آج ہم روایتی انداز میں اپنا یوم آزادی منا رہے ہیں یہ یوم آزادی بھی ویسا ہی ہے ہر طرف قومی پرچم ہوں گے، جھنڈیاں ہوں گی، باجے ہوں گے، نعرے ہوں گے، سرکاری اور غیر سرکاری سطح پر تقریبات ہوں گی، کنسرٹ ہوں گے، سڑکوں پر طوفان بدتمیزی بھی ہو گا، سرکاری چھٹی ہو گی، پرچم کشائی کی تقریبات ہوں گی، کہیں کہیں بزرگ نوجوان نسل کو آزادی کی قدر بارے نصیحت کریں گے، کہیں کہیں وہ بزرگ بھی ہوں گے جو تحریک پاکستان کا حصہ رہے وہ اپنے تجربات بیان کریں گے، وہ جنہوں نے قیام پاکستان کے ابتدائی ایام دیکھے جنہوں نے پاکستان کو دو ٹکڑے ہوتے دیکھا، وہ جنہوں نے پاکستان کی تاریخ کے اتار چڑھاو کا مشاہدہ کیا وہ سب بیان کرتے نظر آئیں گے۔ بدقسمتی یہ ہے کہ نہ تو ہم پر تحریک پاکستان میں حصہ لینے والوں کے خیالات اور تجربات اثر کرتے ہیں نہ ہم پر قیام پاکستان کے بعد ملکی ترقی کے لیے دن رات ایک کرنے والوں کی نصیحت کا اثر ہوتا ہے۔ ہم ہر سال یوم آزادی اس عزم اور جوش و خروش سے مناتے ہیں کہ ملک کو ہم عظیم سے عظیم تر بنائیں گے لیکن ستم ظریفی ہے کہ ہم وطن کو عظیم تر بنانے کا اعلان تو کرتے ہیں لیکن سمجھتے یہ ہیں کہ شاید وطن کو عظیم تر بنانے کا کام کوئی اور کرے گا۔ اگر ہم خود ایک قوم بن کر کام کرتے تو یقینا آج یہ حالات نہ ہوتے، اگر قوم متحد ہو کر، ذاتی اختلافات بھلا کر، تعصب کو بالائے طاق رکھتے ہوئے کام کرتی تو یقینا حالات مختلف ہوتے، ہمیں سقوط ڈھاکہ جیسی اذیت اور تکلیف کا سامنا نہ کرنا پڑتا، انیس سو اکہتر میں پاکستان کے دو ٹکڑے ہوئے لیکن ہم نے آج تک اس تکلیف کو محسوس نہیں کیا، اس شدت کے ساتھ سقوط ڈھاکہ کو محسوس کرتے تو آج یوم آزادی کے موقع پر ہماری سیاسی قیادت کے بیانات مختلف ہوتے، ہمیں تو آج بھی ایک سیاسی جماعت کے رہنما کا یہ بیان پڑھنے کو مل رہا ہے کہ لاوا پک چکا ہے، سٹریٹ پاور کا مظاہرہ کریں گے، دوسری طرف کہتے ہیں کہ غداری کے مقدمات چلائو، ایک کہتا ہے کہ اسلام آباد میں جلسے سے کسی کا باپ بھی نہیں روک سکتا، ایک حصے سے آواز آتی ہے کہ اگر حکومت نے معاہدے پر عمل نہ کیا تو کسی کو ڈی چوک آنے سے نہیں روک سکوں گا۔ وطن عزیز میں یہ معمول بن چکا ہے، ہر روز ایسے ہی تکلیف دہ بیانات سننے کو ملتے ہیں، مطلب کوئی باشعور یوم آزادی سے دو دن قبل یہ کہنے کی جرات کیسے کر سکتا ہے کہ لاوا پک چکا ہے۔ یہ ہماری سیاسی قیادت کے حالات ہیں اگر دوسری طرف لگ بھگ پچیس کروڑ لوگوں کے ملک کو دیکھیں تو مسائل کے پہاڑ ہیں۔ مسائل ایسے ہیں کہ حل ہونے کا نام نہیں لے رہے کیونکہ قیادت کے اپنے مسائل حل نہیں ہوتے، قیادت کی اپنی مشکلات ہیں وہ ختم ہوں تو عوام کی باری آئے۔ ہم آگے بڑھنا چاہتے ہیں لیکن تعلیم پر توجہ نہیں دیتے جو تعلیم ہم دے رہے ہیں وہ عقل سمجھ کے بغیر ہے، عملی زندگی سے دور ہے، ڈگریاں ہیں لیکن شعور نہیں اور کہیں کہیں تو تعلیم کا دور دور تک نام و نشاں نہیں ہے۔ مثال کے طور پر یہ یوم آزادی بھی جنوبی پنجاب کے دو کروڑ سے زائد بچے تعلیم سے محرومی کے ساتھ منا رہے ہیں۔ خبر یہ ہے کہ ملتان سمیت جنوبی پنجاب کے گیارہ اضلاع میں دو کروڑ چار لاکھ بچے اور بڑے زیور تعلیم سے محروم ہیں۔ یہ تکلیف دہ بات یہ ہے کہ دو کروڑ چار لاکھ بچوں کے زیور تعلیم سے محروم ہونے کے اعداد و شمار سرکاری ہیں۔ ادارہ شماریات کیمطابق جنوبی پنجاب کے سولہ سال سے کم عمر کے چھیالیس لاکھ 89 ہزار سے زائد بچوں نے سکول کا منہ تک نہیں دیکھا۔ ملتان میں سولہ سال سے کم عمر کے چار لاکھ 75 ہزار بچے سکول نہیں گئے، مجموعی طور پر بائیس لاکھ 46 ہزار افراد نے تعلیم حاصل نہیں کی۔ ضلع بہاولپور میں مجموعی طور پر اکیس لاکھ 68 ہزار افراد جبکہ ضلع ڈیرہ غازی خان میں مجموعی طور پر انیس لاکھ بانوے ہزار افراد نے سکول کا منہ تک نہیں دیکھا۔
