آؤ اہل وطن دعا مانگیں

جشنِ آزادی کے حوالے سے بچپن کے حسین نقش آج بھی باعثِ مسرت وتسکین ہیں گھر،گلی،محلہ،بازار اور ہمارا پیارا سکول،سبز ہلالی پرچم اور جھنڈیوں سے سجائے جاتے تھے ہم بھی سکول کے اسٹیج پر پرتپاک انداز میں کبھی چاند تارا اور کبھی سفیدملبوس میں لپٹی شھزادی کا روپ دھار لیا کرتے تھے ،جوش و جذبہ کسی سرکاری حکم نامے کی رسمی تعمیل،خانہ پری یا مجبوری کی بجائے مکمل فطری ہوا کرتا تھا ، پرخلوص اساتذہ ئ کرام بلا تفریق طلبا و طالبات کی ملی نغموں ،پرجوش تقاریر اور خوبصورت ٹیبلوز میں رہنمائی کیا کرتے تھے ۔کلاس فنڈ کے نام پرپیسہ پیسہ اکٹھا کرکے سکول کے در و دیواردلھن کی مانند سجائے سنوارے جاتے تھے گھر گھر جا کر چندے کے پیسوں سے گلی کے کسی کونے میں رنگوں ،پھولوں اور جھنڈیوں پر مشتمل ایک چھوٹا سا پاکستان تعمیر کیاجاتا تھا گھروں کی آرائش اس کے سوا تھی جنون وخرد دونوں ہی حب الوطنی سے سرشار رہا کرتے تھے اور یہ وہ وقت تھا جب تابناک مستقبل کا خواب برحق سمجھا جاتا تھا
اب پاکستان کے یوم آزادی کاجشن الماسی ہے،ڈائمنڈ جوبلی تقاریب کا انعقاد بھی جاری و ساری ہے لیکن حالات بدلے ،جذبے بکھرے،ترجیحات بدل گئیں تو انسان بھی یکسر مختلف ہو گیا ملکی صورتحال کا جائزہ لیں تو معیشت بحران زدہ اور امیدیں ہاری ہوئی محسوس ہو رہی ہیں باوجود واحد اسلامی ایٹمی طاقت کے ہم مقروض ہیں۔ روس کے بعد خلا میں راکٹ بھیجنے والا دوسرا ملک پاکستان زمانہ قدیم کی کسی بدحال ریاست کا منظر پیش کر رہا ہے،روایت،ثقافت،معاشرت خستہ حال اور اخلاقیات پستی کا شکار ہیں درسگاہیں کم ظرف اور خود غرض اساتذہ کی آماج گاہیں بن چکی ہیں لاتعداد موٹیویشنل سپیکرز اور مذہبی مبلغین کی کثرت میں "حسن عمل" ناپید ہے چاند تاروں کی مانند دمکنے والے معصوم پھول دست گلچیں کی چیخوں سے لرزاں،پیسہ روپے میں تبدیل اور روپیہ ڈالر کی گردش سے منسلک ہو گیا ہے شاعرو ادیب جو سرمایہ قوم اور حب الوطنی سے سرشار ہوا کرتے تھے ہم عصروں سے بغض کی بنیاد پر سبقت لینے کی دوڑ میں شامل ہیں تکلیف دہ حالات میں بھی سر پر عشقیہ شاعری کا بھوت سوار ہے تعمیری اور اصلاحی طرز اپنانے کی بجائے شر انگیز تحریروں سے سستی شہرت کے خواہاں ہیں
انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا ٹیکنالوجی کی بیساکھیوں پر اٹلاتے نوجوان بیراہ روی کی زد میں ہیں طرح طرح کے تضادات میں بٹے ہمارے شہریوں میں وحدتِ ملی مفقود ہو چکی ہے
حکومتیں ہیں تو مفاد پرستی کی آڑ میں غریبوں کا خون چوستی جونکیں!تعمیری سوچ کی حامل ایک حکومت نے ایک کروڑ درختوں کی شجر کاری کا بیڑا اٹھایا،قومی پرچم کی جگہ پودے خرید کر لگانے کو ترجیح دی اور پس پردہ ارض وطن کی اراضی ہاؤسنگ سکیموں کے حوالے کرکے پرانے اشجار سایہ دار کا قتل عام کیا گیا رئیل اسٹیٹ چکمتی رہی اور شہریوں کا ارزاں لہو خون ناحق کی طرح مہنگائی سے جنگ میں رائیگاں ہوتارہا
