سابق انٹیلی جنس چیف دوسرے ملکوں میں تو گرفتار ہوا ہی کرتے ہیں لیکن پاکستان میں تو ایسا سوچنا بھی دائرہ خیال سے باہر تھا۔ لیکن اب پاکستان میں بھی یہ گرفتاری ہو گئی۔ گویا اب آہستہ آہستہ پاکستان بھی دوسرے ملکوں میں شامل ہوتا جا رہا ہے ورنہ اب تک تو ہمارا ملک باقی دنیا سے الگ ہی تھا۔
سابق آئی ایس آئی چیف فیض حمید عرف چشمہ فیض والے بابا جی کی گرفتاری اور کورٹ مارشل کی خبر ان کے اہل خانہ پر اگر بجلی بن کر گری تو پی ٹی آئی پر اور اس کے مرشد حال مقیم اڈیالہ پر بجلیاں بن کر گری۔ کیوں؟ بتانے کی بہت زیادہ ضرورت نہیں۔ بہرحال خلاصہ یہ ہے کہ گرفتاری کی بنیاد ٹاپ سٹی نامی رہائشی سکیم کا قضیہ بنا، جنرل موصوف نے آئی ایس آئی کی مدد سے، گویا ریاستی قوت کے زور پر یہ سکیم اپنے قبضے میں لے لی تھی اور اس کے مالکان کو پہلے مار کر کر دنبہ بنایا پھر انھیں دربدر کر دیا۔
معاملہ سپریم کورٹ گیا، انھوں نے فوج کو تحقیقات کا حکم دیا، تحقیقات ہوئیں اور آخر گرفتاری ہو گئی۔ جو ظلم 2017ء میں ڈھایا تھا، وہ سات برس بعد استغاثہ بنا۔ جو ظلم 2018ء میں ’’ووٹ‘‘ پر ڈھایا، اس کا استغاثہ بھی کسی نہ کسی انداز میں اب اس بنیادی معاملے میں شامل ہوتا جا رہا ہے۔
_______
آئی ایس پی آر کے پریس ریلیز میں موصوف کے ان ‘‘جرائم‘‘ کا اشارہ بھی ہے جو انھوں نے بعد از ریٹائرمنٹ سرزد فرمائے۔ تفصیلات ہر طرف سے آ رہی ہیں بلکہ برس رہی ہیں۔ ع
امنڈ گھمنڈ گھن گرجے بدرا
ہر چینل پر ہر تجزیہ نگار واقعات کہنہ کی اطلاعات تازہ کے انبار لگا رہا ہے۔ اکٹھا کرو تو ایک اور حمود الرحمن کمشن رپورٹ بن جائے۔ سب نہیں تو اکثر اطلاعات آپ نے سْن لی ہوں گی یا اخبار میں پڑھ لی ہوں گی، دہرانے کی ضرورت ہی نہیں لیکن ایک بات بہت ہی مزے کی اور اس سے بھی زیادہ عبرت کی کہیں سے نہیں آئی حالانکہ واقفان دروں کے علاوہ ناواقفان دروں کو بھی معلوم ہے۔ اگر کسی نے کہی بھی ہو گی تو توجہ نہیں پا سکی۔ سننے اور مزہ لینے کے ساتھ ساتھ عبرت بھی پکڑیے۔
قصہ وہی ہے جس کا ایک رخ تو سبھی جانتے ہیں کہ موصوف نے اڈیالے والے مرشد کے ساتھ ایک منصوبہ بنایا تھا، دس سالہ مشترکہ منصوبہ۔ باجوے کی ریٹائرمنٹ کے بعد فیض کو آرمی چیف بنایا جانا تھا، انھوں نے اگلے الیکشن میں اڈیالوی صاحب کو دو تہائی اکثریت دلوانا تھی۔ اس دو تہائی اکثریت کے بعد اڈیالوی صاحب نے صدارتی نظام لا کر خود صدر بن جانا تھا، بظاہر دس سال کے لیے لیکن دراصل تاحیات کا ارادہ تھا اور فیض چکوالی صاحب نے اس پوری مدت میں آرمی چیف بنے رہنا تھا۔ توسیع پر توسیع، تو سیع پر توسیع یا ایک ہی بار غیر معینہ توسیع۔
یہ حصہ قصے کا پوری طرح باہر آیا، بہتوں کے من کو بھایا، لیکن اس کا دوسرا رخ مخفی رہا۔ چکوالی صاحب نے چند راز داروں کو راز داری کی شرط پر بتایا اور راز داروں نے راز داری کی شرط پر آگے اپنے راز داروں کو بتا دیا، یوں ہوتے ہوتے یہ کہانی مجھ جیسے غیروں کو بھی پہنچ گئی۔
اور کہانی کا یہ حصہ یوں ہے کہ آرمی چیف بننے کے بعد چکوالی کا ارادہ ذرا بھی اڈیالوی کو دو تہائی اکثریت دلوانے کا نہیں تھا بلکہ مارشل لا لگا کر تاحیات فیلڈ مارشل بننے کا تھا۔ ان کے سامنے کم ال سنگ اور صدام حسین اور حسنی مبارک اور مارکوس اور سوہارتو کے ماڈل تھے۔
انجام اس دوطرفہ ٹھگی کا یہ ہوا کہ چکوالی صاحب آج کورٹ مارشل کی بیرک میں اور اڈیالوی صاحب جیل کی چکی میں ہیں۔ لمبی مزیدار کہانی کا ڈیڑھ سطری عبرت ناک تتمہ۔
