پیپلز پارٹی کی اعلیٰ قیادت میاں شہباز شریف سے فاصلہ برقرار رکھنا چاہتی ہے
پاکستان کی 15 ویں قومی اسمبلی کے 324 ارکان کی حلف برداری کے بعد ایوان زیریں کا باضابطہ طور پر قیام عمل میں آ گیا ہے۔ دو قومی اسمبلیوں نے اپنی آئینی مدت پوری کی اور پر امن انتقال اقتدار کا مرحلہ مکمل ہونے کو ہے۔ 15 ویں قومی اسمبلی کے انتخابات کے بارے میں اپوزیشن جماعتوں نے 25 جولائی کی رات
عوامی مینڈیٹ پر ڈالے جانے والے ’’ڈاکہ‘‘ کو بے نقاب کرنے کا فیصلہ کیا۔گزشتہ روز پارلیمنٹ ہائوس میں قومی اسمبلی کی کاروائی دیکھنے کے لئے ملک کے طول و عرض سے سینکڑوں سیاسی کارکن آئے تا ہم سب سے زیادہ پاس تحریک انصاف کے کارکنوں کو جاری کیے گئے ۔ جب پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان ایک’’ فاتح ‘‘کی حیثیت سے ایوان میں داخل ہوئے تو سب سے زیادہ پرجوش استقبال انہی کا کیا گیا۔ اسی ایوان میں نواز شریف کے نعروٖں کی گونج سنائی دیتی رہی ہے۔ آج کپتان قومی اسمبلی کے رکن کی حیثیت سے حلف اٹھا کر وزارت عظمیٰ کے منصب سے چند قدم کے فاصلے پر ہیں۔قومی اسمبلی کے غیر معمولی حفاظتی اقدامات کیے گئے تھے۔ کسی غیر متعلقہ شخص کوپارلیمنٹ کے اندر داخل نہیں ہونے دیا گیا حتیٰ کہ سینئر صحافی جو پریس گیلری تک پہنچنے میں کامیاب ہو گئے، ان کو بھی پریس گیلری میں داخل نہیں ہونے دیا گیا۔ قومی اسمبلی کی مسلسل تین بار منتخب ہونے والی خاتون رکن سیما جیلانی نے بلند بانگ نعرے لگا کر ایوان کا ماحول گرما دیا اور مسلم لیگی ارکان کو بھی ان کا ہمنوا ہونا پڑا۔ پاکستان کے دو سابق سپیکر گوہر ایوب اور یوسف رضا گیلانی نے سپیکر گیلری میں بیٹھ کر ایوان کی کاروائی دیکھی ۔موجودہ سپیکر سردار ایاز صادق نے ان کا خاص طور پر ذکر بھی کیا جبکہ سابق صدر آصف علی زرداری، سابق وزیراعظم راجہ پرویز اشرف، سابق سپیکر فہمیدہ مرزا نے حلف اٹھایا۔ 15 ویں قومی اسمبلی میں جن پارلیمنٹرین کی کمی محسوس کی گئی ان میں میاں نواز شریف، چوہدری نثار علی خان، اسفندیار علی، غلام احمد بلور، مولانا فضل الرحمان، شاہد خاقان عباسی کے نام قابل ذکر ہیں۔ مسند وزارت عظمیٰ‘‘ جو عمران خان سے چند قدم کے فاصلے پر ہے عمران خان اس منصب پر فائز ہونے کے بعد ان کے خطاب سے مستقبل کا سیاسی منظر قدرے واضح ہیں ۔ اب دیکھنا یہ وہ اپوزیشن کو ساتھ چلنے میں کس حد تک سنجیدہ دکھائی دیتے ہیں متحدہ اپوزیشن کا طرز عمل آنے والے دنوں میں واضح ہو جائے گا اگرچہ متحدہ اپوزیشن قائم ہو گئی ہے لیکن آصف علی زرداری اور میاں شہباز شریف ایک دوسرے سے ملنے کے روادار نہیں دونوں نے ایک دوسرے سے فاصلہ برقرار رکھا ہے آصف علی زرداری حلف اٹھانے والے پہلے رکن تھے وہ حلف اٹھانے کے بعد چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی سے ملاقات کے لئے ان کے چیمبر میں چلے گئے، قومی اسمبلی میں بہت بڑی تعدا د نئے منتخب ہونے والے چہرے ہیں وہ قومی اسمبلی کا ایوان بالکل نئی جگہ وہ قومی اسمبلی کے ایوان کو ’’حیرت‘‘ سے دیکھ رہے تھے ۔ بظاہر پاکستان مسلم لیگ (ن)، پاکستان پیپلز پارٹی اور متحدہ مجلس عمل ’’پاکستان الائنس فار فری اینڈ فیئر‘‘ پر اکھڑی ہیں لیکن پیپلز پارٹی کی اعلی قیادت نے اچانک میاں شہباز شریف کو وزارت عظمیٰ بنانے کی مخالفت کرکے ان قوتوں کوجو مسلم لیگ (ن) کی اعلیٰ قیادت کو دیوار سے لگانا چاہتی ہیں کو یہ پیغام دیا ہے وہ مسلم لیگ (ن) کے ساتھ کھڑے نہیں ہو گی۔ اس لئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ متحدہ اپوزیشن کا قیام کا خوب شرمندہ تعبیر ہوتا نظر نہیں آرہا ۔ 2013کے انتخابات میں منتخب ہونے والے 192 ارکان منتخب نہیں ہوئے ہیں اس پارلیمنٹ کا حصہ نہیں بنے۔
پارلیمنٹ ڈائری