اکابرین تحریک پاکستان اور آزادی کی قدر کیجئے
پاکستان کی آزادی اﷲ تبارک و تعالیٰ کی ایک بہت بڑی نعمت ہے۔ ہمیں اس کی اور اس کی آزادی میں حصہ لینے والوں کی قدر کرنی چاہئے۔ مغل بادشاہوں کی حکومت ختم ہونے پر انگریز نے ہندوؤں کے ساتھ مل کر مسلمانوں کو برصغیر میں اتنا گرا دیا کہ سرسید احمد خان کو تحریک علی گڑھ چلانی پڑی۔ آپ نے برصغیر کے مسلمانوں پر واضح کر دیا کہ اگر تم اپنی علمی قابلیت بڑھاؤ گے نہیں تو تمہارا کلچر‘ تمدن‘ رہن سہن ختم ہو کر رہ جائے گا۔ آپ نے علی گڑھ یونیورسٹی جیسا ادارہ بنا کر مسلمانوں کو تعلیمی لحاظ سے آگے لانے کا فریضہ سر انجام دیا جس کا یہ نتیجہ نکلا کہ مسلمان جو علیگ کہلاتے تھے ان کی نہ صرف ہندو بلکہ انگریز بھی قدر کرتے تھے۔ آہستہ آہستہ مسلمانوں میں تعلیم اور اپنے آپ کو آگے بڑھانے کا شعور بڑھتا گیا اور آخر کار نواب وقارالملک اور نواب محسن الملک نے 1906 ء میں مسلم لیگ کی بنیاد ڈالی اور آگے جا کر ہی مسلم لیگ پاکستان بنانے میں کامیاب ہو گئی۔
ہندوؤں کی جماعت کانگریس اپنے آپ کو سیکولر کہتی تھی لیکن قائداعظمؒ نے اس میں شامل ہو کر دیکھ لیا کہ ان کا نظریہ منہ میں رام رام اور بغل میں چھری ہے ۔ آپ نے کانگرس سے علیحدہ ہو کر مسلم لیگ میں شرکت کی اور پاکستان بنانے میں مصروف ہو گئے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ آپ کو اپنی صحت کی قربانی دینا پڑی۔ آپ نے اپنے ذاتی معاملات کو پس پشت ڈال دیا اور ایسی قربانی دی جو رہتی دنیا تک یاد رہے گی۔ قائداعظمؒ کو پاکستان بنانے کیلئے نہ صرف انگریز بلکہ ہندوؤں کی مخالفت کا سامنا کرنا پڑا ۔ لیکن آپ عظمت و ہمت کا ایک کوہ گراں تھے۔ علامہ اقبال نے اپنی شاعری ‘ تحریر و تقریر سے آپکی ہمت بڑھائی۔ تصور پاکستان کو اجاگر کیا۔ قائداعظم جیسا محنتی شخص انگریزوں اور ہندوؤں کے پاس نہیں تھا۔ قائداعظم نے اپنے مخلص ساتھیوں نوابزادہ لیاقت علی خاں‘ مولانا ظفر علی خاں‘ عبدالرب نشتر‘ ایوب کھوڑو دیگر اکابرین کے ساتھ مل کر آزادی دلادی۔ آزادی میں لاکھوں مردوں‘ عورتوں‘ بچوں کو اپنی جان‘ مال‘ عزت و آبرو کی قربانی دینی پڑی۔ گھر بار چھوڑنا پڑا۔نئے سرے سے زندگی گزارنے کا پلان بنانا پڑا۔ لاتعداد لوگ فاقہ زدی کا شکار ہوگئے۔ غربت نے مہاجرین کے گھر میں ڈیرے ڈال دئے۔ کسی کو بھی یہ معلوم نہ تھا کہ ان کو زندگی گزارنے کیلئے کیا کیا کام کرنے پڑیں گے۔ لیکن ایک ہی عزم تھا کہ پاکستان میں اسلامی نظام قائم ہو گا اور ہندوؤں اور انگریزوں کی غلامی نہیں کرنی پڑے گی لیکن یہ خواب بڑا سہانا تھا جب اس کی تعبیر سامنے آئی وہ خواب کے الٹ ثابت ہوئی۔ قائداعظم اور معماران پاکستان کی جگہ لٹیروں نے لے لی۔ نظریہ پاکستان پر عمل درآمد کرنا ان حکمرانوں کا نصب العین نہیں تھا۔ پاکستان بنانے والے اﷲ تعالیٰ کی بارگاہ میں حاضر ہو گئے۔ ان کی اولادیں اور قوم اب خواب کی روشن تعبیر دیکھنے کے متمنی ہیں۔ پاکستان کے غریب عوام دن رات غربت کی چکی میں پس رہے ہیں۔ وہ انتظار کر رہے ہیں کہ ہمارے آباؤاجداد نے جس مقصد کیلئے اتنی عظیم قربانیاں دی تھیں پاکستان میں اسلامی نظام کب آئے گا۔
پاکستان پر حکومت کرنے والے سیاستدانوں کی اکثریت پاکستان کے نظریے سے مخلص نہیں تھے۔ ہمارے بعد آزاد ہونے والے ملکوں نے ہم سے کہیں زیادہ ترقی کرلی ہے۔ ہمارے پاس ایماندار‘ محنتی اور نظریہ پاکستان سے محبت کرنے والوں کی کمی نہیں ہے۔ آج ملک میں جس سی پیک کی شہرت کا ڈنکا بج رہا ہے گوادر کی بندرگاہ کا پاکستان میں شامل ہونا ‘ بیگم وقار النساء نون کی کاوشوں کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ محمد ایوب خان نے عمان کو اس کی قیمت ادا کی۔ آج ہماری اس بندرگاہ پر دشمنوں کی نظر ہے۔ پاکستان کے نااہل سیاستدانوں کی حماقتوں کی وجہ سے ہماری خارجہ پالیسی ناکام ہو رہی ہے۔ ہمارا ازلی دشمن بھارت اپنے بارڈر کے علاوہ افغانستان کے راستے بم بلاسٹ کر کے ہماری آزادی سلب کرنے کے در پر ہے۔ وہ افغانستان اور ایران کو اپنا دوست ظاہر کر رہا ہے۔ ہماری ترقی رک چکی ہے۔ ہماری قوم کے اندر بلا کا ٹیلنٹ موجود ہے۔ ہمیں آسانی سے غلام نہیں بنایا جا سکتا۔ ہمارے سیاستدانوں کا مخلص ہونا ضروری ہے۔
پاکستان نہ صرف واحد اسلامی ایٹمی مملکت ہے بلکہ اس کا میزائل سسٹم بھی دنیا میں اپنی دھاک بٹھا چکا ہے۔ پاکستان کے ماہرین تعلیم‘ طلبائ‘ کمپیوٹر ٹیکنالوجی کو سمجھنے والے انجینئرز اور ڈاکٹر نے اپنی قابلیت کا سکہ جمایا ہوا ہے لیکن شومئی قسمت سے یہ لوگ غیر ممالک میں خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔ پاکستان وسائل سے مالا مال ہے۔ کمی صرف نیت اور محنت کی ہے۔ اگر اس کے وسائل کو ایمانداری اور قومی دولت سمجھ کر استعمال کیا جائے تو چند سالوں میں ہمارے ملک کی کایا پلٹ سکتی ہے۔ پاکستان کی بری‘ بحری اور فضائی افواج کی دشمن پر ہیبت طاری ہے۔ ہمارا نوجوان بھی چاہتا ہے کہ پاکستان میں مثبت تبدیلی آئے۔ ان انتخابات میں نوجوانوں نے تبدیلی کے نام پر ووٹ دیا ہے۔ اگر اب بھی اس آنے والی حکومت نے پاکستان کے نظریے پر کام نہ کیا اور پاکستان کو مدینہ جیسی ریاست بنانے کا خواب شرمندہ تعبیر نہ ہو سکا تو قائداعظم اور دیگر اکابرین روز قیامت ان حکمرانوں کا گریبان پکڑ لیں گے۔ ہمارا فرض ہے کہ ہم آزادی دلانے والے ان اکابرین کی عزت و توقیر کریں اور ملک کو ترقی دیں۔ اﷲ تعالیٰ پاکستان کا حامی و ناصر ہو۔
٭٭٭٭٭٭