سانحہ پشاور کو دو برس بیت گئے لیکن زخم آج بھی تازہ ہیں۔۔۔’’نونہالوں کا عزم ‘‘
مظہر حسین شیخ
سانحہ پشاور کو دوبرس بیت گئے،آرمی پبلک سکول میں جو پاکستان کی تاریخ کا بد ترین سانحہ پیش آیا تھا آج بھی پوری قوم اس پرغم زدہ ہے اور ابھی تک یہ زخم تازہ ہیں۔دہشت گرد اس سے قبل اور بعد میں بھی متعدد مرتبہ خودکُش حملے اور دھماکے کر چکے ہیں جبکہ پاک فوج نے اس پر بڑی حد تک قابو پا لیا اور ان کے عزائم کو خاک میں ملا دیا، یہ بھی ٹھان لی ہے کہ آخری دہشت گرد کو ختم کرنے تک چین سے نہیں بیٹھیں گے۔
اب تک ہزاروں بے گناہ شہید ہو چُکے ہیں ان میں بچے بھی شامل ہیں،دو برس قبل 16 دسمبر کی صبح دہشت گردوں نے خاص طور پر ننھے منے پھولوں کو ٹارگٹ بنایا۔ ایک سو بتیس بچوں کو شہید کر دیا گیا اس واقعہ پر پورے ملک میں ہی نہیں پوری دنیا میں کہرام مچ گیا۔دہشت گردی کے دوران کیا منظر ہو گا؟ یہ ذہن میں آتے ہی دل خون کے آنسو روتا ہے۔ شہید پرنسپل طاہرہ قاضی نے جرأت کا مظاہرہ کرتے ہوئے بچوں کوبچانے کی بہت کوشش کی ،ان سے التجا بھی کی کہ ان معصوم بچوں کو کچھ مت کہو ان پر رحم کرو ان معصوموں نے آپ کاکیا بگاڑا ہے، لیکن ان درندوں نے ایک نہ سُنی اور پرنسپل کو بھی شہید کر دیادہشت گردوں کی درندگی کا منظر کتنا خوفناک ہو گا، ننھے منے بچے اُس وقت کس قدر خوفزدہ ہوئے ہوں گے، معصوم بچے تو بلند آواز بولنے سے بھی سہم جاتے ہیں گولیوں کی تڑتڑاہٹ سے کس قدر خوف ذدہ ہوئے ہوں گے۔ کوئی کرسی کے نیچے چھپنے کی کوشش میں تھا توچیخ و پکار کر رہا تھاکئی اپنی جان بچانے کے لئے بھاگے ۔اس واقعہ کے بعد سکول کا اندرونی منظر دیکھ کر کپکپی طاری ہو گئی اور آنکھوں سے آنسو بہنے لگے ۔ یہ سیاہ ترین دن تھا ملک میں تین روز کا سوگ منایا گیاآج اس سانحہ کو دو برس گزر گئے لیکن زخم ا بھی تک نہیں بھرے، ایک ننھی بچی حولہ جس کا سکول میں پہلا دن تھا پانچ سالہ بچی کو اس کے بھائی کے سامنے شہید کر دیا گیااس بھائی پر کیا بیتی ہوگی جس نے سارا منظر اپنی آنکھوں سے دیکھا۔سکول کا ماحول دیکھ کرہر آنکھ اشک بار تھی اس سانحہ کے دوران کوئی کہتا تھا کہ ایک اور سقوط ڈھاکہ کا واقعہ پیش آ گیا، کسی کا کہنا تھا کہ پاکستان میں بھی نائن الیون کا واقعہ پیش آ گیا، لیکن حقیقت یہ ہے کہ دنیا کا ہولناک واقعہ ریاست پاکستان میں پیش آیا کیونکہ جنگوں میں بھی ایسا نہیں ہوتا ان کے بھی اصول ہوتے ہی۔ سول آبادی پر بمباری نہیں کی جا سکتی، جنگی قیدیوں کو نہیں مارا جا سکتا 16دسمبر کا واقعہ دنیا کی تاریخ کا سب سے بڑا المیہ ہے۔ کیونکہ پوری دنیا میں کوئی مذہب بھی بچوں پر ظلم وتشدد کی اجازت نہیں دیتا۔