_______
اب محرم راز ہائے دروں فیصل واقڈا صاحب بھی کچھ خبریں لائے ہیں۔ خبریں کہیے یا پیش گوئی، آپ کی مرضی ہے۔ حسن اتفاق یا سوئے اتفاق یہ ہے کہ ان کی پیش گوئیاں ازاں بعد خبر کا روپ دھار لیتی ہیں اس لیے جو چاہے نام دیں، کوئی مضائقہ نہیں۔
انھوں نے فرمایا ہے بہت جلد اڈیالوی صاحب زمین پر لمبے لمبے لیٹے نظر آئیں گے۔ پہلی نظر میں تو اس پیش گوئی کا معنی یعنی ظاہری مطلب یہی لگا کہ جیل میں اڈیالوی صاحب سے بستر لے لیا جائے گا یا اگست کی دوپہری میں بستر انگار بن جائے گا اور اڈیالوی صاحب زمین پر سونے کو ترجیح دیں گے۔ ویسے ہی جیسے اڈیالوی صاحب کے دور اقتدار میں نواز شریف، مریم نواز، خواجہ آصف، شاہد خاقان عباسی اور احسن اقبال وغیرہ سمیت درجنوں کشتگان ستم کھری زمین پر تکیہ رکھ کر سویا کرتے تھے۔
آگے بڑھنے سے قبل، یہ تکیے والی بات کچھ مزید تفصیل مانگتی ہے۔
_______
تکیے کا قصہ یوں ہے کہ چونکہ بطور وزیراعظم اڈیالوی صاحب بہت چوکس اور چوکنے اور مصروف حکمران تھے، ہر شے پر نظر رکھتے تھے، اسی لیے ان کے مریدین انھیں ان لفظوں میں داد دیا کرتے تھے کہ وڑن ہو تو ایسا، تدبیر ہو تو ایسا، ہمارے مرشد کے کیا کہنے، وہ تو دیوار کے پار بھی دیکھ لیا کرتے ہیں۔
دیوار کے پار وہ سی سی ٹی وی کیمروں کی مدد سے دیکھا کرتے تھے۔ زیادہ مصروفیت ان کی مسلم لیگ کے قیدی رہنما?ں پر نظر رکھنے میں گزرتی تھی۔ وہ معاملات پر اتنی گہری نظر اور ایسا دور مار ’’وڑن‘‘ رکھتے تھے کہ مریم نواز کے زیر استعمال باتھ روم میں بھی کیمرے لگوا رکھے تھے تاکہ دیوار کے اس پار دیکھنے کا دائرہ بڑھایا جائے۔ وسیع کیا جاسکے۔ بہرحال، ایک دن انھوں نے دیوار کے دوسری طرف دیکھا تو کیا نظر آیا، خواجہ آصف کے پاس دو تکیے ہیں۔
ایک بیدار مغز چوکس اور فرض شناس حکمران کی مانند وہ فوراً حرکت میں آئے، غفلت کے ذمہ دار کو معطل کیا اور خواجہ آصف کو دیا گیا اضافی تکیہ واپس لے لیا۔ یہ ہوتا ہے حکمران، یہ ہوتا ہے وڑن، یہ ہوتی ہے دیوار کے پار دیکھنے کی صلاحیت اور کیا شک عالم اسلام کو ایسے ہی وڑنری لیڈر کی ضرورت تھی، ہے اور رہے گی۔
_______
خیر، بعدازاں پتا چلا کہ واوڈا صاحب کا مطلب یہ نہیں تھا بلکہ یہ تھا کہ اڈیالوی صاحب 1971ء والے نیازی کی طرح بڑا سرنڈر کرنے والے ہیں، لیٹ کر خود سپردگی کے عالم میں جانے والے ہیں جس کے بعد وہ ایڑیاں رگڑ رگڑ کر معافی تلافی، حجور، ظل الٰہی، رحم کیجیے کی صدا لگانے والے ہیں اور وہی نہیں، ان کے ساتھ پی ٹی آئی کی صف اوّل کے قائدین میں سے بھی بہت سے یہی کچھ کرنے والے ہیں۔ وجہ اس کی یہ بتائی گئی ہے کہ پی ٹی آئی کے مرکزی دفتر میں پچھلے دنوں جو چھاپہ مارا گیا تھا اور سیکرٹری اطلاعات رئوف حسن کو جو تحویل میں لیا گیا تھا تو پارٹی دفتر سے برآمد ہونے والے کمپیوٹروں سے بہت کچھ برآمد ہوا، بہت کچھ رئوف حسن کے موبائل سے ملا اور بہت کچھ رئوف حسن کے منہ سے نکلا اور خلاصہ سب کا یہ کہ فیض چکوالی 9 مئی کے واقعات میں ملوث تھے بلکہ 9 مئی کا سارا پلان چکوالی اور اڈیالوی نے مل کر بنایا تھا۔ یہی نہیں، 9 مئی کا ایڈونچر ناکام ہوا، بلا گلے میں پڑی، اڈیالوی صاحب گھبرا گئے تو چکوالی نے حوصلہ دیا اور کہا کہ کہو، ہم نے تو کچھ نہیں کہا، سارا کچھ خود فوج نے کروایا، ہم پر جھوٹا الزام لگا دیا یعنی فالس فلیگ آپریشن ہوا اور اڈیالوی نے مشورے پر من و عن عمل کیا۔ بہرحال اب تو مٹکی پھوٹی لٹیا ڈوبی والا ماجرا ہے۔ جے جگدیش ہرے۔۔۔