شجاعت ہاشمی ہر ادبی علمی محفل میں ہوتا ہے۔ وہ ایک بے پناہ آرٹسٹ ہے مگر ایک بے شمار دانشور بھی ہے۔ اس نے انگریزی ادب میں ایم اے کیا ہے مگر گارڈن کالج کے کسی پروفیسر کا ذکر کبھی نہیں کیا۔ وہ صرف پروفیسر نصراللہ ملک کو یاد کرتا ہے۔ ملک صاحب ایک حیرت انگیز آدمی تھے۔
میں وہاں پڑھانے کے ٹیڑھے میڑھے راستوں میں تھا اور شجاعت بہت کچھ پڑھنے کی آخری خوبصورت منزلوں پر تھا۔ میں کسی ایسی منزل پہنچ نہ سکا۔ شجاعت ہاشمی سے بھی کسی راستے پر ملاقات ہوئی تھی یہ ملاقات لاہور میں ہوئی اور ہوتی رہی۔ مگر ہمیں ایک دوسرے سے گارڈن کالج پنڈی کی خوشبو آتی ہے۔
شجاعت ہاشمی شعر و ادب کا آدمی ہے مگر اس نے کبھی کچھ لکھا نہیں۔ ورنہ ہم اسے سنتے۔ وہ ہمیں اس قابل جانتا یا نہ جانتا مگر ہم اُسے سنتے ۔ ہم اہل نہیں تھے مگر اہل دل تو ضرور تھے شجاعت نے انگریزی ادب میں ایم ا ے کیا ہے اور ہم تو بی اے میں بھی انگریزی میں فیل ہوتے ہوتے بڑی مشکل سے بچے مگر اردو ادب میں کوئی بات بنانے کے لیے بھی انگریزی ادب پڑھنا پڑا۔ ہم نے کس طرح پڑھا یہ بتانے والی بات نہیں ہے۔ اردو شعر و ادب میں ایسے پھنسے کہ یہاں سے نکلنے کے لیے بھی انگریزی ادب کا سہارا لینا پڑا۔ اس ضرب المثل کے معانی پتہ نہ چلے۔ البتہ اس ضرب تقسیم میں بہت فائدہ ہوا جبکہ ہم اس مقام پر نفع نقصان سے ماورا ہو چکے تھے۔
شجاعت ہاشمی انگریزی ادب پڑھنے کے لطف میں ڈوبا ہوا تھا اور ہم گارڈن کالج راولپنڈی میں اردو ادب پڑھانے کے دھیان میں کھوئے ہوئے تھے جو اردو زبان و ادب پڑھانے میں چسکا ہے وہ انگریزی ادب میں تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ بی اے تک تو انگریزی ہم نے بھی پڑھی ہے۔ ا یک عجیب اور دلچسپ اذیت کا سامنا تھا مگر ہم کبھی اتنے بیزار نہ ہوئے۔ البتہ انگریزی زبان سے تعلق نہ بن سکا مگر انگریزی ادب پڑھے بغیر بات نہ بنی۔
وہ بہت بڑا اداکار بھی ہے مگر اداکار کا لفظ اس کی شخصیت کے ساتھ مناسب نہیں ہے۔ اُسے زیادہ سے زیادہ فنکار کہا جا سکتا ہے کیونکہ فن کی حدود کو متعین نہیں کیا جا سکتا۔ شجاعت دیکھنے میں آسانی سے آتا نہیں تو پھر جاتا بھی نہیں۔
وہ کسی محفل میں اجنبی نہیں ہوتا بلکہ اس کی موجودگی میں ایک نامعلوم قسم کی آسودگی محسوس ہوتی ہے جو پہلے خود اسے محسوس ہوتی ہے۔ برادرم اظہر جاوید نے کچھ لکھنے اور سوچنے والوں کو ایک کھانے کی دعوت میں جمع کیا تھا۔ حیرت ہے کہ وہاں مرکزی کرسی پر کوئی نہ بیٹھا۔ یہ شائد شجاعت کے لیے منتظر تھی اور مخصوص تھی۔ وہاں ایوب خاور تھا پرویز حسن عسکری ہوٹل کے مالک ڈاکٹر رفیق اور کچھ نمایاں دوست تھے۔ کچھ محفلیں ایسی ہوتی ہیں کہ بار بار لکھنے کو دل کرتا ہے۔ وہاں مرکزی کرسی پر شجاعت آ بیٹھے۔ ہم سب خوش ہوئے جیسے محفل میں کچھ کمی سی تھی اب یہ محفل باوقار بھی تھی اور مکمل بھی تھی۔
ہماری اس محفل میں کوئی خاتون نہ تھی۔ مجھے ایسی محفلیں ادھوری لگتی ہیں۔ ایک خاتون میزبانوں میں تھی۔ اس میں میزبانی کی سب صفات تھیں اور وہ خدمت گزاری کے سب ہُنر بھی وقار اور اعتبار کے ساتھ جانتی تھی۔ میں نے چاہا کہ اس کی خدمت میں عرض کیا جائے پھر میں نے سوچا کہ ڈاکٹر رفیق بیٹھے ہیں۔ شجاعت محفل میں تقریباً صدر تھے۔ سوفان اظہر جاوید بھی موجود تھے تو میں کیا حق رکھتا ہوں۔
