یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ نظریۂ پاکستان کی خشتِ اول آفتاب ہند امام ربانی حضرت مجدد الف ثانی نے دین اکبری کا قلع قمع کر کے رکھی تھی لیکن مغلیہ سلطنت کے زوال پذیر ہوتے ہی فرنگی سامراج نے اپنا تسلط جما کر اسلامیان برصغیر کے قلب و جگر سے روح جہاد ختم کرنے کی مذموم کوشش کی تاکہ یہاں پر کفر و ظلمت کے گھٹا ٹوپ اندھیرے ہی چھائے رہیں، حکیم الامت علامہ اقبال رحمتہ اللہ علیہ نے اسی صورت حال کا نقشہ کھینچتے ہوئے فرمایا ہے
یہ فاقہ کش موت سے ڈرتا نہیں ذرا
روح محمد اس کے بدن سے نکال دو
فکرِ عرب کو د ے کر فرنگی تخلیات
اسلام کو حجاز ویمن سے نکال دو
1936ء میں جب قائد اعظم نے مسلم لیگ کی تنظیم نو کا بیڑا اٹھایا اور ہندو مسلم دو جداگانہ قوموں کی آواز بلند کی تو برصغیر میں سب سے پہلے امیر ملت ہی نے قائد اعظم کو اپنے مکمل اور بھرپور تعاون کا یقین دلایا۔ آپ اس وقت حیدر آباد دکن (انڈیا) میں مقیم تھے۔ وہاں سے قائد اعظم کے نام ایک ہمدردانہ و ہمت افزا پُرخلوص خط مع تبرکات برکات بمبئی کے ایڈریس پر ارسال کرتے ہوئے تحریر فرمایا کہ۔
قوم نے مجھے امیر ملت مقرر کیا ہے ا ور پاکستان کے لیے جو کوشش آپ کر رہے ہیں وہ میرا کام تھا، لیکن میں 100 سال کے قریب عمر کا ضعیف و ناتواں ہوں۔ یہ بوجھ آپ پر آن پڑا ہے۔ میں آپ کی مدد کرنا فرض تصور کرتا ہوں۔ میں اور میرے متوسلین آپ کے معاون و مدد گار رہیں گے، آپ مطمئن رہیں۔ اس کے بعد حضرت امیر ملت محدث علی پوری نے اپنے صاحبزادگان، خلفاء اور مریدوں کو حکم دیا کہ دل و جان سے مسلم لیگ کی حمایت کریں، رکنیت اختیار کریں اور قاء اعظم کے سپاہی بن کر مسلم لیگ کو ہر دل کی دھڑکن بنا د یں۔ جیسا کہ تحریک پاکستان کے نامور سپاہی پیرزادہ محمد انور عزیز چشتی اپنے ایک انٹرویو میں بیان کرتے ہیں۔ 1936ء میں میرے پیر و مرشد پیر سید جماعت علی شاہِ محدث علی پور سیداں شریف ضلع سیالکوٹ نے میرے والد صاحب کو مشورہ د یا اور ان سے اجازت طلب فرمائی کہ وہ میری زندگی مسلم لیگ کے لیے مسٹر محمد علی جناح کے ایک سپاہی کی حیثیت سے ’’وقف‘‘ کر د یں۔ میرے والد صاحب نے میرے پیر و مرشد کے مشورہ کو قبول کر لیا۔
اپریل 1936ء کی ایک گرم دوپہر کو جب آل انڈیا مسلم لیگ کی ورکنگ کمیٹی کا اجلاس لاہور کے موچی دروازہ کے برکت علی محمڈن ہال میں منعقد ہو رہا تھا میں نے میٹنگ کے وقفے کے دوران مسٹر جناح کو اپنے پیرو مرشد امیر ملت اور اپنے والد صاحب کے دو خطوط پیش کیے جن میں ان دونوں عظیم ہستیوں نے میرے لیے یہ تحریر کیا تھا کہ ہمارا یہ بیٹا بہت اچھا مقرر ہے، ہم نے اس کی زندگی مسلم لیگ کیلئے وقف کر دی ہے۔ اسے اپنے سپاہیوں میں شامل فرما لیں۔
