آج کل سیاست میں ہی نہیں، دینی معاملات میں بھی الفاظ واپس لئے جاتے ہیں۔ الفاظ واپس لینے کیلئے مختلف اصطلاحیں موجود ہیں۔ انکو استعمال کرنے کیلئے مختلف مواقع ہوتے ہیں۔ بس جیسا منہ ویسی چپیڑ۔ ہماری دانست میں چند ایک مروجہ اصطلاحات یہ ہیں، یوٹرن لینا، معافی مانگنا، کہہ کر مُکر جانا، تھوک کر چاٹنا، تردید کرنا، جواز دینا لیکن ان میں سب سے زیادہ ہمیں اس شعر کا استعمال اچھا لگتا ہے:
شب کو مے خوب سی پی صبح کو توبہ کر لی
رند کے رند رہے ہاتھ سے جنت نہ گئی
کونسی اصطلاح کس کے لئے استعمال کی جائے، کب کی جائے یہ اس پر منحصر ہے کہ آپ کا تعلق کس پارٹی سے ہے یا آپ کس مسلک کے ہیں یا یوٹرن لینے والے شخص سے کیسا تعلق ہے۔ اچھے تعلقات ہیں تو کہیں گے ’’اپنی غلطی کا اعتراف کرتے ہوئے معافی مانگ لی، یہ ہے بڑا پن‘‘ یا ’’ایسا کچھ کہا ہی نہیں تھا‘‘ یا ’’تردید تو کر دی‘‘ ۔۔۔ بُرے تعلقات ہیں تو ۔۔۔ ’’دیکھا تھوک کر چاٹ لیا‘‘ یا ’’یہ تو ہے ہی یو ٹرن کا ماہر‘‘ ۔۔۔ اگر طنز کرنا ہوا تو کہہ دیا ’’ہاں بھئی ان کا تو یہ حال کہ رند کے رند رہے، ہاتھ سے جنت نہ گئی۔‘‘
جب سے میڈیا کے کیمروں کے علاوہ۔ موبائل کیمرے، پین میں نصب کیمرے عام ہوئے ہیں تو کہہ کر مُکرنے میں کمی ہوئی ہے لیکن کچھ ڈھیٹ بھی ہیں جو پوری پوری وڈیو کو جھٹلا دیتے ہیں کہ یہ آئوٹ آف کونٹیکٹس ہے یا کہہ دیتے ہیں یہ تو پرانی بات ہوئی۔بہرحال سب چل رہا ہے۔ معافی بھی مانگتے ہیں یوٹرن بھی لینے والے موجود ہیں۔ تھوک کر چاٹنے والے بھی عنقا نہیں۔ اپنے بیانات کی تردید کرنیوالے بھی شرمندہ نہیں ہوتے۔ ایسے بھی ہیںجو اپنی حماقت کو ڈھٹائی سے اپناتے ہوئے اس کا جواز دینے لگتے ہیں۔ ان جیسوں کیلئے کہہ سکتے ہیں ’’عذرگناہ بد تر ازگناہ‘‘اگر یہ خوبیاں ہیں تو یہ خوبیاں ہمارے سیاستدانوں (یہ خوبیاں حقیقی لیڈر میں نہیں ہوتیں کیونکہ وہ تولتا پہلے ہے بولتا بعد میں ہے۔ وقت کیساتھ یا حالات کے بدلنے پر مؤقف کا بدلنا اس زُمرے میں نہیں آتا)، نام نہاد دینی رہنمائوں، میڈیا سے وابستہ افراد اور میڈیائی دانشوروں میں بدرجہ اتم موجود ہیں۔ رہ گئے عوام تو ان کیلئے کچھ لوگوں کا خیال ہے یہ ایک ہی سوراخ سے ڈسے جانے میں خوش ہیں لیکن ہمارا خیال عوام کے بارے میں ذرا مختلف ہے ہم لگی لپٹی نہیں رکھتے کیونکہ ہم یہ مانتے ہیں کہ ’’مجھے ہے حکم اذاں لا الہ الا للہ‘‘ اس لئے ببانگ دہل کہتے ہیں کہ اگر بیوقوفوں کے سینگ ہوتے تو ہمارے عوام ’’بارہ سنگاہ‘‘ کہلاتے کیونکہ یہ ایک ہی سوراخ سے ڈسے جانے کے باوجود نہیں سدھرتے۔ اگر کسی نام نہاد مولانا پیر یا مذہبی سکالر کو پسند کر لیا تو بغیر دلیل اس کی ہر بات پر سر تسلیم خم کر دیتے ہیں۔ اب چاہے آپ اس دینی رہنما کی نشے کی حالت والی ویڈیو دکھا دو، یا توہین رسالت، توہین صحابہ، توہین قرآن کرنے کے ثبوت مہیا کر دو یہ نہیں مانیں گے۔ ہاں! یہ باتیں اگر دوسرے مسلک کے رہنما یا غیر مسلم نے کی تو فتوے صادر ہو جائیں گے کہ واجب القتل ہے، چاہے وہ یوٹرن لے لے، الفاظ واپس لے لے، معافی مانگ لے، تردید کر دے، جواز پیش کرے، لاکھ کہے کہ میرے بیان کو سیاق و سباق سے علیحدہ کر کے رپورٹ کیا ہے۔ یہ مانیں گے نہیں۔ اگر اجازت ہو تو دو چار مثالیں بھی دیکھ لیتے ہیں جن سے ثابت ہو گا کہ ملک دشمن سیاستدانوں کی وطن دشمنی کو قوم کیسے نظر انداز کرتی ہے۔ اپنے مسلک کے اشخاص کی توہین رسالت، توہین دین،گستاخی صحابہ کو کیسے نظر انداز کرتے ہیں۔ایک خود ساختہ عالم آن لائن جو خیر سے جعلی ڈاکٹریٹ کا بھی حامل ہے ایک مجلس میںگستاخی صحابہ کا مرتکب ہوا۔ جب سوشل میڈیا سے دبائو پڑا تو یوں معافی مانگی ’’اگر میرے بیان سی کسی کی دل آزاری ہوئی ہو تو معافی چاہتا ہوں‘‘ اور عوام نے فراخ دلی سے معاف ہی نہیں کیا بلکہ اسکے پروگراموں کی ریٹنگ بھی بڑھ گئی۔ یہاں تک کہ کئی ’’جید علمائ‘‘ فخریہ اسکے پروگراموں میں شریک ہو کر اسکے عالم ہونے کی اسکے منہ پر تعریف بھی کرتے ہیں۔ایک خطیب مولانا کو نہ جانے کیا سوجھی کہ حضرت عائشہؓ کی کم سنی بتانے کیلئے ہاتھ کے اشارے سے بھی بتایا بہت چھوٹی تھیں۔ ہم معترض ہی نہیں ہوئے بلکہ ایک کالم میں دلائل کیساتھ ثابت کیا کہ آپؓ کی عمر 19 اور 21 برس کے درمیان تھی۔ یہ ہی وجوہات ہیں جن کی وجہ سے ایک مردود ہندو نے ’’رنگیلا رسول‘‘ لکھی اور ڈنمارک کے ایک کارٹونسٹ نے کارٹون بنائے، ملعونہ تسلیمہ اور ملعون سلمان رشدی نے کتابیں لکھیں۔ سمجھ نہیں آتی کہ کیا مولانا اس ایشو کو چھیڑے بغیر تبلیغ کا کام سر انجام نہیں دے سکتے۔ یہ مضمون جب ہم نے فیس بُک پر لگایا تو عقل اور دلیل کو چھوڑ کر مولانا کے حامیوں نے ہم سے گِلہ شروع کر دیا۔ ہم نے کہا بھی کہ بھائی یہ کیوں نہیںدیکھتے کہ ایسے ہی بیانات کی وجہ سے دشمن اسلام فائدہ اٹھاتے ہیں لیکن اندھی تقلید کا کیا کیا جائے۔ اگر اس ہی وقت مولانا کی پکڑ کر لی جاتی تو آج ان کے ایک اور ساتھی کو جو خیر سے گانا بجانا چھوڑ کر دینی روش اپنا چکے ہیں یہ جسارت نہ ہوتی کہ حضرت عائشہؓ پر ایسی تہمت لگائے جو مسلمانوں کو سخت نقصان پہنچا سکتی ہے۔ ان صاحب نے معافی مانگ لی ہے لیکن ہمارے خیال سے یہ کافی نہیں کیونکہ اس پر مقدمہ چلنا چاہئے کیونکہ یہ سہواً نہیں دکھائی دیتا۔ اس نے بی بیؓ پر تہمت لگائی کہ آپؓ جھوٹ موٹ بیماری کابہانہ کیا کرتی تھیں تاکہ حضور پاکؐ کی توجہ حاصل کر سکیں۔ غور کریں شاید سب سے زیادہ احادیث بیان کرنیوالی پر یہ تہمت تو پھر ان احادیث کی کریڈیبلیٹی پر انگلیں نہیں اٹھیں گی۔ ہمارے ایک سیاستدان نے سر پرکپڑا ڈال کر اچکزئی کی نقل اتاری تھی تو ہم نے غصے میںاسے بُرا بھلا لکھ دیا تھا جبکہ اس نے تو عظیم ماںؓ کی جھوٹی نقل اتارنے کی کوشش کی کہ آپ سر پر کپڑا ڈال کرجھوٹ موٹ ہائے ہائے کر رہی تھیں (استغفراللہ) اسکے بعد آپؓ کے منہ سے جو الفاظ حضور پاکؐ کیلئے کہلوائے وہ ہم لکھنے سے قاصر ہیں۔ یقین جانئے اگر یہ کام کسی کافر نے کیا ہوتا تو اب تک گرفتار ہو چکا ہوتا۔ ہم نے جب اپنے غصے کا اظہار سوشل میڈیا پر کیا تو وہی ہوا جس کا خدشہ تھا۔ کمینٹ آنے لگے سر! آپ سے پہلی بار ہمیں اختلاف ہے۔ شکر ہے کسی نے گالی گلوچ نہیں کی۔ سیاست میں بھی یو ٹرن اور معافیاں عام ہیں بلکہ ایک نئے سیاستدان کی وجہ سے ہی یو ٹرن کی ٹرمنالوجی عام ہوئی، جس نے ریٹائرڈ چیف جسٹس اور عدالتوں پر میڈیا میں الزام لگائے جو ہم نے کیا سب نے سُنے لیکن جب عدالت نے بلوایا تو ان کانوں نے یہ سنا کہ ’’میں نے عدالت نہیں ریٹرننگ افسران کو کہا تھا۔‘‘ پھر عدالت سے معافی بھی مانگ لی۔ بعد میں پھر وہی کام شروع کر دیا۔کچھ دن پہلے اس نے کہا کہ میں 16 دسمبر کو پاکستان بند کر دوں گا۔ جب یاد دلایاگیا کہ یہ تو سقوط ڈھاکہ کی تاریخ ہے تو 18 تاریخ دیدی۔ پھر یو ٹرن لے لیا کہ بند نہیں کرنا بلکہ احتجاج کرنا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں یہ سب کچھ سہواً نہیں ہو سکتا کیونکہ تسلسل سے دیکھ رہے ہیں۔ 14 اگست کا دن منتخب کر کے اس دن کی اہمیت کم کی۔ مجیب الرحمٰن کی نقل میں چھ نکاتی مطالبہ ترتیب دیا۔ پہیہ جام کی بجائے پاکستان بند کرنے کی اصطلاح استعمال کی اور تاریخ بھی سقوط ڈھاکہ والی لیکن قوم جاگ رہی ہے اس لئے یوٹرن لینا پڑا۔یو ٹرن، معافی، تردید ، مُکرنے، تھوک کر چاٹنے کا ایک فائدہ یہ ہے کہ جو کہنا ہے سو کہہ دیا۔ پوری دنیا کو پیغام چلا گیا تو اب معافی مانگ لو، یو ٹرن لے لو۔ تردید کر دو اس کا یہ فائدہ ہوگا کہ جنہوں نے پہلے نہیں سُنا وہ اب دیکھ لیں گے:
رند کے رند رہے ہاتھ سے جنت نہ گئی
خطِ غربت کی جانب بڑھتے ایک کروڑ انسانوں کا مستقبل؟۔
Apr 16, 2024