نوے کے عشرے کی بات ہے جب ایک جید عالم دین اور نامور سیاست دان نے راقم کو اپنی جماعت میں شمولیت کی دعوت دیتے ہوئے فرمایا کہ راقم فکری طور پر انکے بہت قریب ہے‘ آپ ہمارے پلیٹ فارم سے قومی اسمبلی کے حلقہ سے الیکشن میں حصہ لیں۔ راقم نے مودبانہ گزارش کی کہ یہ آپکی عظمت نگاہ ہے اور ساتھ کہا کہ آپ پاکستانی سیاست میں وہی کردار ادا کرنے کا عزم رکھتے ہیں جو ایران میں امام خمینی نے ادا کیا۔ موصوف بے حد خوش ہوئے اور فرمایا یہ آپ کا حسنِ ظن ہے ورنہ بندہ انکی ہمسری کا دعویٰ نہیں کر سکتا۔ میں نے عرض کی کہ مجھے صرف ایک بات کا ڈر ہے کہ امام خمینی نے عجلت کا مظاہرہ نہیں کیا۔ آپکو جلدی بہت ہے‘ دیکھئے نا! شہنشاہِ ایران نے امام خمینی کی نظربندی کے احکام 1961ء میں جاری کئے تھے‘ تین ماہ گزرنے کے بعد اپنے بہائی وزیراعظم عباس آرام ہویدا کو امام خمینی کے پاس بھیجا جس نے کہا کہ وہ شہنشاہِ ایران کے احکام لیکر حاضر ہوا ہے۔ امام خمینی نے فوراً جواب دیا کہ وہ خداوند بلند و برتر کے علاوہ اور کسی کے احکام کو تسلیم نہیں کرتے۔ ہویدا کا دوسرا سوال بڑا تیکھا تھا‘ کہا کہ آپ آقائے بروجردی کے مقلد رہ چکے ہیں‘ انہوں نے تو اس قسم کی تحریک نہیں چلائی۔ جواب تھا کہ آقائے بروجردی نے سنتِ حسن پر عمل کیا تھا‘ وقت آ گیا ہے کہ مجھے سنتِ حسین پر عمل کرنا ہے۔ ہویدا کا آخری سوال متکبرانہ تھا‘ اس نے خندۂ استہزا کیساتھ کہا کہ آپ گزشتہ تین ماہ سے جیل میں ہیں لیکن ایران میں آپ کی حمایت میں کوئی تحریک نہیں چلی‘ ایرانیوں نے آپ کے حق میں کوئی مظاہرہ نہیں کیا‘ آپ کس انقلاب پر تکیہ کئے بیٹھے ہیں۔ امام خمینی کا جواب تھا کہ اگر تو اور تیرا شاہ یہ سمجھتا ہے کہ میرا انقلاب چند دنوں‘ ہفتوں یا مہینوں میں رونما ہو گا تو پھر تم دونوں احمقوں کی جنت میں بستے ہو‘ جائو اپنے شاہ سے جا کر کہو کہ خمینی کا انقلاب اس وقت ایران کی مائوں کی گود میں پل رہا ہے۔ ایران کی تاریخ میں بہت سے مقبول رہنما محض اپنی عجلت میں مارے گئے۔ پاکستان میں اس وقت اقتصادی و معاشی بحران شدت اختیار کرتا جا رہا ہے‘ دہشت گردی عام ہوتی جا رہی ہے اور عدم تحفظ کا احساس عوام کے حواس پر حاوی ہو چکا ہے۔ غذائی بحران ہے کہ شیطان کی آنت کی طرح پھیل رہا ہے۔ حکومت نے سردست قحط سے بچنے کیلئے گندم کے وہ ذخیرے جو اسے دسمبر کے آخر میں یا اگلے برس جنوری میں فراہم کرنے تھے‘ انہیں وہ اکتوبر نومبر میں مارکیٹ میں لے آئی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اب حکومت کی تحویل میں کوئی ذخیرہ نہیں ہے اور اگر اگلے برس گندم کی فصل کمزور رہی تو آدم خور قحط کا شدید خطرہ ہے۔ مغربی نظریات کے پس خوردہ پر پلنے والے زرعی سائنس دان ہوں یا حکومتی مشیر و وزیر‘ سب اچھا کہنے کے عادی ہو چکے ہیں۔ ڈاکٹر نارمن ای بورلاگ میکسیکو کے شہرہ آفاق زرعی سائنس دان نے جس وقت اپنی گندم کا نیا بیج جسے موصوف میکسی نے میکسی کا نام دیا تھا جس سے گندم کی فی ایکڑ اوسط پیداوار 120 من ریکارڈ کی گئی تھی جس پر 1970ء میں انہیں نوبیل پرائز دیا گیا تھا‘ اپنے خطبہ میں کہا تھا کہ کیمیاوی کھادوں‘ کیڑے مار زہریلی ادویات کے مسلسل و متواتر استعمال سے 2000ء تک اپنی اس پیداواری صلاحیت سے محروم ہو جائیگی۔ موصوف کے خطبہ کا عنوان ہی
Second Generation Problems of First Green Revolution
تھا لیکن یار لوگ اسے میکسی پاک کا نام دیکر لمبی تان کر سوتے رہے۔ پاکستان کے مایہ ناز زرعی دانشور ڈاکٹر ظفر الطاف نے 1987ء میں کیمیاوی کھادوں کے مضر اثرات سے آگاہ کیا تھا اور کہا تھا کہ کھادوں کے متواتر استعمال سے ہر سال دس فیصد پیداوار کم ہوتی چلی جاتی ہے لیکن مغربی ملٹی نیشنل کمپنیوں نے ہمیں اس حد تک اپنا گرویدہ کر لیا ہے کہ انکے استعمال کے بغیر کوئی چارہ کار ہی نہیں۔ اٹلی اور سپین گزشتہ کئی برسوں سے جانوروں کے گوبر پیشاب کو بطور کھاد استعمال کر رہے ہیں اور کیمیاوی کھادوں کے استعمال کو ممنوع قرار دیدیا ہے۔ راقم نے گزشتہ سال اکتوبر میں اٹلی میں آٹھویں ورلڈ بفلو کانگریس میں شرکت کی تھی جس کے بعد پانچ روزہ بفلو ٹور تھا۔ راقم کیساتھ یونیورسٹی آف وٹرنری اینڈ اینمل سائنسز کے دو قابل فخر ماہرین ڈاکٹر طلعت نصیر پاشا اور ڈاکٹر مسرور الٰہی بابر بھی بفلو ٹور میں شریک تھے۔ فارم یارڈ مینیور کے وسیع پیمانے پر استعمال دیکھ چکے ہیں۔ آخر پاکستان میں اس پر عمل کیوں نہیں کیا جا سکتا لیکن ہمارے زرعی سائنس دانوں کے بارے میں ڈاکٹر ظفر الطاف نے اپنے ایک حالیہ مقالے میں جو کچھ لکھا درست ہی لکھا ہے۔ موصوف کے خیال میں ہمارے اکثر نام نہاد زرعی دانشور مغربی جرائد میں شائع شدہ مضامین کو خود سے منسوب کر لیتے ہیں اور اس طرح بے مغز حکمرانوں کو غچہ دیتے رہے ہیں حالانکہ اس ملک میں بقول انکے جوہر قابل موجود ہے لیکن انکی طرف کوئی توجہ نہیں دیتا۔ پاکستان کے جوہری طاقت بننے کے بعد اسلام دشمن قومیں اور انکی حکومتیں ہماری اکانومی کو ناکارہ کرنے پر کمربستہ ہو چکی ہیں اور یہ تحریک چلا رہی ہیں کہ پاکستان کی سالمیت سخت خطرے میں ہے۔ یہ صرف پاکستانی قوم کی اعصاب شکنی کے حربے ہیں کیونکہ جو قوم جوہری ہتھیاروں سے لیس ہو چکی ہے‘ اسے کوئی زیر نہیں کر سکتا۔ یہ تجربہ ماضی میں ہو چکا ہے۔ مئی 1998ء میں امریکی حکمرانوں کی شہہ پر بھارتی افواج آزاد کشمیر کو ہڑپ کرنے کی خاطر ہمارے بارڈر پر جمع ہو گئی تھیں چنانچہ 25 مئی کو جی ایچ کیو میں اس وقت کے وزیراعظم میاں نواز شریف کو بریفنگ میں اس نازک صورتحال سے آگاہ کیا گیا اور جوہری تجربہ کی اجازت طلب کی گئی۔ اس پر جو کچھ ہوا‘ وہ ایک کالم کا تقاضا کرتا ہے۔ بہرکیف طویل بحث و تمحیص کے بعد ایٹمی دھماکے کی اجازت دیدی گئی چنانچہ 28 مئی کو چاغی (بلوچستان) کے مقام پر بفضل خدا عسکری ماہرین نے اپنا مقصد حاصل کر لیا جس کے نتیجہ میں بھارتی افواج اپنے لٹکائے سر جھکائے جس تیزی سے ہمارے بارڈر پر جمع ہوئی تھیں ‘ اس سے کہیں زیادہ برق رفتاری سے واپس اپنی بیرکوں میں آرام کوش ہو گئیں۔ پاکستان کی سالمیت کو کہیں سے بھی کوئی خطرہ نہیں ہے۔ افواج پاکستان کی قیادت اس وقت انتہائی فرض شناس اور پیشہ ور ہاتھوں میں ہے جس کا ثبوت گزشتہ دنوں میں پہلے آرمی چیف اور اب ائرچیف کے پُراعتماد بیانات ہیں جس کے بعد اسلام دشمن قوتوں میں کھلبلی مچی ہوئی ہے اور ہمارے سیاسی رہنمائوں اور حکمرانوں سے ان بیانات کے بارے میں وضاحتیں طلب کی جا رہی ہیں جن کے بارے میں امریکی اور یورپی جرائد کور سٹوری چھاپ چکے ہیں۔ یہ وقت پاکستانی قوم پر بے شک بہت ہی کڑا ہے‘ پاکستانی قوم اور پاکستانی سیاسی قیادت اپنی قومی تاریخ میں سخت آزمائش سے گزر رہی ہے۔ دوسری جانب غذائی بحران نہ صرف پاکستان میں سر اٹھا رہا ہے بلکہ بین الاقوامی سطح پر پھیل چکا ہے۔ قرضوں کے جال تیار کرنیوالا امریکہ اس وقت چین کا اربوں ڈالر کا مقروض ہے اور چین پاکستان کیساتھ گوادر کے معاہدے کے بعد انحصار باہمی کے زمرے میں داخل ہو چکا ہے۔ درست یا نادرست پاکستانی عوام امریکہ کی بالادستی سے عاجز ہو کر نفرت کی آخری حدوں کو چھو رہے ہیں۔
قائداعظم ثانی کے ظہور کے امکانات روشن سے روشن تر ہوتے جا رہے ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ اس مرتبۂ بلند کا حقدار کون ٹھہرتا ہے۔ ہمیں اس مرحلہ پر وہ تاریخی واقعہ یاد آ رہا ہے جب ایران میں امام خمینی کی تحریک اپنے پورے جوبن پر تھی‘ شاہ ایران نے اپنے ایک جنرل کو امام خمینی کے پاس بھیجا جس نے انہیں یہ پیشکش کی کہ وہ دو کروڑ ڈالر لے لیں اور ایران کو ہمیشہ کیلئے خیرباد کہہ دیں جس پر اس مرد قلندر نے بے ساختہ کہا جائو اپنے شہنشاہ سے جا کر کہو کہ وہ دو کروڑ ڈالر لیکر ایران کی سرزمین کو اپنے منحوس سائے سے آزاد کر دے۔ جنرل اپنا سا منہ لیکر چلا گیا اور دوسری بار امام خمینی سے آ کر کہا کہ شہنشاہ نے کہا ہے کہ آپ تو فقیر آدمی ہیں آپکے پاس تو پھوٹی کوڑی بھی نہیں ہے‘ اتنی بڑی رقم کیسے ادا کریں گے۔