یوں تو ہر کسی کا دل اس واقعہ کا سوچ کر خون کے آنسو روتا ہے لیکن ننھے منے بچے آج بھی اس دلخراش واقعہ پر پریشان ہیں،انہیں اپنے دوستوں سے بچھڑنے کا بہت دُکھ ہے، بچے شہداء کی یاد میں اب بھی شمع جلاتے دکھائی دیتے ہیں اور نئے عزم کے ساتھ پُر جوش ہیں ان کا عزم یہ ہے کہ وہ بڑے ہو کر ڈاکٹر نہیں بلکہ فوجی آفیسر بنیں گے اوراپنے شہید بھائیوں کا انتقام لیں گے،سانحہ 16دسمبر کودو برس گزرنے کو ہیں، لیکن زخم ابھی تک تازہ ہیں ظالموں نے ننھے منے بے گناہ بچوں کو شہید کر دیا،ہر زبان پر یہی سوال جنم لے رہا ہے۔ بچو ں پر ظلم، تشدد یا وار کرنا کہاں کی بہادری ہے؟ ’’حیوانوں‘‘ نے یہ سمجھا کہ بچوں میں بھی دہشت، وحشت پھیلا کر انہیں خوفزدہ کر دیں گے،لیکن یہ سمجھنا ان کی سب سے بڑی غلط فہمی ہے ،اس واقعہ کے بعد جب سرکاری و غیر سرکاری ادارے کھلے تو بچوں کا جوش و جذبہ دیدنی تھا۔ وہ بالکل خوفزدہ نہ تھے ۔اب بچے نئے جوش و جذبے اور عزم کے ساتھ میدان میں نکلیں گے۔ اب سب بچوں کا ایک ہی خواب ہے کہ وہ فوجی بنیں گے وہ ضرور پورا ہوگا،وہ بڑے ہو کر اپنے بے گناہ بھائیوں کا انتقام لیں گے۔ اب ہر بچہ فوج میں بھرتی ہونا چاہتا ہے۔ تاکہ پیارے وطن پاکستان کو اس گند سے صاف کیا جائے۔ بے شک یہ کام پاک فوج ضرب عضب کی صورت میں کررہی ہے اور کامیابیاں حاصل کر رہی ہے۔ لیکن اس وقت بچوں کا نیا عزم جوش اور جذبہ بھی دیکھنے کے قابل ہے۔ بچے قول کے سچے ہوتے ہیں جو ارادہ کرلیں اسے پورا کرتے ہیں۔
حکومت بچوں کے تحفظ کے لیے دن رات محنت کررہی ہے اور خوف و ہراس کی فضا کو ختم کیے بغیر قوم کوئی منزل نہیں حاصل کرسکتی لہذا ہم سب اپنے فرائص خلوص نیت اور محنت سے سرانجام دیں۔سانحہ پشاور انسانی تاریخ کا نہ صرف المناک و افسوسناک واقعہ ہے بلکہ اسے اگر وحشیانہ پن اور درندگی کا ایک بھیانک مظاہرہ کہا جائے تو زیادہ مناسب ہو گا۔ کلیوں جیسے ننھے و معصوم بچوں کو جس بے دردی اور انتہائی ظالمانہ طرز پر شہید کیا گیا، دنیا میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ درندوں نے ماؤں کے لخت جگروں کو چھین لیا جن تمناؤں کو وہ اپنے دلوں میں سمائے ان کی راہ تکتے نہیں تھکتی تھیں۔ شہید بچے اپنے بلند تر مقام پر پہنچ گئے کہ جسکی ہر مجاہد اپنے دل میں آرزو رکھتا ہے۔ علم کے حصول اور اس کے پھیلاؤ میں جس نے جان دی اس کا رتبہ بھی بلند ہوا۔ ہمارے ننھے و معصوم بچے جنہیں علم کے حصول سے روکنے کے لیئے ایسی وحشیانہ کاروائی کی گئی۔ وہ ایک نئے جذبے اور ولولے کے ساتھ اپنی کتابیں اور کاپیاں اپنے ننھے ننھے ہاتھوں میں تھامے اسی جگہ اور اسی مقام پر ہیں جہاں ان کے ساتھی طالب علموں کو درندگی و سفاکی کا نشانہ بنایا گیاتھا۔ ننھے طالب علم اس وحشیانہ کاروائی کے سامنے نہ جھکے اور نہ جھکیں گے۔ ان ننھے مجاہدوں کا جذبہ آج بھی وہی ہے بلکہ اس سے بھی کہیں زیادہ، سکول کی رورنقیں بحال کر کے ان ننھے مجاہدین نے ان بزدلوں کو پیغام دیا ہے کہ علم کی راہ میں آنے والی ہر رکاوٹ و قوت کو علم کے نور سے پاش پاش کر دیں گے اور اس وقت تک اپنا سفر جاری رکھیں گے جب تک اپنی منزل حاصل نہیں کر لیتے۔ پوری قوم ان شہیدوں کو سلام پیش کرتی ہے اور ان نو نہالوں کو سیلورٹ کرتی ہے جنہوں نے اسکول کی رونقیں بحال کرتے ہوئے اپنے پختہ عزم و ارادے کا کھلم کھلا اظہار کر کے کروڑوں بچوں کے سر فخر سے بلند کر دیئے اور قوم کے حوصلوں کو جلا بخشی۔