اہلِ پاکستان آج 14 اگست کو وطن عزیز اسلامی جمہوریہ پاکستان کا 78واں جشن آزادی قومی اور ملی یگانگت کے جذبے سے معمور ہو کر منارہے ہیں۔ ملکی سلامتی و استحکام کے تقاضوں کے تحت ہمیں آج مکار دشمن بھارت کی ان سازشوں کو بھی پیش نظر رکھنا ہے جن کا آغاز اس نے پانچ سال قبل 5 اگست 2019ءکو اپنے ناجائز زیر تسلط کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کر کے اور اسے بھارتی سٹیٹ یونین کا حصہ بنا کر کیا تھا۔ کشمیری عوام نے تین سال پہلے اس بھارتی جبری اقدام کے خلاف دنیا بھر میں عشرہ استحصالِ کشمیر منایا جبکہ کل 15 اگست کو کشمیری اور پاکستانی عوام بھارتی یومِ آزادی کو یومِ سیاہ کے طور پر منائیں گے جس کے دوران اقوام عالم میں بھارتی جبر و تسلط کو اجاگر کیا جائے گا اور مسئلہ کشمیر کے اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل کے لیے زور دیا جائے گا۔
آج وطن عزیز کا جشنِ آزادی قائداعظم کے ویڑن کے مطابق مادرِ وطن کو امن، ترقی اور خوشحالی کا گہوارہ بنانے کے پختہ عزم کے ساتھ منایا جارہا ہے۔ اس سلسلہ میں آج ملک بھر میں عام تعطیل ہے۔ پرنٹ میڈیا نے آج جشنِ آزادی کے حوالے سے خصوصی اشاعتوں کا اہتمام کیا ہے جبکہ سرکاری اور نجی الیکٹرانک میڈیا کی جانب سے آج وطن سے محبت کے جذبے کو اجاگر کرنے والی خصوصی نشریات کا اہتمام کیا گیا ہے۔ آج دن کا آغاز مساجد میں نماز فجر کے بعد ملک و قوم کی سلامتی اور ترقی و خوشحالی کی دعاﺅں سے ہوگا۔ وفاقی دارالحکومت میں 31 اور صوبائی دارالحکومتوں میں 21، 21 توپوں کی سلامی دی جائے گی۔ ملک بھر میں مختلف مقامات پر پرچم کشائی کی تقریبات منعقد کی جائیں گی۔ اسی طرح یومِ آزادی کی مناسبت سے آج سرکاری اور نجی سطح پر سیمینارز اور دیگر تقریبات کا انعقاد کیا جائے گا جن میں مقررین آزادی کی تحریک میں دی جانے والی قربانیاں اجاگر کرتے ہوئے وطن عزیز کی ترقی و استحکام کے لیے قوم کے بے پایاں جذبہ کا تذکرہ کریں گے۔حکام اور عوام آج علامہ اقبال اور قائداعظم کے مزارات پر حاضری دیں گے، پھولوں کی چادریں چڑھائی جائیں گی اور ملک کی ترقی و سلامتی کے لیے خصوصی دعائیں کی جائیں گی۔
یہ حقیقت تاریخ کے صفحات میں محفوظ ہوچکی ہے کہ متعصب ہندو اکثریت نے مسلم دشمنی کے باعث برصغیر کے مسلمانوں کا عرصہ حیات تنگ کر کے اور انھیں اپنے سے کمتر انسان کا درجہ دے کر دو قومی نظریے کی خود بنیاد رکھی تھی جو تحریک پاکستان کی بھی بنیاد بنی اور بالآخر قیام پاکستان پر منتج ہوئی، جس میں قائداعظم کی بے بدل قیادت میں ایک ایسے جدید اسلامی فلاحی جمہوری معاشرے کی تشکیل اور اس آزاد و خود مختار پاکستان کا تصور متعین ہوا، جس میں مسلمانوں کو نہ صرف مکمل مذہبی آزادی حاصل ہو گی بلکہ انھیں اقتصادی غلامی کے شکنجے میں جکڑنے والی ہندو بنیا ذہنیت اور انگریز کے ٹوڈی جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کے استحصال سے بھی نجات ملے گی اور اس خطے کے مغلوب مسلمانوں کی جمہوری جدوجہد کے نتیجہ میں قائم ہونے والی اس مملکت خداداد میں خلقِ خدا کے راج کا تصور بھی عملی قالب میں ڈھل جائے گا۔ قیامِ پاکستان کے مقاصد، اس کے نظریے اور نظام کے حوالے سے قائداعظم کے ذہن میں کوئی ابہام نہیں تھا چنانچہ وہ قیام پاکستان کی جدوجہد کے دوران ہر مرحلے پر مسلمانانِ برصغیر اور دنیا کو قیام پاکستان کے مقاصد سے آگاہ کرتے رہے۔ آج جو دانشور حلقے نظریہ پاکستان اور قیام پاکستان کے مقاصد کے حوالے سے ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت حقائق کو مسخ کر کے پیش کررہے ہیں انھیں اسلامیہ کالج پشاور میں قائداعظم کی 13 جنوری 1948ءکی تقریر کے یہ الفاظ ذہن نشین کر لینے چاہئیں کہ ”ہم نے پاکستان کا مطالبہ ایک زمین کا ٹکڑا حاصل کرنے کے لیے نہیں کیا تھا بلکہ ہم ایک ایسی تجربہ گاہ حاصل کرنا چاہتے تھے جہاں ہم اسلام کے اصولوں کو آزما سکیں۔“