امام خمینیؒ نے پورے انسانی وقار کیساتھ کہا کہ ایران کی کسی شاہراہ پر جا کر کھڑا ہو جائوں گا اور ہر گزرنے والے ایرانی کے آگے جھولی پھیلا کر کہوں گا کہ شہنشاہ ایران نے ایران سے اپنی دائمی رخصت کیلئے اپنی دو کروڑ ڈالر قیمت لگائی‘ تم دو‘ دو تمان دیتے جائو تاکہ اس کے عذاب سے ایرانی قوم کو ہمیشہ کیلئے نجات مل جائے۔ اگر شام تک دو کروڑ ڈالر جمع نہ کر سکا تو میر ا سر قلم کر دیا جائے۔ اس جنرل کی یہ جواب سن کر سٹی گم ہو گئی۔ پاکستانی قوم غیروں کے قرضہ سے نجات حاصل کرنے کیلئے راقم کو یقین کامل ہے‘ ویسا ہی کردار کرنے کیلئے بہ دل و جان تیار ہو جائیگی۔ دیکھنا یہ ہے کہ کیا موجودہ بڑی سیاسی جماعتوں کی اعلیٰ قیادتیں یا دینی سیاسی سربراہ اس عزم اور دعوے کیساتھ پاکستان کے کسی بڑے شہر میں کھڑے ہو کر امام خمینیؒ کا کردار ادا کر سکتے ہیں۔ راقم کے خیال میں ایسا کر تو سکتے ہیں مگر قوم کا اعتماد کامل حاصل کرنے کیلئے انہیں اپنے نجی اثاثے جو اس وقت امریکہ یورپ میں پڑے انکی اکانومی کے فروغ کا باعث ہیں‘ پاکستان واپس لانے کا حوصلہ رکھتے ہوں۔ یہی سوال دینی و سیاسی رہنمائوں سے کیا جا سکتا ہے کہ سب مسالک کے علمائے کرامن ایک ہی صف میں کھڑے ہو کر صدق دل اور نیک نیتی سے یہ اعلان کریں کہ ہم صرف اور صرف مسلمان ہیں‘ آج سے ہم نے مسالک کی انفرادیت ترک کر دی ہے‘ راقم کو یقین ہے کہ پاکستانی قوم اللہ اکبر کا نعرہ بلند کرتے ہوئے انکی جھولیاں اس قدر ڈالروں سے بھر دیں گی کہ سارے قرضے تو کیا پاکستانی اکانومی بام عروج تک پہنچ سکتی ہے۔ انکے علاوہ دو اور قابل اعتماد ہستیاں ہیں جو اس ناممکن کو ممکن بنانے کی پوری کشش رکھتی ہیں۔ انکے اسمائے گرامی میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان اور جسٹس محمد افتخار چودھری۔ اگر یہ دونوں حضرات اس مہم پر نکل پڑیں تو یہ دونوں متذکرہ صدر ہر قبیل کے رہنمائوں سے کہیں زیادہ کردار ادا کر سکتے ہیں۔ پاکستانی قوم چشم براہ ہے‘ قوم کے ہر فرد نے اپنی سانسں روک رکھی ہیں اور صرف یہ دیکھنے کیلئے کہ کس کی سواری یہ عزم لئے گزرتی ہے۔ اگر یہ اعزاز ڈاکٹر عبدالقدیر خان اور جسٹس افتخار محمد چودھری کے مقدر میں لکھا جا چکا ہے تو احساسِ عزتِ نفس کا تقاضا یہ ہے کہ پاکستانی قوم ان دونوں قوم کے عظیم محسنوں کو تاحیات صدر اور وزیراعظم منتخب کر لیں‘ باقی سب آزمائے ہوئے سیاسی پہلوان سیاست کے میدان سے اپنی سبکدوشی کا اعلان کر دیں۔ ان کیلئے اپنی عزت بچانے کا یہ واحد راستہ اور موقع ہے۔
