رفیق غوری ۔۔۔
آزاد کشمیر میں حالیہ انتخابات کے بعد جناب وزیر بیگ نے سپیکر کی حیثیت سے جمعتہ المبارک کے روز حلف اٹھا لیا۔ سید مہدی شاہ جنہیں قائد ایوان چنا گیا ہے پہلے وزیر اعلیٰ کا حلف قائم مقام گورنر کے گلگت بلتستان پہنچنے کے بعد اٹھا لیا ہے۔ حالیہ انتخابات کے اعلان کے ساتھ ہی وزیر اطلاعات پاکستان جناب قمر الزمان قائرہ نے آزاد کشمیر کے گورنر کی ذمہ داریاں سنبھال لی تھیں فی الوقت تو نہیں کہا جا سکتا لیکن اندازے اور قیافے سے محتاط انداز میں کام لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اب آزاد کشمیر میں گورنر اور وزیر اعلیٰ بنا کرے گا۔ جہاں تک ہمیں یاد پڑتا ہے آزاد کشمیر کے پہلے صدر میر واعظ یوسف تھے۔ ان کے بعد کے۔ ایچ خورشید صدر بنے۔ کے۔ ایچ خورشید مرحوم سے کون آگاہ نہیں مرحوم نے بانی پاکستان حضرت قائداعظم کے ساتھ تحریک پاکستان کے دوران اور اس کے بعد کے دنوں میں کام کرنے کا اعزاز حاصل کیا۔ کشمیر جو بانی پاکستان کے خیال میں پاکستان کی شہ رگ ہے کا صدر بننا کے۔ ایچ خورشید کا ایسا اعزاز ہے جو ہر کسی کو حاصل نہیں ہوتا۔
سردار عبدالقیوم خان جو اپنے ایام جوانی میں کشمیر کی آزادی کے لئے لڑتے رہے ہیں جن کا یہ دعویٰ ہے کہ انہوں نے کشمیر کی آزادی کے لئے نیلابٹ کے مقام پر پہلی گولی چلائی تھی بعد میں مجاہد اول کئی مرتبہ صدر اور وزیراعظم منتخب ہوئے سردار عبدالقیوم کی پیرانہ سالی میں ان کے فرزند سردار عتیق احمد خاں نے آزاد کشمیر کے وزیراعظم کی حیثیت سے کام کیا۔ اب پھر نیا سیٹ اپ بن رہا ہے اللہ کرے کشمیر پورے کا پورا جلد آزاد ہو سکے نتیجہ میں گلگت بلتستان کا اپنا گورنر، اپنا وزیر اعلیٰ، اپنی اسمبلی بن رہی ہے کہ پاکستان کے پہلے وزیراعظم خان لیاقت علی خان شہید کے ارمان پورے ہوں۔ اس موقع پر کافی باتیں یاد آ رہی ہیں جن میں سے بہت سی شرمناک، دردناک اور المناک ہیں۔ کوشش ہے کہ ایسی غم ناک باتیں تاریخ میں تو رہیں اور ان سے رہنمائی بھی لی جائے مگر رہنمائی لیتے وقت سنہری باتوں کو ذہن میں رکھا جائے تو اچھا ہے۔ دردناک یا شرمناک واقعات کو نہ دہرایا جائے۔ انسان ہوں یا قومیں وہ غلطیاں کرتے ہی ہیں اور اپنی غلطیوں سے ہی سیکھتے ہیں لیکن یہ زندہ قوموں کا چلن نہیں ہوتا کہ ہر مرتبہ ایک ہی غلطی دہرائی جائے۔ زندہ رہنے، آگے بڑھنے، باوقار ہونے کے لئے غلطیوں کو دہرایا نہیں جاتا۔ زندہ قومیں ایک غلطی دوسری بار نہیں کرتیں اور دوسری مرتبہ نئی غلطی کی جائے اس نئی غلطی سے فائدہ اٹھایا جائے، سبق حاصل کیا جائے تو ایسا کرنے کو تجربہ کہا جا سکتا ہے۔ ہمارے رہنماﺅں اور ہماری قوم نے آزادی کے بعد جہاں بہت ساری غلطیاں کی ہیں وہیں بہت کچھ حاصل بھی کیا ہے کانٹے سے کہوٹہ تک کا سفر ایک ہی مثال دے کر آگے بڑھتے ہیں اب ضرورت اس امر کی ہے کہ آزاد کشمیر ہی نہیں وطن عزیز پاکستان میں بھی پرانی غلطیاں نہ دہرائی جائیں۔
یہ بات ٹھیک ہے کہ ہمیں اب سبق حاصل ہو جانا چاہئے اور سوچ لینا چاہئے کہ پرانی غلطیوں کو دہرانے کی اب گنجائش نہیں ورنہ تو ہماری حالت زار کی ایک پرانے فلمی گانے کے بول ہی صحیح عکاسی کرتے رہیں گے
لے آئی پھر کہاں پر قسمت ہمیں کہاں سے
یہ تو وہی جگہ ہے گزرے تھے ہم جہاں سے
صوبہ گلگت، بلتستان کے بنائے جانے پر آزاد کشمیر کو جن تحفظات کا احساس ہے اس کا بھی احساس کیا جائے اور ہمارا کارواں پھر سے ٹھیک طریقے سے جادہ پیماں ہو جائے۔