مسٹر محمد علی جناح نے بہت خوشی کا اظہار کیا اور مولانا شوکت علی مرحوم سے مخاطب ہو کر فرمایا کہ ’’یہ نوجوان ضلع منٹگمری (حال ساہیوال) میں ہمارا مجاہد اول ہے‘‘ اوائل اپریل 1938ء میں حضرت امیر ملتؒ نے کوہاٹ، پشاور اور راولپنڈی کا دورہ فرمایا اور کانگرس کی خوب قلعی کھولی اور مسلم لیگ کی تائید و حمایت میں مدلل تقریریں فرمائیں۔
کوہاٹ میں مسلم لیگ کی بنیاد رکھنے کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے آپؒ نے مسلمانوں کو تاکید کرتے ہوئے فرمایا۔ ’’سب مسلمان آپس میں متفق ہو کر اسلامی جھنڈے تلے آ جائو۔ ہندو مسلمان کا ہرگز خیر خواہ نہیں ہو سکتا۔ آج کل اطرافِ عالم میں جو مظالم ہندوئوں کی طرف سے مسلمانوں پر ڈھائے جا رہے ہیں کسی فرد و بشر سے پوشیدہ نہیں۔ ‘‘ ایسے مظالم کو سامنے دیکھ کر اب بھی اگر کوئی مسلمان ان سے اختلاط کرے خواہ وہ مولوی ہو یا عالم اس کو اسلام سے کیا تعلق اور مسلمانوں کو اس سے کیا میل ملاپ۔ ایسے نام نہاد مولویوں سے ان کو تقویت پہنچی ہے کہ وہ مسلمانوں کے خلاف ظلم کر رہے ہیں۔ آخر میں آپؒ نے دعا فرمائی کہ اللہ تعالیٰ مسلمانوں میں اتفاق و اتحاد پیدا فرمائے اور ایسے نام نہاد مسلمان (ہندو پرستوں سے) سچے مسلمانوں کو بچائے۔
11 مئی 1938ء کو انجمن خدام الصوفیہ ہند علی پور سیداں شریف کے 35 ویں سالانہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے حضرت امیرملتؒ نے فرمایا کہ ’’ہندوستان کے تمام مسلمانوں کے لیے لازم ہے کہ وہ تمام کے تمام مسلم لیگ میں شامل ہوں کیونکہ اس وقت کفر اور اسلام کی آپس میں جنگ ہے۔ ایک طرف کفر کا جھنڈا ہے اور دوسری طرف اسلامی پرچم ہے جو مسلم لیگ کا ہے تمام مسلمانوں کے لیے لازم ہے بلکہ ہر مسلمان کا فرض ہے کہ وہ اس وقت مسلمانوں کو بچانے کے لیے اور اسلامی شعائر کی حفاظت کے لیے تمام کے تمام مسلم لیگ میں شامل ہو جائیں۔‘‘
حضرت اقدس کے اس اعلان کے بعد لوگ دھڑا دھڑ مسلم لیگ میں شامل ہونے لگے حتیٰ کہ جلد ہی مسلم لیگ عوامی جماعت بن گئی۔ حضرت امیرِ ملت کے مریدوں نے جو کہ لاکھوں کی تعداد میں تھے پورے ہندوستان میں مسلم لیگ کی شاخیں قائم کر کے تحریک پاکستان کو ایک ولولہ تازہ بخشا۔ 20 اپریل 1938ء کو حضرت امیر ملت نے صوبہ سرحد کے مریدوں کو ایک خاص پیغام بھیجا کہ وہ مسلم لیگ میں شامل ہو کر آزادی کی منزل حاصل کرنے کے لیے اپنی تمام تر مساعی صرف کر دیں۔
"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
Mar 27, 2024