دوسری طرف اگر ایسا نہیں ہوتا تو یہ بات تو یقینی ہے کہ امریکی حکمران اپنی ڈوبتی ہوئی عالمگیر ساکھ کو بچانے کیلئے عراق سے نکل آئیں گے اور یہ بھی نظر آ رہا ہے کہ فلسطین کا قضیہ ہمیشہ کیلئے طے پا جائے کیونکہ تاریخ میں پہلی بار امریکہ میں فرمانروا سعودی عریبیہ اور اسرائیلی صدر کی بالمشافہ ملاقات کو دونوں رہنمائوں نے سودمند اور نتیجہ خیز قرار دیا ہے۔ ان محاذوں سے فارغ ہو کر یہ بدمست ہاتھی افغانستان میں اپنی جولانیاں دکھائے گا اور پاکستان کے سرحدی علاقے اور وہاں کے باشندوں پر اپنے مظالم میں پاگل پن کی حد تک اضافہ کر دیں… ہماری بین الاقوامی سرحدیں پائمال کرنے میں کوئی کسر باقی نہ چھوڑی اور ہمارے حکمران بدستور قرضوں کے خوف اور اپنے نجی اثاثوں کی حفاظت کیلئے ان کے عزائم کے آڑے نہ آئیں تو پھر یہ بات یقینی ہے کہ عسکری قیادت اس ذلت و رسوائی کو مزید برداشت نہیں کریگی اور اپنی سرحدوں کی حفاظت کیلئے کوئی کسر نہیں چھوڑے گی لیکن اس کیساتھ یہ امر بھی یقینی ہے کہ پاکستانی سیاستدانوں کیساتھ عسکری قیادت وہی سلوک کریگی جو جنرل چارلس ڈیگال نے فرانس میں روا رکھا۔ عسکری قیادت کو چین کی مکمل حمایت حاصل ہو گی۔ جو اس سخت مشکل معاشی بحران میں پاکستان سے کمائی ہوئی دورلت اور اپنے نجی اثاثہ پاکستان واپس نہیں لا رہے‘ فوجی حکومت ان کا ناطقہ بند کر دیگی اور پاکستان سے جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کی سیاسی بالادستی کا مضحکہ خیز کھیل جو گزشتہ ساٹھ برسوں سے جاری ہے بالآخر اپنے منطقی انجام کو پہنچ جائیگا اور بقول شاعر…؎
مرے بازو ہیں سلامت تر و تازہ مرے اعصاب
خود کو یوں پشت بہ دیوار نہ دیکھا جائے
Second Generation Problems of First Green Revolution
تھا لیکن یار لوگ اسے میکسی پاک کا نام دیکر لمبی تان کر سوتے رہے۔ پاکستان کے مایہ ناز زرعی دانشور ڈاکٹر ظفر الطاف نے 1987ء میں کیمیاوی کھادوں کے مضر اثرات سے آگاہ کیا تھا اور کہا تھا کہ کھادوں کے متواتر استعمال سے ہر سال دس فیصد پیداوار کم ہوتی چلی جاتی ہے لیکن مغربی ملٹی نیشنل کمپنیوں نے ہمیں اس حد تک اپنا گرویدہ کر لیا ہے کہ انکے استعمال کے بغیر کوئی چارہ کار ہی نہیں۔ اٹلی اور سپین گزشتہ کئی برسوں سے جانوروں کے گوبر پیشاب کو بطور کھاد استعمال کر رہے ہیں اور کیمیاوی کھادوں کے استعمال کو ممنوع قرار دیدیا ہے۔ راقم نے گزشتہ سال اکتوبر میں اٹلی میں آٹھویں ورلڈ بفلو کانگریس میں شرکت کی تھی جس کے بعد پانچ روزہ بفلو ٹور تھا۔ راقم کیساتھ یونیورسٹی آف وٹرنری اینڈ اینمل سائنسز کے دو قابل فخر ماہرین ڈاکٹر طلعت نصیر پاشا اور ڈاکٹر مسرور الٰہی بابر بھی بفلو ٹور میں شریک تھے۔ فارم یارڈ مینیور کے وسیع پیمانے پر استعمال دیکھ چکے ہیں۔ آخر پاکستان میں اس پر عمل کیوں نہیں کیا جا سکتا لیکن ہمارے زرعی سائنس دانوں کے بارے میں ڈاکٹر ظفر الطاف نے اپنے ایک حالیہ مقالے میں جو کچھ لکھا درست ہی لکھا ہے۔ موصوف کے خیال میں ہمارے اکثر نام نہاد زرعی دانشور مغربی جرائد میں شائع شدہ مضامین کو خود سے منسوب کر لیتے ہیں اور اس طرح بے مغز حکمرانوں کو غچہ دیتے رہے ہیں حالانکہ اس ملک میں بقول انکے جوہر قابل موجود ہے لیکن انکی طرف کوئی توجہ نہیں دیتا۔ پاکستان کے جوہری طاقت بننے کے بعد اسلام دشمن قومیں اور انکی حکومتیں ہماری اکانومی کو ناکارہ کرنے پر کمربستہ ہو چکی ہیں اور یہ تحریک چلا رہی ہیں کہ پاکستان کی سالمیت سخت خطرے میں ہے۔ یہ صرف پاکستانی قوم کی اعصاب شکنی کے حربے ہیں کیونکہ جو قوم جوہری ہتھیاروں سے لیس ہو چکی ہے‘ اسے کوئی زیر نہیں کر سکتا۔ یہ تجربہ ماضی میں ہو چکا ہے۔ مئی 1998ء میں امریکی حکمرانوں کی شہہ پر بھارتی افواج آزاد کشمیر کو ہڑپ کرنے کی خاطر ہمارے بارڈر پر جمع ہو گئی تھیں چنانچہ 25 مئی کو جی ایچ کیو میں اس وقت کے وزیراعظم میاں نواز شریف کو بریفنگ میں اس نازک صورتحال سے آگاہ کیا گیا اور جوہری تجربہ کی اجازت طلب کی گئی۔ اس پر جو کچھ ہوا‘ وہ ایک کالم کا تقاضا کرتا ہے۔ بہرکیف طویل بحث و تمحیص کے بعد ایٹمی دھماکے کی اجازت دیدی گئی چنانچہ 28 مئی کو چاغی (بلوچستان) کے مقام پر بفضل خدا عسکری ماہرین نے اپنا مقصد حاصل کر لیا جس کے نتیجہ میں بھارتی افواج اپنے لٹکائے سر جھکائے جس تیزی سے ہمارے بارڈر پر جمع ہوئی تھیں ‘ اس سے کہیں زیادہ برق رفتاری سے واپس اپنی بیرکوں میں آرام کوش ہو گئیں۔ پاکستان کی سالمیت کو کہیں سے بھی کوئی خطرہ نہیں ہے۔ افواج پاکستان کی قیادت اس وقت انتہائی فرض شناس اور پیشہ ور ہاتھوں میں ہے جس کا ثبوت گزشتہ دنوں میں پہلے آرمی چیف اور اب ائرچیف کے پُراعتماد بیانات ہیں جس کے بعد اسلام دشمن قوتوں میں کھلبلی مچی ہوئی ہے اور ہمارے سیاسی رہنمائوں اور حکمرانوں سے ان بیانات کے بارے میں وضاحتیں طلب کی جا رہی ہیں جن کے بارے میں امریکی اور یورپی جرائد کور سٹوری چھاپ چکے ہیں۔ یہ وقت پاکستانی قوم پر بے شک بہت ہی کڑا ہے‘ پاکستانی قوم اور پاکستانی سیاسی قیادت اپنی قومی تاریخ میں سخت آزمائش سے گزر رہی ہے۔ دوسری جانب غذائی بحران نہ صرف پاکستان میں سر اٹھا رہا ہے بلکہ بین الاقوامی سطح پر پھیل چکا ہے۔ قرضوں کے جال تیار کرنیوالا امریکہ اس وقت چین کا اربوں ڈالر کا مقروض ہے اور چین پاکستان کیساتھ گوادر کے معاہدے کے بعد انحصار باہمی کے زمرے میں داخل ہو چکا ہے۔ درست یا نادرست پاکستانی عوام امریکہ کی بالادستی سے عاجز ہو کر نفرت کی آخری حدوں کو چھو رہے ہیں۔