دستاویزات کے مطابق جنوبی پنجاب کو صوبے کے تعلیمی بجٹ کا محض ایک فیصد حصہ ملتا ہے، ادارہ شماریات کے مطابق جنوبی پنجاب میں شرح خواندگی صرف ترپن فیصد ہے جبکہ باقی پنجاب میں یہ شرح چوہتر فیصد تک ہے۔ یو این ڈی پی کے مطابق جنوبی پنجاب بھر کی شرح خواندگی باقی پنجاب سے سولہ فیصد کم ہے اور دو کروڑ چار لاکھ اٹھارہ ہزار افراد تعلیم کے زیور سے محروم ہیں۔
محض جنوبی پنجاب میں یہ حالات اور اعداد و شمار ہمارے حکمران طبقے کو آئینہ دکھانے کے لیے کافی نہیں ہیں۔ آج یوم آزادی کے موقع پر صرف جنوبی پنجاب کے چند اضلاع کے دور کروڑ سے زائد بچوں کی زیور تعلیم سے محرومی کا مقدمہ حکمرانوں کے سامنے رکھنے کا مقصد یہ ہے کہ وہ جنہیں مستقبل کہا جاتا ہے کیا آپ انہیں مستقبل کے چیلنجز سے نمٹنے کی تیاری بھی کروا رہے ہیں یا نہیں۔ ویسے اس اہم ترین معاملے میں اگر آپ بیوروکریسی کی باتیں سنیں اور ان کی دلیل کو سامنے رکھیں تو کوئی بھی جواب ان کی ناکامی کا سب سے بڑا ثبوت ہو گا۔ کوئی اسے آبادی کا بڑھنا، کنبے کا بڑا ہونا قرار دے گا، کوئی اسے شعور کی کم سطح کو بنیاد بنائے گا، کوئی علاقائی روایتی مشکلات کا ذکر کرے گا لیکن اپنی ناکامی تسلیم نہیں کرے گا کیونکہ تعلیم کا حقیقی زیور لوگوں تک پہنچ گیا تو پھر سوال ہوں گے اور ایسے سوال جن کا جواب دہائیوں سے وسائل پر قابض رہنے اور بچوں کو زیور تعلیم سے محروم کرنے والوں کے پاس نہیں ہو گا۔ کاش اس یوم آزادی پر حکمران ناصرف جنوبی پنجاب کے ان اضلاع بلکہ ملک بھر میں تعلیم کو عام کیا جائے۔
اس یوم آزادی پر ایک خبر اور بھی حکمرانوں کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں کاش کہ یہ احساس پیدا ہو سکے کہ ہم نے اپنے پاؤں پر کھڑا ہونا ہے۔ ایک خبر تعلیم سے محرومی کی تھی دوسری غذائی قلت کا شکار بچوں کے لیے امریکی امداد کے حوالے سے ہے۔
خبر کچھ یوں ہے کہ امریکی حکومت کی جانب سے سندھ اور بلوچستان میں غذائی قلت کے شکار بچوں کیلئے تیار شدہ 486 میٹرک ٹن خوراک یونیسیف پاکستان کے حوالے کی ہے۔ اس امداد کے لیے ایک تقریب کا انعقاد بھی کیا گیا جس میں امریکی سفیر ڈونلڈ بلوم اور وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ سمیت یونیسیف پاکستان کے کنٹری ڈائریکٹر عبد اللہ فاضل بھی موجود تھے۔ نہ ہم اپنے بچوں کے حوالے سے خوراک کی ضروریات کو پورا کر سکیں نہ انہیں تعلیم دے سکیں کیا ووٹ صرف حکمرانی حاصل کرنے کے لیے ہیں۔ کاش کوئی سوچے!!!!
آخر میں کلیم عثمانی کا کلام
یہ وطن تمہارا ہے، تم ہو پاسباں اس کے
یہ چمن تمہارا ہے، تم ہو نغمہ خواں اس کے
اس چمن کے پھولوں پر رنگ و آب تم سے ہے
اس زمیں کا ہر ذرہ آفتاب تم سے ہے
یہ فضا تمہاری ہے، بحر و بر تمہارے ہیں
کہکشاں کے یہ جالے، رہ گزر تمہارے ہیں
اس زمیں کی مٹی میں خون ہے شہیدوں کا
ارضِ پاک مرکز ہے قوم کی امیدوں کا
نظم و ضبط کو اپنا میرِ کارواں جانو
وقت کے اندھیروں میں اپنا آپ پہچانو
یہ زمیں مقدس ہے ماں کے پیار کی صورت
اس چمن میں تم سب ہو برگ و بار کی صورت
دیکھنا گنوانا مت، دولتِ یقیں لوگو
یہ وطن امانت ہے اور تم امیں لوگو
میرِ کارواں ہم تھے، روحِ کارواں تم ہو
ہم تو صرف عنواں تھے، اصل داستاں تم ہو
نفرتوں کے دروازے خود پہ بند ہی رکھنا
اس وطن کے پرچم کو سربلند ہی رکھنا
یہ وطن تمہارا ہے، تم ہو پاسباں اس کے
یہ چمن تمہارا ہے، تم ہو نغمہ خواں اس کے