سیاسی،مذہبی،لسانی اور نسلی تعصب تو بام عروج پر ہے ہی لیکن تفریح میں بھی تعصب کو ہوا دے کر فلم،ڈرامہ،تھئیٹر اور کھیلوں تک کو سچے تخلیق کاروں اور مجاہد صفت کھلاڑیوں کی حوصلہ شکنی کر کے شدید نقصان پہنچایا گیا۔مقام فکر ہے کہ کیا یہ سب بھی بیرونی سازش ہے؟"اقبال کا شاہین "خود ہی کرگس بن جائے تو قصور کسی چیل کوے کا نہیں ہو سکتا،بیرونی ایجنڈے کا نصاب پڑھنے والی نسل نو قومی افکار اور نظریاتی فلسفہ تو کجا قومی پرچم کے اصل سبز رنگ تک سے ناواقف ہے ذہنی انتشار کا اندازہ اسی بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ جشنِ آزادی پر قومی پرچم کے ساتھ سیاسی تعصب کو ہوا دینے کے لیے سیاسی جماعتوں کے پرچم بھی فروخت کیے جا رہے ہیں جنھیں اصولی طور پر صرف انتخابات میں ہی لہرایا جانا چاہیے سیاست کاروبار بن چکی ہے نوآمدہ حکومت کے منصوبوں پر مدلل مخالفت وحمایت کی جگہ اپوزیشن اگلے انتخابات کی تیاریاں شروع کر دیتی ہیاور جلسوں دھرنوں کی زینت بنتی یہ شہری بھیڑ بکریوں کے ریوڑ کی سی حیثیت رکھتی ہے ، حکمران ان کیڑے مکوڑوں پر حکومت کر کے اپنی حکمرانی کا زعم بحال رکھتے ہیں
پاکستان زمینی حقائق میں زندہ درگور ہو چکا ہے آسمانی آفات اس کے علاوہ ہیں،اس دور ناممکن میں جینا محال بھی ہے اور لازم بھی،دشمن کا نشانہ حکمران نہیں عوام ہیں،اس جانب کسی نے توجہ ہی نہیں دی کہ مسلسل بیتوجہی میں ہماری نسل نو کا سوچے سمجھے منصوبے کے تحت جنسی زیادتی اور قتل کے ذریعیقلع مع کیا جا رہا ہے.
اور باقی ماندہ نوجوانوں کو مختلف تنظیموں میں شمولیت دلوا کر ایک دائرے میں محدودرکھ کے گھما گھماکرنڈھال کر دیا گیا ہے تاکہ کوئی بہتری نہ لائی جا سکے اب جنگ بارود سے نہیں علم و ادب اور اخلاقیات سے ہیقلم کاروں کو سربکفن میدان اصلاح میں تیار ہو کر اترنے کی ضرورت ہے تاکہ سوشل میڈیا کے ادھام سے نسل نو کی تباہی کے آگے بند باندھے جا سکیں
حالات اگرچہ بدترین ہیں لیکن ابھی کچھ رمق باقی ہے بے گناہ جسموں پر بارود داغنے والے ہمارے حوصلے منجمند اور لہو سرد نہیں کر سکتے ہم پاکستانی ہیں اتنی آسانی سے اپنی شکست تسلیم نہیں کریں گے آخر ی لمحے تک لڑیں گے حوصلہ اور جرات اسی ماحول میں پروان چڑھتا ہے اور ہمارے حوصلوں سے نبردآزما ہونا بھی بہت حوصلے کا کام ہے سبز ہلالی پرچم کی سربلندی کے لیے راکھ سے چنگاری بننے کا عزم مصمم کرتے ہوئے ایک نئے جذبے کے ساتھ پاکستان کی پچھترویں سالگرہ پر ہم نوائی کی اشد ضرورت ہے
آؤ اہل وطن دعا مانگیں
تخت جس کو ملے،ملے لیکن
قوم کا بخت سو نہ جائے کہیں
وہ جو پہلے ہوا ہمارے ساتھ
پھر وہی ظلم ہو نہ جائے کہیں
آؤ اہل وطن دعا مانگیں