قائداعظم ثانی کے ظہور کے امکانات روشن سے روشن تر ہوتے جا رہے ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ اس مرتبۂ بلند کا حقدار کون ٹھہرتا ہے۔ ہمیں اس مرحلہ پر وہ تاریخی واقعہ یاد آ رہا ہے جب ایران میں امام خمینی کی تحریک اپنے پورے جوبن پر تھی‘ شاہ ایران نے اپنے ایک جنرل کو امام خمینی کے پاس بھیجا جس نے انہیں یہ پیشکش کی کہ وہ دو کروڑ ڈالر لے لیں اور ایران کو ہمیشہ کیلئے خیرباد کہہ دیں جس پر اس مرد قلندر نے بے ساختہ کہا جائو اپنے شہنشاہ سے جا کر کہو کہ وہ دو کروڑ ڈالر لیکر ایران کی سرزمین کو اپنے منحوس سائے سے آزاد کر دے۔ جنرل اپنا سا منہ لیکر چلا گیا اور دوسری بار امام خمینی سے آ کر کہا کہ شہنشاہ نے کہا ہے کہ آپ تو فقیر آدمی ہیں آپکے پاس تو پھوٹی کوڑی بھی نہیں ہے‘ اتنی بڑی رقم کیسے ادا کریں گے۔
امام خمینیؒ نے پورے انسانی وقار کیساتھ کہا کہ ایران کی کسی شاہراہ پر جا کر کھڑا ہو جائوں گا اور ہر گزرنے والے ایرانی کے آگے جھولی پھیلا کر کہوں گا کہ شہنشاہ ایران نے ایران سے اپنی دائمی رخصت کیلئے اپنی دو کروڑ ڈالر قیمت لگائی‘ تم دو‘ دو تمان دیتے جائو تاکہ اس کے عذاب سے ایرانی قوم کو ہمیشہ کیلئے نجات مل جائے۔ اگر شام تک دو کروڑ ڈالر جمع نہ کر سکا تو میر ا سر قلم کر دیا جائے۔ اس جنرل کی یہ جواب سن کر سٹی گم ہو گئی۔ پاکستانی قوم غیروں کے قرضہ سے نجات حاصل کرنے کیلئے راقم کو یقین کامل ہے‘ ویسا ہی کردار کرنے کیلئے بہ دل و جان تیار ہو جائیگی۔ دیکھنا یہ ہے کہ کیا موجودہ بڑی سیاسی جماعتوں کی اعلیٰ قیادتیں یا دینی سیاسی سربراہ اس عزم اور دعوے کیساتھ پاکستان کے کسی بڑے شہر میں کھڑے ہو کر امام خمینیؒ کا کردار ادا کر سکتے ہیں۔ راقم کے خیال میں ایسا کر تو سکتے ہیں مگر قوم کا اعتماد کامل حاصل کرنے کیلئے انہیں اپنے نجی اثاثے جو اس وقت امریکہ یورپ میں پڑے انکی اکانومی کے فروغ کا باعث ہیں‘ پاکستان واپس لانے کا حوصلہ رکھتے ہوں۔ یہی سوال دینی و سیاسی رہنمائوں سے کیا جا سکتا ہے کہ سب مسالک کے علمائے کرامن ایک ہی صف میں کھڑے ہو کر صدق دل اور نیک نیتی سے یہ اعلان کریں کہ ہم صرف اور صرف مسلمان ہیں‘ آج سے ہم نے مسالک کی انفرادیت ترک کر دی ہے‘ راقم کو یقین ہے کہ پاکستانی قوم اللہ اکبر کا نعرہ بلند کرتے ہوئے انکی جھولیاں اس قدر ڈالروں سے بھر دیں گی کہ سارے قرضے تو کیا پاکستانی اکانومی بام عروج تک پہنچ سکتی ہے۔ انکے علاوہ دو اور قابل اعتماد ہستیاں ہیں جو اس ناممکن کو ممکن بنانے کی پوری کشش رکھتی ہیں۔ انکے اسمائے گرامی میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان اور جسٹس محمد افتخار چودھری۔ اگر یہ دونوں حضرات اس مہم پر نکل پڑیں تو یہ دونوں متذکرہ صدر ہر قبیل کے رہنمائوں سے کہیں زیادہ کردار ادا کر سکتے ہیں۔ پاکستانی قوم چشم براہ ہے‘ قوم کے ہر فرد نے اپنی سانسں روک رکھی ہیں اور صرف یہ دیکھنے کیلئے کہ کس کی سواری یہ عزم لئے گزرتی ہے۔ اگر یہ اعزاز ڈاکٹر عبدالقدیر خان اور جسٹس افتخار محمد چودھری کے مقدر میں لکھا جا چکا ہے تو احساسِ عزتِ نفس کا تقاضا یہ ہے کہ پاکستانی قوم ان دونوں قوم کے عظیم محسنوں کو تاحیات صدر اور وزیراعظم منتخب کر لیں‘ باقی سب آزمائے ہوئے سیاسی پہلوان سیاست کے میدان سے اپنی سبکدوشی کا اعلان کر دیں۔ ان کیلئے اپنی عزت بچانے کا یہ واحد راستہ اور موقع ہے۔
دوسری طرف اگر ایسا نہیں ہوتا تو یہ بات تو یقینی ہے کہ امریکی حکمران اپنی ڈوبتی ہوئی عالمگیر ساکھ کو بچانے کیلئے عراق سے نکل آئیں گے اور یہ بھی نظر آ رہا ہے کہ فلسطین کا قضیہ ہمیشہ کیلئے طے پا جائے کیونکہ تاریخ میں پہلی بار امریکہ میں فرمانروا سعودی عریبیہ اور اسرائیلی صدر کی بالمشافہ ملاقات کو دونوں رہنمائوں نے سودمند اور نتیجہ خیز قرار دیا ہے۔ ان محاذوں سے فارغ ہو کر یہ بدمست ہاتھی افغانستان میں اپنی جولانیاں دکھائے گا اور پاکستان کے سرحدی علاقے اور وہاں کے باشندوں پر اپنے مظالم میں پاگل پن کی حد تک اضافہ کر دیں… ہماری بین الاقوامی سرحدیں پائمال کرنے میں کوئی کسر باقی نہ چھوڑی اور ہمارے حکمران بدستور قرضوں کے خوف اور اپنے نجی اثاثوں کی حفاظت کیلئے ان کے عزائم کے آڑے نہ آئیں تو پھر یہ بات یقینی ہے کہ عسکری قیادت اس ذلت و رسوائی کو مزید برداشت نہیں کریگی اور اپنی سرحدوں کی حفاظت کیلئے کوئی کسر نہیں چھوڑے گی لیکن اس کیساتھ یہ امر بھی یقینی ہے کہ پاکستانی سیاستدانوں کیساتھ عسکری قیادت وہی سلوک کریگی جو جنرل چارلس ڈیگال نے فرانس میں روا رکھا۔ عسکری قیادت کو چین کی مکمل حمایت حاصل ہو گی۔ جو اس سخت مشکل معاشی بحران میں پاکستان سے کمائی ہوئی دورلت اور اپنے نجی اثاثہ پاکستان واپس نہیں لا رہے‘ فوجی حکومت ان کا ناطقہ بند کر دیگی اور پاکستان سے جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کی سیاسی بالادستی کا مضحکہ خیز کھیل جو گزشتہ ساٹھ برسوں سے جاری ہے بالآخر اپنے منطقی انجام کو پہنچ جائیگا اور بقول شاعر…؎
مرے بازو ہیں سلامت تر و تازہ مرے اعصاب
خود کو یوں پشت بہ دیوار نہ دیکھا جائے