بدقسمتی سے قائد کی رحلت کے بعد ”کھوٹے سکوں“ نے اپنے مفادات کی بجا آوری میں پاکستان کو اسلام کی تجربہ گاہ بنانے کے بجائے اپنے مفادات اور مسائل کی آماجگاہ بنا دیا۔ سیاست دانوں کے آپس کے اختلافات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے جرنیلی آمروں کو ماورائے آئین اقدامات کے تحت جمہوریت کی بساط الٹانے اور اقتدار میں آنے کا موقع ملتا رہا۔ اس طرح وطن عزیز کے 34 سال جرنیلی آمریتوں کی نذر ہوگئے۔سیاست دان قائداعظم کے صحیح جانشین ہوتے تو ملک میں جمہوریت مضبوط ہوتی، آمریت کے سائے وطن عزیز پر نہ پڑتے اور قومی وسائل کو بروئے کار لا کر قوم ترقی و خوشحالی کی منازل سے ہمکنار ہوچکی ہوتیں۔
پاکستان کو طویل عرصہ دہشت گردی کے ناسور کا سامنا بھی رہا جسے پاک فوج نے جڑ سے اکھاڑ پھینکنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ یہ دہشت گرد اپنے آقاﺅں کے احکامات کی بجا آوری کرتے ہوئے پاکستان میں دہشت گردی کے لیے پھر سرگرم ہو چکے ہیں جنھیں بھارتی ”را“ کی مکمل سرپرستی حاصل ہے جبکہ کابل کی طالبان حکومت اقوام متحدہ کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق، ٹی ٹی پی کے دہشت گردوں کی باقاعدہ پشت پناہی کررہی ہے۔ بھارت کی سازشوں کو ٹھوس حکمت عملی اور دہشت گردوں کے سہولت کاروں کے ساتھ آہنی ہاتھوں سے نمٹ کر ناکام بنانے کی ضرورت ہے۔ اس وقت پاکستان دشمن اور ہندو انتہا پسندوں کی نمائندہ جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی تیسری مرتبہ اقتدار میں آنے والی بھارتی سرکار کی جانب سے پاکستان کی سلامتی کے خلاف جو گھناﺅنی سازشیں کی جارہی ہیں اور شہ رگِ پاکستان یعنی کشمیر کو مستقل طور پر ہڑپ کرنے کے لیے بھارتی فوجوں اور پیرا ملٹری فورسز نے مقبوضہ وادی کو گزشتہ پانچ سال سے محصور کر کے جس وحشیانہ انداز میں کشمیریوں کا عرصہ حیات تنگ کیا ہوا ہے، بالخصوص کشمیری نوجوانوں کو شہید اور مستقل اپاہج کرنے کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے،چادر اور چار دیواری کا تحفظ بری طرح پامال کیا جا رہا ہے۔ اس کے پیش نظر آج یومِ آزادی کے موقع پر قوم اور حکومت کی جانب سے کشمیری عوام کو ان کی جدوجہد کے ساتھ یکجہتی کا پیغام دینا، ملک کی سلامتی و خود مختاری کے تحفظ کے لیے بھی پوری قوم کا یکجہت ہونا اور اس کے ساتھ ساتھ قیامِ پاکستان کے مقاصد سے بالخصوص نئی نسل کو آگاہ رکھنا اور بھی ضروری ہو گیا ہے۔ اس کے لیے پاکستان میں سیاسی اور اقتصادی استحکام کی بھی ضرورت ہے جو گزشتہ کچھ عرصہ سے جاری اقتدار کی رسہ کشی میں عملاً غارت ہو چکا ہے۔
پی ٹی آئی کے قائد اپنی حکومت کے خاتمے کو امریکی سازش سے تعبیر کرکے حقیقی آزادی کا نعرہ لگاتے رہے ہیں۔ ان کی جانب سے اداروں بالخصوص افواج پاکستان کے ساتھ ٹکراﺅ کی اختیار کردہ پالیسی نے جہاں ملک کو بدترین محاذ آرائی کی جانب دھکیل دیا ہے وہیں حب الوطنی اور غداری کے سرٹیفکیٹ جاری کرنے کی بھی ریس لگ گئی ہے۔ 9 مئی 2023ءکو جس طرح فوجی تنصیبات پر حملے، یادگارِ شہداءکی توڑ پھوڑ کر کے توہین کی گئی وہ بدترین قومی المیہ سے کم نہیں ہے۔ 