یقیناً سی پیک کی کامیاب تکمیل کی خاطر ملک میں امن و آشتی کی فضا کا مستحکم ہونا ضروری ہے اس لئے عساکر پاکستان کی فعالیت اور بھی ضروری ہو گئی ہے جو امن و آشتی کی خاطر دہشت گردوں سے نبردآزما ہونے کے ساتھ ساتھ ملک کی سرحدوں پر بھی کڑی نظر رکھے ہوئے ہیں۔ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی سندھ میں گزشتہ روز کی سرگرمیاں اسی سلسلہ کی کڑی ہیں جس سے یقیناً دشمن کو بھی یہ ٹھوس پیغام جائیگا کہ وہ ہماری سلامتی کی جانب میلی آنکھ سے دیکھنے کی بھی جرا¿ت نہ کرے بصورت دیگر اس کیلئے اپنی سلامتی کو بچانا بھی مشکل ہو جائیگا۔