آزاد کشمیر میں حالیہ انتخابات کے بعد جناب وزیر بیگ نے سپیکر کی حیثیت سے جمعتہ المبارک کے روز حلف اٹھا لیا۔ سید مہدی شاہ جنہیں قائد ایوان چنا گیا ہے پہلے وزیر اعلیٰ کا حلف قائم مقام گورنر کے گلگت بلتستان پہنچنے کے بعد اٹھا لیا ہے۔ حالیہ انتخابات کے اعلان کے ساتھ ہی وزیر اطلاعات پاکستان جناب قمر الزمان قائرہ نے آزاد کشمیر کے گورنر کی ذمہ داریاں سنبھال لی تھیں فی الوقت تو نہیں کہا جا سکتا لیکن اندازے اور قیافے سے محتاط انداز میں کام لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اب آزاد کشمیر میں گورنر اور وزیر اعلیٰ بنا کرے گا۔ جہاں تک ہمیں یاد پڑتا ہے آزاد کشمیر کے پہلے صدر میر واعظ یوسف تھے۔ ان کے بعد کے۔ ایچ خورشید صدر بنے۔ کے۔ ایچ خورشید مرحوم سے کون آگاہ نہیں مرحوم نے بانی پاکستان حضرت قائداعظم کے ساتھ تحریک پاکستان کے دوران اور اس کے بعد کے دنوں میں کام کرنے کا اعزاز حاصل کیا۔ کشمیر جو بانی پاکستان کے خیال میں پاکستان کی شہ رگ ہے کا صدر بننا کے۔ ایچ خورشید کا ایسا اعزاز ہے جو ہر کسی کو حاصل نہیں ہوتا۔
سردار عبدالقیوم خان جو اپنے ایام جوانی میں کشمیر کی آزادی کے لئے لڑتے رہے ہیں جن کا یہ دعویٰ ہے کہ انہوں نے کشمیر کی آزادی کے لئے نیلابٹ کے مقام پر پہلی گولی چلائی تھی بعد میں مجاہد اول کئی مرتبہ صدر اور وزیراعظم منتخب ہوئے سردار عبدالقیوم کی پیرانہ سالی میں ان کے فرزند سردار عتیق احمد خاں نے آزاد کشمیر کے وزیراعظم کی حیثیت سے کام کیا۔ اب پھر نیا سیٹ اپ بن رہا ہے اللہ کرے کشمیر پورے کا پورا جلد آزاد ہو سکے نتیجہ میں گلگت بلتستان کا اپنا گورنر، اپنا وزیر اعلیٰ، اپنی اسمبلی بن رہی ہے کہ پاکستان کے پہلے وزیراعظم خان لیاقت علی خان شہید کے ارمان پورے ہوں۔ اس موقع پر کافی باتیں یاد آ رہی ہیں جن میں سے بہت سی شرمناک، دردناک اور المناک ہیں۔ کوشش ہے کہ ایسی غم ناک باتیں تاریخ میں تو رہیں اور ان سے رہنمائی بھی لی جائے مگر رہنمائی لیتے وقت سنہری باتوں کو ذہن میں رکھا جائے تو اچھا ہے۔ دردناک یا شرمناک واقعات کو نہ دہرایا جائے۔ انسان ہوں یا قومیں وہ غلطیاں کرتے ہی ہیں اور اپنی غلطیوں سے ہی سیکھتے ہیں لیکن یہ زندہ قوموں کا چلن نہیں ہوتا کہ ہر مرتبہ ایک ہی غلطی دہرائی جائے۔ زندہ رہنے، آگے بڑھنے، باوقار ہونے کے لئے غلطیوں کو دہرایا نہیں جاتا۔ زندہ قومیں ایک غلطی دوسری بار نہیں کرتیں اور دوسری مرتبہ نئی غلطی کی جائے اس نئی غلطی سے فائدہ اٹھایا جائے، سبق حاصل کیا جائے تو ایسا کرنے کو تجربہ کہا جا سکتا ہے۔ ہمارے رہنماﺅں اور ہماری قوم نے آزادی کے بعد جہاں بہت ساری غلطیاں کی ہیں وہیں بہت کچھ حاصل بھی کیا ہے کانٹے سے کہوٹہ تک کا سفر ایک ہی مثال دے کر آگے بڑھتے ہیں اب ضرورت اس امر کی ہے کہ آزاد کشمیر ہی نہیں وطن عزیز پاکستان میں بھی پرانی غلطیاں نہ دہرائی جائیں۔
یہ بات ٹھیک ہے کہ ہمیں اب سبق حاصل ہو جانا چاہئے اور سوچ لینا چاہئے کہ پرانی غلطیوں کو دہرانے کی اب گنجائش نہیں ورنہ تو ہماری حالت زار کی ایک پرانے فلمی گانے کے بول ہی صحیح عکاسی کرتے رہیں گے
لے آئی پھر کہاں پر قسمت ہمیں کہاں سے
یہ تو وہی جگہ ہے گزرے تھے ہم جہاں سے
صوبہ گلگت، بلتستان کے بنائے جانے پر آزاد کشمیر کو جن تحفظات کا احساس ہے اس کا بھی احساس کیا جائے اور ہمارا کارواں پھر سے ٹھیک طریقے سے جادہ پیماں ہو جائے۔