برادرم اظہر جاوید سے ایک تعلق تھا اب سوفان اظہر جاوید بھی پیار کرتے ہیں۔ میں ان دونوں باپ بیٹا کو برادرم کہتا ہوں۔ ماہنامہ تخلیق بھی میرے پاس کبھی کبھار آتا ہے۔ اور میں خوش ہو جاتا ہوں۔ میری سوفان سے گزارش ہے کہ وہ اس طرف توجہ رکھے۔ یہی کام مرحوم برادرم اظہر جاوید کو زندہ رکھنے کی ایک سبیل ہے۔
٭٭٭٭
کچھ دن پہلے امجد اسلام امجد نے دوستوں کو ایک محفل میں بلایا۔ گپ شپ ہوئی۔ میری نشست بزرگ دانشور بابا یحییٰ خان کے ساتھ تھی۔
میں نے وہاں خواتین ادیبوں کی عقیدت کے کئی مناظر دیکھے۔ بابا جی بہت سیدھے سادھے اور ہر کسی سے محبت کرنے والے آدمی ہیں۔ ایک باوقار عاجزی ان کی شخصیت میں اعتبار پیدا کرتی ہے۔
ایک نوجوان نے چلتے پھرتے میزبانی کے فرائض انجام دئیے۔ یہ اچھے دل والے لوگوں کا اجتماع تھا۔ یہاں خواتین زیادہ نہیں کم از کم مرد حضرات سے زیادہ تھیں۔ اس لیے محفل میں رونق کا احساس رہا ہے۔
مجھے پیلاک کی ڈائریکٹر جنر ل ڈاکٹر صغرا صدف گھر سے اٹھا کے لے گئیں اور پھر مجھے گھر چھوڑ بھی گئیں۔ یہ ان کی مہربانی ہے۔ ان کی وجہ سے ادارہ بہت بھرا بھرا لگتا ہے۔ مختلف محفلوں کی وجہ سے یہ جگہ آباد رہتی ہے۔ وہ بہت عزت کرنے والی خاتون ہے۔ جسے انتظام و انصرام کے سارے ہنر معلوم ہیں۔ کوئی بھی ان سے خفا نہیں ہوتا ہے۔ وہ کسی کو بھی خفا نہیں کرتی۔ کوشش کرتی ہے کہ ہرکوئی خوش رہے۔
اس ادارے میں نامور دانشور دوست برادرم مدثر اقبال بٹ کی صاحبزادی ڈاکٹر ثنا مدثر بٹ بھی کام کرتی ہے۔ صغرا اس کی بہت معترف ہے اور تعریف کرتی ہے۔ ڈاکٹر ثناء مدثر اقبال بٹ کی ایک تخلیقی تنقیدی کتاب شائع ہوئی ہے۔ ’’زبان دی جدوجہد‘‘ انہوں نے اس کتاب میں اپنے عظیم والد مدثر اقبال بٹ کے پنجابی زبان و ادب کے روزنامہ بھلیکھا 25 برسوں کی ادبی خدمات کے سفر پر ایک شاندار کتاب لکھی ہے جس میں ’’بھلیکھا‘‘ کے حوالے سے 14 مضامین شامل ہیں جس میں خود مصنفہ کا ایک طویل مضمون ’’اخباری صحافت دا آغاز‘‘ بھی شامل ہے جو پنجابی اخباری صحافت کی پوری کہانی ہے۔ ان کے والد مدثر اقبال بٹ کی بھی ایک تحریر اپنے رسالے بھلیکھا کے بارے میں ’’بھلیکھا‘‘دا 25 ورھیاں کا پینڈا‘‘ کے نام سے کتاب بھی موجود ہے۔ اس کے علاوہ نامور پنجابی لکھاریوں کی تحریریں شامل ہیں۔ تقریباً 20 منتخب کالم بھی موجود ہیں جو مختلف دوستوں نے لکھے ہیں۔ مشتاق صوفی‘ احمد عقیل روبی‘ ڈاکٹر صغرا صدف اور مفتی نزہت عباس بلال مدثر بٹ کی تحریریں پڑھنے کے قابل ہیں۔
اس کتاب کی شکل میں ڈاکٹر ثنا بٹ کی کاوش قابل ستائش ہے۔ کتاب کا ٹائٹل بھی بامعنی اور خوبصورت ہے۔ بابا فرید بک فائونڈیشن کی طرف سے ایک بھرپور فلیپ کتاب کے آخر میں موجود ہے۔
’’ڈاکٹر ثنا مدثر بٹ ہوراں دی کتاب اوہناں دی پنجابی وچ کٹھے کیتے گئے مضمون دا انتخاب اے۔ مدثر اقبال بٹ کے رسالے ’’بھلیکھا‘‘ وچ کدی کدی ایہہ مضمون چھپدے رہے نیں تے ثنا جی ہوراں دا ایم اے دا مقالہ وی روزنامہ بھلیکھا دے بارے ہی سی۔ اوہناں نے گریجوایشن تے ایم اے پنجابی لہور کالج فار ویمن توں فرسٹ ڈویژن وچ چنگے نمبراں نال کیتا تے فیر ی ایچ ڈی وی ایسے یونیورسٹی تو کرن دا اعزاز حاصل کیتا جیہڑی اک قابل تعریف گل اے۔‘‘
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38