8 فروری کے انتخابات پر سوالات اٹھا کر سسٹم کو مزید عدم استحکام سے دو چار کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ بانی پی ٹی آئی عمران خان جیل میں ہیں جبکہ ان کی پارٹی کی طرف سے سوشل میڈیا پر فوج کے خلاف پروپیگنڈا جاری ہے۔ ملک سے باہر بیٹھے ہوئے بھی کچھ لوگ پاک فوج کے اندر نفرتیں پھیلانے کا کام کر رہے ہیں۔ ان میں کچھ سابق فوجی افسر بھی شامل ہے جن کو کورٹ مارشل کے ذریعے سزائیں سنائی گئی ہیں۔ سابق ڈی جی، آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ فیض حمید کے کورٹ مارشل کا عمل بھی شروع کیا گیا ہے۔ آئی ایس پی آر کے مطابق، فیض حمید کے خلاف سپریم کورٹ کے حکم پر ٹاپ سٹی کے سے متعلق کورٹ آف انکوائری شروع کی گئی تھی۔ پاکستان آرمی ایکٹ کی خلاف ورزیاں بھی ان پر ثابت ہوئی ہیں۔ فوج نے کرپشن، بے ضابطگیوں اور قومی مفادات کے خلاف زیرو ٹالرنس ثابت کی ہے۔ فروری 2024ءکے انتخابات کے نتیجے میں معرض وجود میں آنے والی حکومت نے عوام کے غربت، مہنگائی، بے روزگاری کے مسائل کو مہمیز لگا کر عوام کی مایوسیوں میں مزید اضافہ کیا ہے۔ مہنگائی نے عوام کاجینا دو بھر کر دیا بجلی کے بل قیامت بن گئے جو ذمہ داروں کی شامت کا باعث بن سکتے ہیں۔
اس سارے منظرنامے کے پیشِ نظر پاکستان کے جشنِ آزادی کے موقع پر پاکستان کا استحکام اور عوام کی خوشحالی پر سنگین خطرات لٹکتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔ یہ صورتحال بھارت کو پاکستان کی سلامتی کے خلاف اپنی سازشیں پھیلانے کا نادر موقع فراہم کررہی ہے جو پہلے ہی کشمیر کو ہڑپ کر کے پاکستان پر اپنی نظر بد گاڑے بیٹھا ہے۔ کشمیری عوام دنیا سے کٹ چکے ہیں مگر اس سے فرق نہیں پڑتا، آزاد عالمی میڈیا کشمیریوں پر ڈھائے جانے والے بھارتی مظالم کی رپورٹیں مسلسل نشر کررہا ہے۔ اس کا عالمی برادری کے ضمیر پر کتنا اثر ہوتا ہے، یہ سوالیہ نشان ہے تاہم پاکستان نے کشمیری عوام کا دامے درمے قدمے سخنے ساتھ نبھاتے ہوئے ان پر جاری بھارتی مظالم کو اقوام عالم میں اجاگر کرنے اور سلامتی کونسل سمیت ہر عالمی اور علاقائی فورم پر کشمیریوں کے استصواب کے حق کے لیے آواز اٹھانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ بھارتی شرارتوں سے نمٹنے کے لیے ہمیں اس وقت قائداعظم کے وژن پر عمل کرنے کی سخت ضرورت ہے۔ کشمیر کے بغیر پاکستان کا وجود مکمل نہیں ہو سکتا، لہٰذا کشمیر میں استصواب کے لیے عالمی قیادتوں اور نمائندہ عالمی اداروں کو متحرک کرنے کی ضرورت ہے۔ آج ضرورت اس امر کی بھی ہے کہ ہماری کشمیر پالیسی میں کسی قسم کا ابہام پیدا نہ ہونے دیا جائے۔ کشمیریوں کی جدوجہد درحقیقت تکمیل و استحکام پاکستان کی جدوجہد ہے جو ہمارے کسی فیصلے یا اقدام کے نتیجہ میں ضائع نہیں ہونی چاہیے۔
آج وطن عزیز کے یومِ آزادی کے موقع پر ملک میں سیاسی استحکام کی ضرورت ہے جو قومی قائدین کی باہمی چپقلش میں غارت ہوتا نظر آرہا ہے۔ ملک و قوم کو درپیش چیلنجز سے وسیع تر قومی اتحاد کی ضرورت ہے۔ ملک کی نظریاتی سرحدوں کے پاسبان کی حیثیت سے ادارہ¿ نوائے وقت اپنے بانی حمید نظامی اور معمار مجید نظامی کے اصولی موقف پر ڈٹا ہوا ہے اور ان کے جدید اسلامی، جمہوری، فلاحی ریاست کے مشن کو حرزِ جاں بنائے ہوئے ہے۔ اس تناظر میں ملک میں آئین و قانون کی بالادستی، جمہوریت کی حکمرانی اور انصاف کی عمل داری ہمارا مطمح نظر ہے جو درحقیقت بانیانِ پاکستان اقبال و قائد کا وطن عزیز کے لیے روشن تصور تھا۔ خدا استحکام پاکستان کے مشن میں ہمیں استقامت عطا فرمائے۔